متوسط طبقہ کیا چاہتا ہے؟


\"yasin-junejo\"\”متوسط طبقہ ہی سماجی تبدیلی کا ایندھن بنتا ہے\”۔ مفکرین کے نظریات کی افزائش چاہے افریقہ میں ہوئی ہو یا یورپ اور برصغیر میں، رنگ و نسل کی تفریق میں الجھے بغیر سبھی مذکورہ خیال پر متفق نظر آتے ہیں۔ انقلاب فرانس ہو یا تیونس اور مصر میں سیاسی تبدیلی، تجزیہ کار کہتے رہے کہ متوسط طبقے نے جب کایا پلٹنے کی ٹھان لی تو آہنی دیوقامت اسلحہ دو کوڑی کا سا نظر آنے لگا اور قدآور حکمران بونے بننے پر مجبور ہوئے۔

عین سڑک کے درمیان، ٹینک کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے ترک شہری کی تصویر اب انسانی حافظے کا حصہ بن چکی۔ جرات نے جدت کے اس دور میں بھی مذکورہ بالا نظریے کو تقویت بخشی ہے کہ مڈل کلاس چاہے تو اپنے ملک کو ناموزوں حالات کے بھنور میں پھسنے سے بچا سکتا ہے۔ مجھے مفکرین اور آج کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی ان باتوں سے کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف اگر ہے تو بس متوسط طبقے کی تشریح کے ساتھ ۔

کسی بوسیدہ سی ضخیم کتاب سے حوالہ ڈھونڈنے پر وقت صرف کرنے کی بجائے گوگل کی مدد سے ہی سرچ کیا جائے تو متوسط طبقے کی جو تشریح سامنے آتی ہے، اس کے تناظر میں ہمارے یہاں بہت سارے معاملات الجھے نظر آتے ہیں۔ امرا اور غربا کے درمیان لٹکے افراد کی بہتات کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ \”غریب ہونے سے ڈرتے اور رئیس ہونے کی لالچ میں مبتلا رہتے ہیں\”۔ جبکہ اسی طبقے کی تین اقسام بھی ہیں۔ افراد کی یہ درجہ بندی آمدن اور زندگی بسر کرنے کیلئے میسر وسائل کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اپر مڈل کلاس میں انہیں شامل تصور کیا جاتا ہے کہ جو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے بعد بھی متواتر روپے کی بچت کرسکتے ہوں۔ ایسے لوگ مینیجر، چھوٹے کاروبار کے مالک، پروفیسر، ڈاکٹر و دیگر رتبوں کے مالک ہوتے ہیں۔ خالص مڈل کلاس کی درجے بندی میں اساتذہ، کلرک، دکاندار اور دیگر سفید پوش شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ سب سے بڑے گروہ، نچلے متوسط طبقے میں چپڑاسی، ڈاکیے، ڈرائیور، کاشتکار، دہاڑی مزدور اور کئی دوسرے بن چاہے شامل رہتے ہیں۔

اس نوعیت کی سماجی درجہ بندی کے سہارے ہی یہ بات کی جاتی ہے کہ، جب کسی ریاست کے اندر عدل کا نظام خرابیوں کا شکار ہوجائے، انتظامیہ عوام کے مصائب سے بے فکر رہتے ہوئے محض اشرافیہ کے مفادات کو ترجیح دے اور افسر شاہی بدعنوان ہونے کے ساتھ اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتی ہو تو متوسط طبقہ بالآخر چیخ ہی اٹھتا ہے اور تبدیلی کا گیت ہوائوں میں بکھرنے کو بیچین ہونے لگتا ہے۔ لیکن یہ کیا ماجرا ہے جسے ہم اپنے وطن عزیز کے ہر ایک کونے میں ایک ہی انداز سے پنپتے ہوئے دیکھنے کے عادی بن چکے ہیں کہ ریاست کی انتظامیہ (حکومت) اور افسر شاہی عوامی امنگوں کو پچھلے 69 سال سے روند رہی ہیں اور متوسط و نچلا طبقہ انفرادی چیخیں مار کر آنسو پونچھ لیتا ہے اور عافیت اسی میں جانتا ہے کہ خاموشی سے جھیلتے رہو۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں متوسط طبقے کی تشریح سے اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔

یہ اختلاف شاید اس لئے ہو رہا ہے کہ متوسط طبقہ بھی بدعنوانی کے تالاب میں امرا اور افسر شاہی کے ساتھ ڈبکیاں لگا رہا ہے۔ یوں کہا جائے کہ پورا معاشرہ ہی بدعنوان ہے تب بھی شاید یہ دعویٰ کچھ غلط نہ ہو۔ دودھ میں پہلے صرف پانی ملایا جاتا تھا اب شیمپو اور کلف پائوڈر گھولنے کی خبریں بھی پرانی ہوچکی ہیں۔ بڑے افسروں کے چپراسی تب تک سائل کو صاحب تک رسائی نہیں دلاتے جب تک \”بخشش\” کو جیب میں نہ ٹھونس لیں۔ دہاڑی دار مزدور اجرت پورے آٹھ گھنٹوں کی لینا چاہتا ہے لیکن کئی بہانوں سے کام دو گھنٹے کم ہی کرتا ہے۔ غرض یہ کہ زندگی کا کوئی سا بھی شعبہ منتخب کرلیں اس میں بدعنوانی کی دہائی ہم سبھی بہ آسانی دے سکتے ہیں۔ اپر مڈل کلاس کے لوگ انہیں کرتوتوں کی بنا پر امرا جیسی زندگی گزارنے کے قابل بن چکے ہیں۔ پھر یہ فطری امر بھی یاد رکھنا پڑتا ہے کہ \”جن کے پاس دولت ہو وہ کسی عام تنازعے کی زد میں آنے سے بھی اس لئے کتراتے ہیں کہ انہیں کوئی خسارہ نہ اٹھانا پڑجائے\”۔

اس خیال کو غلط فہمی پر مبنی ذہنی اختراع اس لئے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ، ہر سال حکومت جو بجٹ عوام کے سروں پر تھوپتی ہے میڈیا اسے \”عوام دشمن\” اور \”مہنگائی کا بم\” جیسے القابات سے نوازتی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر یہ ہی متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ محصولوں اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رونا روتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن بجٹ کے ظلم و ستم پر وطن عزیز کے کسی کونے سے متوسط طبقے کی کوئی غیر سیاسی تحریک کبھی گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر نہیں اٹھ پائی۔ ہم یہ ستم شاید اس لئے سہہ جاتے ہیں کہ ہم دودھ میں پانی کی مقدار بڑھا دیتے ہیں اور \”بخشش\” اور اشیا پر منافع دوگنا کردیتے ہیں۔ یہ ہی وہ شاک آبزرور ہے جو ہمیں مہنگائی برداشت کروا دیتا ہے۔ ایسے تو کرپشن کی روک تھام کے لئے اداروں کی بھی درجہ بندی موجود ہے، نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، عدالتیں، محکمہ جاتی آڈٹ، انکوائریاں اور بہت کچھ ۔ لیکن ان اداروں اور بدعنوانی کے قوانین کی سزا بڑے بڑوں کو ہی نہیں مل سکی تو شاید دکانداروں اور گوالوں کو بھی نہیں دی جا سکتی!۔ حالانکہ صارفین کے حقوق کے تحفظ کی خاطر بھی کچھ قوانین بنائے تو گئے ہیں۔

جب معاشرہ سارے کا سارا بدعنوان ہو پھر محض سیاستدانوں کا محاسبہ کرنا بھی ایک حساب سے زیادتی پر مبنی رویہ لگتا ہے۔ اس وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ رویا جائے یا ہنسا جائے کہ جب جعلی دوائی بیچنے والا میڈیکل اسٹور کھولنے کا پرمٹ رشوت کے بغیر نہ ملنے کا دکھڑا سنا رہا ہو۔ ایسے ماحول میں تبدیلی کا نعرہ مضحکہ خیز بھی لگنے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ \”دھرنا دینے والے\” اکثر لوگ متوسط طبقے سے ہیں یا ان کی نوجوان اولاد۔ لیکن وہ تب تک کوئی حقیقی تبدیلی شاید نہ لاسکیں کہ جب تک عوام اپنی عزت نفس کی سطح کو اونچا نہیں کریں گے اور عزت نفس ایماندار لوگوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments