کیلا کھانے کا طریقہ اور آٹزم کا شکار بچے


\"husnainاحمر کی پیدائش ان کے گھر کا سب سے زیادہ خوش گوار واقعہ تھا۔ دونوں میاں بیوی پھولے نہیں سماتے تھے۔ باپ نے زندگی میں پہلی بار دفتر سے اکٹھی ایک مہینے کی چھٹی لی اور بیوی بچے کی دیکھ بھال میں مگن ہو گیا۔ وہ بہت خوب صورت بچہ تھا۔ ننھا معصوم سا بچہ دونوں کو اپنے تمام خوابوں کی تعبیر لگتا تھا۔ راتوں کو اٹھ کر روتا تو دونوں اکٹھے جاگ جاتے اور اسے چپ کرانے کے جتن شروع کر دیتے۔ وہ روتا بہت تھا۔ عام بچوں کی نسبت وہ چڑچڑا بھی زیادہ تھا اور ماں باپ بے چارے پہلی اولاد کو سنبھالنے کے لیے بس ہر ممکن کوشش کرتے رہتے۔ ایک مسئلہ اور تھا، وہ کسی اجنبی کے پاس نہیں جاتا تھا۔ ماں یا باپ، دونوں میں سے کوئی ایک چوبیس گھنٹے اس کے آس پاس ہونا ضروری تھا۔

وقت گزرتا رہا، انہیں ایسا لگتا کہ وہ عام بچوں سے بالکل الگ ہے۔ وہ اپنی خیالی دنیا میں مگن رہتا۔ کھلونے دئیے جاتے تو انہیں توڑ تاڑ کر ایک طرف پھینک دیتا۔ کسی سے بات چیت کرنے یا کسی دوسرے شخص کی طرف دیکھنے میں بھی اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دو سال کا ہونے کے باوجود اس کے کھانے پینے اور سونے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ اس کے کان کے پاس آ کر بھی کچھ کہا جاتا تو بہت دیر سے ردعمل دیتا تھا۔ کھیلتے میں اگر کہیں گر جاتا تو اسے تکلیف کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک مستقل سٌن بچہ تھا۔ سب سے لاتعلق اور الگ تھلگ۔

اس کی تیسری سالگرہ ہوئی تو ہر سال کی طرح ماں باپ نے خوب دھوم دھام سے منائی۔ بہت سے رشتہ داروں اور دوستوں کو بلایا گیا۔ کیک \"autism\"کٹنے سے ذرا پہلے احمر کرسی پر چڑھا اور نیچے چھلانگ لگا دی۔ اس کا سر بہت زور سے زمین پر لگا۔ سب لوگ اسے اٹھانے کو تیزی سے دوڑے، اس کے والد کے ایک دوست نے جلدی سے اسے اٹھا لیا تاکہ اس کا سر سہلا دیں اور پیار سے تھپک کر اسے چپ کرا سکیں۔ لیکن احمر کا ردعمل بہت عجیب تھا۔ رونا بھول کر اس نے تیزی سے ٹانگیں مارنا شروع کر دیں اور زور زور سے چیخنے لگا۔ ان صاحب نے گھبرا کر اسے چھوڑا تو وہ تیزی سے دوڑتا ہوا اندر کسی کمرے کی طرف چلا گیا۔ اس دوران نہ اس نے کسی کی طرف دیکھا، نہ ماں باپ کے بہلاوے میں آیا، وہ سخت خوفزدہ تھا۔ وہ انتہا سے زیادہ ضدی ہو چکا تھا اور اسے سنبھالنا بہت مشکل تھا۔ بے سکونی کا راج تھا، ان دونوں میں جھگڑے شروع ہو چکے تھے، ہر وقت ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتے اور نیند، وہ تو اس گھر سے کب کی رخصت ہو چکی تھی۔

احمر کے آنے سے پہلے وہ دونوں نوکری کرتے تھے، احمر کے بعد دونوں کے لیے ہی سارے دن کی نوکری کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ مالی حالات بھی تیزی سے خراب ہو رہے تھے اور زندگی تو پہلے ہی عذاب تھی۔

اس کی پانچویں سالگرہ تک بھی اس نے پیمپر استعمال کرنے نہیں چھوڑے تھے، اسے خوشبو اور بدبو میں تمیز کرنا نہیں آتا تھا اور اب اس کے مزاج میں چڑچڑا پن اور شدید غصہ مستقل شامل ہو چکا تھا۔ وہ بات نہیں کر پاتا تھا اور عجیب و غریب آوازیں نکالتا تھا۔ ماں باپ کے لیے اسے قابو میں رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اسے باہر لے کر جانا ایک اور تکلیف دہ کام ہوتا تھا۔ وہ کسی بھی وقت کوئی نئی یا پرانی چیز یا پھر کسی بھی شکل کو دیکھ کر اچانک ہسٹیریائی انداز سے چیخنے چلانے لگتا اور اسے روکا جاتا تو اپنے آپ کو مارنا شروع کر دیتا۔ بازار میں ایک اچھا خاصا تماشا شروع ہو جاتا، لوگوں کی چبھتی نظروں کے خوف نے دونوں میاں بیوی کو گھر میں قید کر کے رکھ دیا۔ وہ الگ الگ اپنے کاموں سے تو نکل سکتے تھے مگر ایک فیملی کے طور پر اکٹھا نکلنا اب ان کے لیے ناممکن تھا۔ دوستیاں یاریاں سب ختم ہو چکی تھیں، شادی بیاہ میں کہیں جانا تک ایک بہت بڑا سوال ہوتا تھا۔

دفتری ساتھیوں کے مشورے پر احمر کے باپ نے فیصلہ کیا کہ اس کا چیک اپ کروایا جائے۔ ایک ماں، پانچ سالہ بیٹے کو کس طرح ذہنی \"autistic\"طور پر بیمار یا کمزور تصور کر سکتی ہے؟ وہ اس کی تمام حرکتوں کو اکلوتے پن کے لاڈ سمجھ کر نظر انداز کرتی تھی۔ بہت مشکل سے معائنہ کروانے پر راضی ہوئی۔ ڈاکٹر نے تمام تر معائنے کے بعد انہیں یہ خبر سنائی کہ ان کا بچہ آٹزم کا شکار ہے۔ دونوں بے چارے اس بیماری کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتے تھے۔ ڈاکٹر کی باتوں سے کچھ معلوم ہوا اور کچھ گھر آ کر انٹرنیٹ پر دیکھا تو بم دھماکے کی طرح یہ انکشاف ان کا منتظر تھا کہ ان کے بچے کا علاج بہرحال کوئی نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف خاص انسانی رویوں اور مستقل ٹریننگ سے ایک بہتر زندگی گزار سکتا ہے، اس سے زیادہ کوئی بہتری نہیں ہو سکتی۔

چھ برس کی عمر میں احمر کے حالات دیکھ کر اس کے ماں باپ کانپ جاتے تھے کہ یہ سولہ کا ہو گا تو اس کو سنبھالے گا کون، اس کی حرکتیں بالکل دو تین سال کے بچوں جیسی تھیں۔ ایک مستقل تھکن اور مایوسی نے پورے گھر کو گھیرا ہوا تھا۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ آٹزم والے بچوں کے لیے الگ سے تربیت گاہیں موجود ہیں جو انہیں کم از کم اس قابل بنا سکتی ہیں کہ وہ معاشرے میں ایک معقول زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے احمر کو وہاں داخل کروا دیا اور نئے سرے سے زندگی پر غور کرنا شروع کیا۔

اب احمر شام کو گھر واپس آتا تھا۔ شروع میں اس نے سکول نہ جانے کو بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر ایک دو مہینے بعد ہی اس کے روئیے میں تبدیلی ان دونوں نے نوٹ کرنا شروع کر دی۔ اسے غصہ کم آتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا مفہوم سمجھانے کے قابل ہوا اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی ادا کرنے لگا۔ گھر کی گاڑی دوبارہ سے کچھ نہ کچھ چلنے لگی۔ ڈرتے ڈرتے انہوں نے مزید بچوں کے بارے میں سوچا، بچے ہوئے، اور وہ دونوں بچے نارمل تھے۔ ان کے بڑا ہونے تک احمر کافی سنبھل چکا تھا اور وہ دونوں بچے بھی احمر کو ذہنی طور پر قبول کر چکے تھے۔ یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ احمر کی ذہنی تربیت درست وقت پر شروع کر دی گئی تھی۔

آٹزم کا واحد حل اس کی جلد از جلد تشخیص ہے۔ یہ ذہنی نشوونما سے متعلق ایک مرض ہے جو بچوں میں پندرہ ماہ کی عمر سے تین سال کے دوران ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس مرض کے شکار بچے عموماً گم سم ہوتے ہیں، بول چال اور دوسروں سے دوستی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اپنا کوئی بھی کام خود سرانجام دینا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا ان کے لیے بالکل اجنبی ہوتی ہے بلکہ وہ دوسرے لوگوں میں زیادہ اچھا بھی محسوس نہیں کرتے۔ عام بچہ ڈھائی تین برس کی عمر تک اپنے ماں باپ کو پہچانتا ہے، بہن بھائیوں سے معصوم باتیں کرتا ہے لیکن یہ بچے ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے دوسروں سے کوئی بھی تعلق رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بڑے ہو کر بھی ان کے روئیے بچوں کے جیسے ہوتے ہیں۔ اگر ان سے بار بار کوئی سوال پوچھا جائے یا کوئی کام کرنے کا کہا جائے تو یہ غصے میں آ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

آٹزم معمولی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔ آٹزم کی تمام اقسام میں سے مشترک چیز کسی بھی کام کرنے میں مشکل کا سامنا ہونا ہے۔ اگر بچہ روزمرہ کے کاموں میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے، یا غیرمعمولی حد تک دیر لگا کر کوئی کام کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ معمولی نوعیت کے آٹزم کا شکار ہو۔ اس کے دماغ کی نشوونما اس کی عمر کے مطابق نہ ہو رہی ہو۔ وقت پر اس بیماری کا معلوم ہو جانا ماں اور باپ دونوں کی آئندہ زندگی کو جہنم ہونے سے بچا سکتا ہے۔ وہ بچے کو کسی ایسے سکول میں داخل کروا سکتے ہیں جہاں ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا گیا ہو۔ ذہنی طور پر پیچھے رہ جانے والے بچوں کے لیے یہ سہولت پہلے صرف ترقی یافتہ ممالک میں تھی لیکن پچھلے دس پندرہ برس سے وطن عزیز کے بڑے شہروں میں کم از کم یہ سہولت موجود ہے۔

آٹزم دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے۔ برطانیہ کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سو بچوں میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہے، پاکستان میں کی گئی حالیہ تحقیق دیکھیے تو ہر پچاسواں بچہ اس بیماری کا شکار ہے۔ لڑکوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہر آٹسٹک بچے میں مرض کی شدت مختلف ہوتی ہے۔ اسے بہت سی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے جن کی درست پہچان ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔

اگر ماں باپ ایسے بچوں کو سکول نہ بھیج سکیں یا کوئی مالی مجبوری ہو تو ان بچوں سے مستقل پیار محبت کا برتاؤ، انہیں قریبی لوگوں سے \"autism2\"خاص طور پر ملوانا، خاندانی تقریبات میں ساتھ لے کر جانا، روزمرہ زندگی کے کام کروانا، انہیں یہ محسوس کروانا کہ وہ دوسرے لوگوں کے ہی جیسے ہیں، ان کی ہمت بندھانا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے چھوٹے چھوٹے کام کروا کر ان کو اہمیت دینا، یہ سب چیزیں اس مرض کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ یہ مرض پیدا کیوں ہوتا ہے، اس بارے میں باوجود بہت زیادہ تحقیق کے، ابھی یقینی طور سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ کچھ ماہرین اسے انسان کی موروثی اور کچھ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والی بیماری کہتے ہیں۔ بعض تحقیقات کے مطابق آٹزم ایم ایم آر ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس (MMR-MEASLES, MUMPS, RUBELLA) کی وجہ سے بھی ہو جاتا ہے۔ حتمی نتیجہ کسی کے پاس نہیں ہے۔

یہ تحریر ایک ہفتے سے لکھی جا رہی تھی۔ مصروفیات کی وجہ سے ہر بار ادھوری رہ جاتی۔ کل جیسے تیسے مکمل کی اور سوشل میڈیا پر چلا گیا تاکہ آٹزم کے بچوں کی جو اذیت ناک ویڈیوز دیکھی ہیں ان کا اثر کچھ کم ہو سکے۔ وہاں ایک مولانا کیلا کھانے کا مذہبی طریقہ بتا رہے تھے۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ کیلے کو کس رخ پر رکھا جائے اور پھر کھایا جائے۔ پھر انہوں نے یہ وجوہات بھی بتائیں کہ کیلا کس طرح لٹکایا جائے اور اسے خراب ہونے سے کیسے بچایا جائے۔ ساتھ ایک طالب علم بھی تھے جو نہایت عقیدت سے یہ سب سنتے جاتے تھے اور ہر بات پر سر ہلا رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب کیلے کو گچھے سے توڑنے کا درست طریقہ بتایا گیا اور انہیں ایک کیلا عطا ہوا تو فرط جذبات سے بس ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئے، بہت خلوص سے انہوں نے مولانا کا شکریہ ادا کیا۔ پیارے سے مولانا اس قدر روحانی استغراق میں تھے کہ کیلا کھانے کے آداب سے زیادہ مقدس کام کوئی ان کی لغت میں نہیں تھا۔ یہ سب بھی ایک خاص ذہنی رویے کی علامت ہے، وہ رویہ جو ہمیں باقی دنیا سے الگ تھلگ کر چھوڑتا ہے۔

بھئی ظلم ہے! سراسر ظلم ہے! دیکھیے آپ کے پاس وسائل موجود ہیں۔ آپ چوبیس گھنٹے اپنی جماعت کا ذاتی چینل چلا رہے ہیں۔ نیک کاموں کی تبلیغ کیجیے، بہت اچھی بات ہے، یہ ہر معاشرے کے لیے ضروری ہیں لیکن خدارا اگر کچھ ٹائم سلاٹ پھر بھی بچ رہا ہے تو اسے کیلے کھانے اور موٹر سائیکل پر تکیے رکھنے میں ضائع نہ کریں۔ انسان اور انسانیت کس حال میں ہے، کچھ ان کا خیال کریں۔ کچھ وقت انسان دوستی کے لیے وقف کر دیجیے۔ گاؤں دیہاتوں میں لوگ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے آٹزم کے شکار بچوں کو سائیں لوگ یا اللہ لوگ کہہ کر درباروں پر چھوڑ آتے ہیں جہاں وہ تمام عمر بھیک مانگنے والے گروہوں میں ہارڈ کیش کی طرح گھومتے رہتے ہیں اور ہر طرح کے جنسی جرائم کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ کچھ ان بچوں کی تربیت کا اہتمام کر لیجیے۔ کوئی ایک چندہ فنڈ ہی سہی، ان کے لیے بھی ہو۔ ان کے والدین کے لیے ٹی وی پر تربیتی کلاسیں چلا دی جائیں یا خصوصی بچوں سے متعلق معلومات کے پروگرام فارغ وقت میں چلائے جائیں۔ کسی بھی مثبت طریقے سے اس فارغ وقت کو استعمال کر لیں گے تو لوگوں کا رویہ بھی تبدیل ہو جائے گا اور آپ باقی دنیا کے قریب بھی آ جائیں گے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments