جنگ کوئی کھیل نہیں ہے


\"mujahid

کون ایسا ہوگا جو جنگ کی ہولناکیوں سے شناسا نہ ہو۔ اس کے باوجود ایسے لوگ کچھ کم نہیں ہیں جو جنگ کے ضمن میں بلند بانگ دعویداری کرنے سے گریز کرتے ہوں۔ کل کی ہی بات ہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جو اس حیثیت کے بس عہدے دار ہیں اور جن کے ذمے کبھی کبھار بیان دینا شامل ہے، بیان دیا ہے ”ایٹم بم شو کیس میں سجانے کے لیے نہیں بنائے۔ قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو بم چلائیں گے“۔ بم برسانا یا بمباری کرنا تو مستعمل ہے یہ بم چلانا ان کی گلابی سیالکوٹی اردو کا کوئی انداز ہوگا یا انہوں نے اس سے مراد میزائیل داغنے کو چلانا کہہ کر لی ہے، اللہ جانے۔ تاہم یہ بیان نہ صرف غیر سنجیدہ بلکہ خالصتاً عسکری بیان تھا جو سابق بینکار کے منہ سے دلوایا گیا ہے۔ ممکن تھا کہ سرحد کے پار سے بھی کوئی ایسا ہی ”بیباکانہ“ بیان دے دیتا لیکن وہاں برسر اقتدار پارٹی کے مقتدر وزیر اعظم نریندر مودی کیا کم ہیں جو کبھی سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی بات کر دیتے ہیں تو کبھی کوئی اور متنازعہ بیان دے ڈالتے ہیں۔

لفظوں کی لڑائی بھی جنگ اور خصوصاً سرد جنگ کا حصہ ہوا کرتی ہے۔ معاند ملکوں کی فوجوں کے بجٹ، فوجیوں خاص طور پر اعلٰی فوجی افسروں کو میسر سہولیات و فوائد، فوج کی قیادت کے سیاست یا کم از کم حکومت کی پالیسیوں کو مرتب کیے جانے پر اثر کا انحصار دشمنی اور جنگ کے معاملے کو ہوا دینے پر ہوا کرتا ہے۔ اگر کسی ملک کے ساستدان مضبوط، باکردار نہ ہوں تو فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔

جیسے ملک پاکستان اور ہندوستان ہیں، ایسے ملکوں کے عوام کے ذہن ان ملکوں کے قیام کے فوراً بعد سے ہی عناد کی بنیاد پر استوار کیے گئے ہیں یوں لوگ ایک دوسرے کو جانے بغیر ایک دوسرے کے دشمن ہوئے ہوتے ہیں۔ سشما سوراج کا یہ کہنا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے کسی بھی متوازن ذہن شخص کے لیے اچنبھا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ کہنا ویسے ہی ہندوستان کی حکومت کی پالیسی کا حصہ رہا ہے جیسے پاکستان کی حکومت نے ہندوستان میں شامل ریاست جموں کشمیر کو مقبوضہ کشمیر قرار دیے جانے کو بطور پالیسی اپنایا ہوا ہے۔

جیسے سارے مسلمان اچھے نہیں ہو سکتے ویسے سارے ہندو یا سکھ بھی برے نہیں ہو سکتے۔ خالصتان کے قضیے کے بعد سے ہماری فوج نے ان سکھوں کو بالکل معاف کر دیا ہے جن کے اجداد نے پنجاب میں ہمارے اجداد کا خون بہایا تھا البتہ ہندووں کی شقاوت اور مبینہ کینہ پروری کو ہرگز نہیں بھلانا چاہتے۔ جیسے مغرب والوں کو سوویت یونین کے انہدام کے بعد ”دشمن“ تلاش کرنے میں دشواری پیش آئی تھی اور اسے بالآخر پہلے دہشت گرد اور اس کے بعد عالمی دہشت گردی ایجاد کرکےرائج کرنا پڑی تھی، ایسے ہی ہماری فوج اگر ہندو کو دشمن نہیں کہے گی تو کیا کرے گی۔

گذشتہ دنوں ایک بحث میں ایک سابق جرنیل بھی شریک تھے۔ انہوں نے بحث شروع ہونے سے پہلے ہی ہندووں کے پاکستان دشمن ہونے کا واویلا شروع کر دیا تھا۔ خالصتاً پرچار کی خاطر بلاتکان ایک ہی تان لگائے رکھنا کچھ بھلا نہیں لگتا اس لیے مجھ سے رہا نہ گیا اور بولا ” مجھے تو غیر ملک میں ہندوستانیوں کے ساتھ کام کرنے اور تعلقات رکھنے کا تجربہ ہے جن میں سے کسی کو میں نے پاکستان دشمن نہیں پایا“ تو وہ بولے کہ باہر جا کر یہ لوگ ”اور طرح“ کے ہو جاتے ہیں۔ میں ہندوستان کا دفاع نہیں کر رہا تھا بلکہ اپنے رفقائے کار راتھیندر چیٹرجی، انیل جین، پراگتی ٹیپنی، آرتی سونی اور یار غار کشمیر سنگھ کو یاد کر رہا تھا جو سارے کے سارے متوازن مزاج صحافی تھے۔

ممکن ہے جرنیل موصوف درست کہتے ہوں کیونکہ معاند ملکوں میں کام کرنے والے صحافیوں اور افسر شاہی سے وابستہ لوگوں کو اپنے اپنے ملکوں مین موجود حکومتوں کی پالیسیوں اور ریاست کی حکمت عملی کے مطابق نہ چاہتے ہوئے بھی اسی طرح سے لکھنا بولا پڑ جاتا ہے۔ تاہم وہ سب یہ ضرور جانتے ہیں کہ جنگ کوئی کھیل نہیں ہوتی۔

جس طرح ایک جراح عمل جراحی کے بعد کی تمام پیچیدگیوں سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتا ہے مگر ضرورت پڑنے پر اسے جراحی کرنی بھی ہوتی ہے اسی طرح فوج کے لوگ بھی جنگ کے منفی عوامل سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں پر ان کے خیال میں فوج بھی ” شو کیس میں سجائے جانے کی خاطر تیار نہین کی جاتی بلکہ جب قومی سلامتی کو خطرہ ہو تو اسے چلایا جاتا ہے“ تاکہ وہ محاذ پر جا کر جارح دشمن کے خلاف ڈٹ جائے۔ عمل جراحی کے بعد بیشتر مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں لیکن جنگ کے بعد ملکوں کو صحت یاب ہونے میں سالہا سال لگ جایا کرتے ہیں۔ لوگ مرتے ہیں۔ لوگ معذور ہو جاتے ہیں۔ صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ معیشت اپاہج ہو جاتی ہے۔ جہاں جنگ ہو وہاں کی زمین عارضی طور پر ہی سہی مگر بانجھ ہو جایا کرتی ہے۔

البتہ اس مذموم عمل میں ملکوں کے اندر کے عسکری صنعتی کمپلکس اور خاص طور پر دوسرے ملکوں کے ایسے ہی کمپلکس بے تحاشا کماتے ہیں۔ بہت زیادہ عام لوگوں کے مصائب کی بنیاد پر گنتی کے افراد اور ادارے بے تحاشا امیر ہو جاتے ہیں کیونکہ دنیا کا ہر عمل امیر افراد کے کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد اور صنعتی کمپلکس بھی جنگ کے لیے فضا سازگار کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں تاکہ اسلحہ زیادہ تیار ہو اور بکے۔

جنگ تاہم کھیل نہیں ہوتی۔ مستزاد یہ کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کرنا جس سے ملکوں کو ہی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ انسانیت پر بھی شدید زد پڑتی ہے۔

جوہری ہتھیار استعمال کیے جانے کی حماقت ایک بار ہی کی گئی تھی جس کا ماتم آج تک کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ دنیا میں جوہری ہتھیار کم کیے جانے بلکہ یکسر ختم کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہین جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع ”بم چلانے“ کی بات کر رہے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہین کہ ایسا بم ایک ہی جانب سے داغا جائے اور مطمئن رہا جائے کہ کچھ نہیں بگڑے گا۔ جاپان اور امریکہ میں بہت فاصلہ تھا۔ جاپان جنگ سے چور چور تھا، امریکہ بہت بعد میں جنگ عظیم کا حصہ بنا تھا اور اس کی سرزمین تک رسائی تقریباً ناممکن تھی۔ جوہری ہتھیار تو اس کے علاوہ کسی کے پاس تھا ہی نہیں۔

آج دنیا اور طرح کی ہے۔ جوہری ہتھیار کئی ملکوں کے پاس ہیں۔ میزائل ٹکنالوجی پیش رفتہ ہے۔ طاقت کے توازن کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ہندوستان نے پانی بند کیا تو چین برہما پترا بند کر دے گا، جیسی بچگانہ باتوں کی جنگ کے ہولناک تناظر مین کوئی جگہ نہیں ہے۔

شکر ہے کہ میڈیا ”کنزیومر مارکیٹ“ کا حصہ ہے، جونہی اسے جنگ کے دعوے سے زیادہ بکنے والی کوئی خبر ملتی ہے چاہے وہ کسی ماڈل خاتون کی ادا ہی کیوں نہ ہو، اس کا رخ بدل جاتا ہے۔ ویسے بھی لوگوں کے پاس جنگ کرنے کے جھوٹے دعوے سننے کا وقت نہیں ہے۔ جنگ کبھی نہیں جیتی جاتی۔ اس مین جیتنے والا بھی ہارتا ہے۔ جنگ نہیں ہوگی اور جنگ نہیں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments