ایسی ”گلیِ دستور“ کو میں نہیں مانتا


\"usman

پاکستان میں عوام کو جواب دہ اور متفقہ دستور کے تحت حکمرانی کا سفر جن کٹھن راہوں پر طے ہوا ہے وہ ہر کسی پر عیاں ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران جمہوری عمل کے قدرے تسلسل پا جانے سے اب ہم جیسے خفقانیوں کو بھی کچھ کچھ امید بندھ چلی ہے کہ دھرنوں، ”جانے کی باتیں جانے دو“ کے بے سر اور بے تال الاپوں، بے محل ”شکریہ شکریہ“ کی گردانوں کے باوجود یہ پودا جڑ پکڑ رہا ہے۔

گزشتہ دنوں اخبارات سے علم ہوا کہ ایوان بالا کے صدر نشین اور جمہوری اقدار سے اٹل وابستگی کی شہرت کے حامل، جناب رضا ربانی نے پارلیمان کے ایک حصے میں ایسی نمائش گاہ بنانے کا ڈول ڈالا ہے، جس میں تصاویر کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی ترقی کے سفر کو پیش کیا جاے گا۔ پھر جلد ہی اس حوالے سے ایک اشتہار بھی اخبارات کی زینت بنا جس میں عوام الناس کو، وقت مقرر کرکے، اس گوشے کی زیارت کرنے کی دعوت عام دی گئی تھی۔ یقین جانیے، دونوں اقدامات، اس قسم کے تصویری گوشے کے قیام اور اس تک عوام کی رسائی پر جی بہت خوش ہوا۔ مگر اس خوشی پر بہت سی اوس متعلقہ عملے کی ”زبان دانی“ نے ڈال دی، سو یہ مضمون سپرد ”ہم سب“ ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ کسی طرح یہ ایوان بالا کے صدر نشین اور اس منصوبے کے روح و رواں جناب رضا ربانی تک پہنچ جاے اور وہ داد رسی فرمائیں۔

جیسا کہ سب کو اندازہ ہے، اردو زبان کی قواعد کی اساس ہندی الاصل بولیوں پر ہے اور اس میں ایک جانب فارسی، ترکی، عربی، پرتگالی، انگریزی وغیرہ اور دوسری جانب مقامی زبانوں پنجابی، سندھی، سرائیکی، بنگلہ اور گزشتہ چند عشروں میں پشتو، بلوچی، وغیرہ کے اسماے معرفہ و نکرہ داخل ہوتے رہے ہیں۔ ایک جانب یہ زبان اسماء و افعال کو اپنے دامن میں سمونے کے معاملے میں بہت فراخ دل واقع ہوئی ہے اور دوسری جانب قواعد، جملوں کی ساخت اور خصوصا لسانی تراکیب کے حوالے سے اس کے قوانین تقریبا طے شدہ ہیں۔ ان میں سے ایک قانون – یا چلیے مسلم رواج کہہ لیجئے- یہ ہے کہ ہندی اور فارسی/ عربی الفاظ کو اضافت کے ذریعے مرکب نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں بھی چند مستثنیات ہیں جو غلط العام یا غلط العوام ہو کر کم از کم بول چال کی بھاشا کا حصہ بن چکی ہیں، مثلا ”ناؤ (ہندی) + خدا (فارسی)“ سے نا ”خدا بنا لیا گیا ہے۔ اسی طرح ”ناقابل بھروسہ، چٹخارے دار“، ”چوہے دان“، ”بلا کھٹکے“ وغیرہ۔

\"gali-e-dastoor\"

خیر، یہ تو دقیق لسانی مسائل ہیں جن پر مرحوم شان الحق حقی مبسوط مضامین قلم بند کر چکے ہیں اور برادرم ظفر عمران بھی وقتا فوقتا ہم جہلا کی رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ ایک نکتے پر البتہ اکثر زبان دانوں کا اتفاق ہے کہ ہندی الفاظ کو اضافت (زیر زبر پیش) کے ذریعے کسی اور لفظ کے ساتھ منسلک کرنا صریحا غلط ہے۔ مثلا، مشہور عالم، ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے بقول، ”پائے خر“ درست ترکیب ہے، ”لات گدھا“ غلط ہے۔ ”دستِ صبا“ ٹھیک ہے اور ”ہاتھ ہوا“ نادرست۔۔ یہ خادم ایک مرتبہ نیپال کے دورے میں کٹھمنڈو کے ایک ڈھابے کا نام، ناگری اور انگریزی حروف میں، ”گھر کباب“دیکھ کر ہنس اور رو چکا ہے، مگر انہیں ناواقف اردو سمجھ کر چپ ہوگیا۔ اردو کو برائے نام سہی، قومی زبان قرار دینے اور اسی نکتے سے ملک کو دو ٹکڑے کروانے کے عمل کا آغاز کرنے والے ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کے اخباری اشتہار میں مذکورہ بالا گوشہ نمائش کا نام (چھوٹی ی کے نیچے زیر کے ساتھ) ”گلیِ دستور“ دیکھ کر جو کوفت ہوئی وہ اب تک طبیعت کو منغض کیے ہوۓ ہے۔ مطبوعہ اشتہار میں یہ لفظ طغرے کی شکل میں تھا، چنانچہ ایک لمحے کو سوچا کہ شاید پڑھنے میں ایسا لگ رہا ہو۔ ایوان بالا کی ویب سائٹ دیکھی تو وہاں ظالموں نے یہ قبیح ترکیب انگریزی حروف میں بھی لکھ رکھی کہ سند رہے اور کسی اشتباہ کی گنجائش نہ ہو۔

\"20160929_155855\"

اس خادم کے خیال میں یہ معاملہ سرکاری عمال کی افسوس ناک نالائقی، تعلیم سے عمومی بے اعتنائی، اور بے حسی کے علاوہ اخبارات کے عملہ ادارت کی کور چشمی کا بھی ہے۔ نجانے کسی نیم خواندہ اہل کار کا تجویز کردہ یہ شتر گربہ کام مختلف مراحل سے کیسے گزر گیا، وہ بھی ایسے ادارے میں جہاں کا طرہ امتیاز ہی مسودات قانون کے حرف حرف کی چھان پھٹک کرنا ہے۔ اور پھر مدیران اخبار نے کیوں کر ایک واضح طور پر غلط بلکہ جاہلانہ ترکیب پر مشتمل اشتہار کو صفحہء اول پر شائع کرتے ہوۓ اسے جاری کرنے والوں فہمائش کرنا مناسب نہ سمجھا۔

مانا کہ وہ دن لد گئے جب مولانا ظفر علی خان نے اپنے قرابت دار راجہ مہدی علی خان کو اخبار میں ”وفات“ کی جگہ ”فوتیدگی“ کی قبیح، اگرچہ غلط العوام ترکیب چھاپنے پر بیک بینی و دو گوش نکال باہر کیا تھا، مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ علمی زوال ایوان بالا سے تا صفحہ اول محیط ہو چکا ہے۔ یہ غیر اہل زبان، کج مج دہان، کم علم خادم یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہے کہ ایوان بالا کے صدر نشین محترم رضا ربانی جہاں آئین کے ساتھ کھلواڑ کی مخالفت میں اس درجہ متحرک ہیں، وہیں ایک نظر قومی زبان کے ساتھ اس دست درازی کی جانب بھی توجہ فرمائیں۔ مقام افسوس کہ اسی ایوان میں اس سیاسی جماعت کی معتد بہ تعداد بھی موجود ہے جو دن رات ”اردو بولنے والوں“ کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک کی دہائی دیتی رہتی ہے۔ اسی ملک میں ایک عدد وزارت اطلاعات و نشریات پائی جاتی ہے، جس کا ایک کام سرکاری اعلامیوں کی معیار بندی ہے۔ یہیں کہیں ”اردو ڈکشنری بورڈ“، ”مقتدرہ قومی زبان“، ”انجمن ترقی اردو“ بھی سرکاری وظیفے پر چل رہی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اخبارات جو اسی بے چاری اردو میں چھپ کر، کروڑوں کما رہے ہیں جو کسی دوسری قومی زبان کو اس کا جائز مقام ملنے پر ”اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ کی سرخی جما کر لسانی فسادات کروانے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ یقینا مذکورہ اشتہار ان کی نظر سے بھی گزرا ہوگا ان سب سے گزارش ہے کہ مذکورہ گوشے کے لئے ”کوچہ دستور“، ”جادہ دستور“، ”دستوری گلی“، ”راہ آئین“، ”دستور کی گلی“، یا سب سے آسان، سرکاری زبان میں ”کانسٹی ٹیوشن سٹریٹ“ وغیرہ میں سے کسی ایک کو چن لیں، بس ہندی الفاظ کے نیچے اضافتیں لگا کر زبان کے ساتھ ہونے والی مجرمانہ زیادتی سے باز آ جائیں۔ عین نوازش ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments