دادی بکھوڑی


ارے کچھ احساس ہے کہ نہیں۔ امی نے نہایت خفگی سے کہا۔ وہ برتن مانجھ رہی ہے۔ برتنوں کا ڈھیر رکھا ہے اس کے سامنے اور تم لوگ ہو کہ مسلسل اس کے پیچھے پڑے ہو۔ ایک برتن دھویا، دوسرا پھر تیسرا۔ وہ غریب بار بار ہاتھ دھوتی ہے۔ ایک ایک برتن کنگھالتی ہے۔ پونچھتی ہے تمہارے لیے، پھر مانجھنے لگ جاتی ہے تو پھر آوازہ لگ جاتا ہے۔ رات کر دو گے اس طرح تم لوگ۔ نہیں ختم ہوگا صبح تک برتنوں کا یہ ڈھیر۔

امی کا پارہ ہائی ہونے لگتا۔

سب بچوں کو پتہ تھا کہ وہ تو یہاں وہاں کھسک جائیں گے۔ امی کی ڈانٹ کا سب سے زیادہ اثر دادی پر ہوگا۔ اس غریب کے چہرے پہ دکھ پھیل جائے گا۔ وہ یہی کہے گی۔ اری نیک بخت! نہ کہا کر کچھ ان معصوموں کو۔ تیری تربیت کے صدقے جاؤں۔ پر یہ بے چارے بھی تو مجھے ہی کام کہیں گے نہ۔ اور میں نے کون سی گورنری کرنی ہے۔ ان بچوں کی چاکری بھی اچھی طرح نہ کر سکوں تو تف ہے مجھ پر۔

ایسا نہیں تھا کہ دادی صرف امی کا حکم ہی بے چوں و چرا مانتی تھی بلکہ ہم سب کا خیال رکھنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی۔ ایسی تپتی دوپہروں میں جب چیل بھی انڈے چھوڑ کر اڑ جائے، ہم تین چھوٹے بہن بھائی نہ سونے کے منصوبے بناتے اور جیسے ہی امی کی آنکھ لگتی، ایک ایک کرکے کمرے سے باہر نکل آتے۔ گلی میں طرح طرح کے پھیری والوں کی آوازیں بہت دلفریب معلوم ہوتی تھیں، مگر ایسے موسم میں قلفی والے کی صدا تو خاص طور پر ہم سب کو امی کی حکم عدولی کے لیے اکساتی تھی۔ خبردار جو قلفی کھائی یا گولا گنڈا لیا۔ یہ امی کا حکم تھا۔ امی کا سخت حکم نافذ العمل کروانے والی دادی کو یکبارگی رحم آگیا۔

لاؤ ادھر پیسے۔ اور خاموشی سے سیڑھیوں بیٹھو۔ دادی نے ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کو خاموشی سے بیٹھنے کی تاکید کی۔ خود ادھر ادھر دیکھ کر آنگن پار کیا اور چند لمحوں میں ہاتھ میں تین شاندار ملائی قلفیاں لیے پہنچی۔ سیڑھیوں پر بیٹھے ہم تینوں منتظر تھے۔ اپنی اپنی قلفی لے کر چھت پر بھاگے اور تھوڑی دیر میں چوسے ہوئے خالی کانے، دادی کے حوالے کیے۔ جو اب تک سب سے پہلی سیڑھی پر ہماری نگرانی کے لیے بیٹھی تھی۔

جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے۔ دادی کی ذمے داریوں کی نوعیت بھی بدلنے لگی۔
امی بازار جانا ہے، خریداری کے لیے۔
دادی کے ساتھ جاؤ۔ جواب آتا۔

دوست کے گھر جانا ہے، امی دوست کی سالگرہ ہے۔
دادی کے بغیر نہیں جانے دوں گی۔

فلم دیکھنی ہے۔
دادی کو ساتھ لے جاؤ تو دیکھ لو۔

بڑی بہنوں کو تو اب دادی پر بڑا سخت غصہ آنے لگا تھا۔ ہر وقت ہر جگہ دادی۔ اچھا تماشا بنوایا ہے امی نے ہمارا۔ کوئی آزادی نہیں۔ ساری سہیلیاں ہنستی ہیں کہ یہ بڑھیا تمہاری نگرانی کے لیے رکھی ہے۔ ان دونوں نے تو تقریباً بائیکاٹ ہی کر دیا تھا دادی کا۔ ۔ مگر مجھے دادی سے ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ گونگی بہری سی ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ دوستوں کے گھر میں، فاصلے پہ بیٹھ جاتی تھی۔ صرف مسکرانے پہ اکتفا کرتی۔ نہ جلدی واپس چلنے پر ضد، نہ کوئی مشورہ نہ کوئی تنقید نہ کوئی شکایت الٹا مجھے تو دادی کے ساتھ تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔

دادی کو شہر بھر جانتا تھا۔ چھوٹا سا شہر تھا بالکل۔ پنساریوں سے لے کر سونار تک جانتے تھے اسے، کیونکہ آس پاس کے امیر گھرانوں کے مراسم بھی دادی سے خوب گہرے تھے تو جو عورتیں پردے کے سبب بازار جانے سے قاصر تھیں، دادی ان کا ہر کام، ہر مسئلہ حل کر دیتی تھی۔ سیدوں، پیروں اور میروں کے سنیہوں اور تحفوں کے لین دین بھی دادی کے ہاتھوں ہی سرانجام پاتے تھے۔ جب بھی دادی چند دنوں کے وقفے سے گھر آتی۔ کئی گھرانوں کی خبریں تواتر سے گھر میں چلتی رہتیں۔ امی باورچی خانے سے ساری باتیں سنتی، ہوں ہاں میں جواب دیتی رہتیں۔

دادی کی عوام سے ملنے جلنے کی صلاحتیں تو قابل تعریف تھیں ہی مگر میں تو حیران ہی رہ گئی جب دادی کے ساتھ امی نے مجھے ڈاکٹر ولیئم کے پاس بھیجا۔ شہر کا واحد یوروپیئن ڈاکٹر جس کے مریض بڑے گنے چنے ہوتے تھے۔ بہت کم گھروں میں اس کا وزٹ ہوتا تھا۔ مگر امراء و رؤسا بیماری کی حالت میں ڈاکٹر ولیئم سے ہی علاج کروانا پسند کرتے تھے۔ مجھے کئی دنوں سے بخار رہا تھا۔ ادھر ادھر سے دوائی لینے پر افاقہ نہ ہوا تو امی نے تانگہ بلوا کر مجھے دادی کے ساتھ ڈاکٹر ولیئم کے پاس بھیجا۔

کلینک میں بیٹھے مریضوں کو دیکھ کر مجھے ہول اٹھنے لگے۔ کتنی دیر ان سب کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ میں نے دل میں سوچا۔ دادی نے مجھے ایک خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چند قدم آگے بڑھ کر، اسکرٹ پہنے سانولی سی کرسچن نرس سے بولی۔

گورے صاحب کو بولو۔ محمد سلطان کا پوتا آیا ہے۔
اتنے بخار کے باوجود مجھے دادی کی گلابی اردو اور جینڈر کی شناخت پر ہنسی آئی۔ نرس اندر گئی اور چند لمحوں میں مجھے چلنے کے لیے کہا۔

میں فوراً اٹھ کر جانے لگی۔ مڑ کر دیکھا تو نرس دادی کو بھی ساتھ چلنے کا کہہ رہی تھی۔ کیا کرے گی دادی اندر جا کر۔ مجھے حیرت ہوئی۔ مگر دادی نے اپنی پرانی باسکٹ اٹھائی، دوپٹے کو اور اچھی طرح ماتھے تک اوڑھا اور میرے ساتھ ڈاکٹر کے کمرے میں چلی آئی۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اتنے وجیہہ و شکیل، اونچے لمبے، سرخ و سپید ڈاکٹر کو دادی سے ہاتھ ملاتے دیکھا اور پھر وہ میری طرف متوجہ ہوا۔

”تمہارا دادا امارا دوست تھا۔ ام اس کا بنی پربھی گیا تھا۔ بعد میں کام بوت کھراب ہوگیا۔ وہ سخی آدمی تھا مگر اپنے باپ دادا کی زمینیں نہ سنبھال سکا۔ مگر تمہارا باپ اچھا آدمی ہے۔ تم کو پڑھاتا ہے۔ پہلے تمہارے خاندان میں پڑھائی نہیں ہوتا تھا۔ تم ذہین ہے دل لگا کر پڑھنا“ ۔

ڈاکٹر نے اپنی میز کی دراز سے ایک قلم نکالا۔ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ”یہ ہمارا طرف سے تمہارا تحفہ ہے۔ اب بتاؤ کیا تکلیف ہے“ ؟
میری نبض دیکھنے کے بعد، ڈاکٹر نے دوا لکھی۔ پھر دراز سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور دادی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ”اس بیٹا کا خاص خیال رکھنا۔ یہ امارا دوست کا پوتا ہے“ ۔

میری نظر میں دادی کی وقعت ایک دم بڑھ گئی۔ ایسا ہینڈسم ڈاکٹر، دادی سے کس احترام سے پیش آیا تھا۔ ہمارے لیے تو دادی بس کام کی حد تک دادی تھی۔ ہمیشہ ”ہاں“ کہنے اور مسکراتی نظروں سے تکنے والی دادی۔ کبھی اس کی ٹوٹی چپل کا خیال کیا نہ پیوند لگے کپڑوں کا۔ بلامعاوضہ زندگی بھر خدمت کرنے اور اپنے رشتے داروں کو بھی لاکر خدمت کروانے والی ایک دیہاتی عورت۔

ہم ڈاکٹر کے کلینک سے باہر نکلے۔ دادی نے مجھے کہا کہ اسے ذرا آگے درخت کی کسی اونچی شاخ کے ساتھ ایک تھیلی باندھنی ہے۔ اس تھیلی میں کچھ رنگین دھاگے اور سکے تھے۔

وہ کیوں دادی؟ میں نے پوچھا۔

اماں (دادی مجھے پیار سے اماں کہتی تھی کہ میرے والد صاحب اپنی والدہ کی شباہت مجھ میں ہونے کی وجہ سے مجھے اماں کہا کرتے تھے ) ہمارے خاندان میں برسوں سے کوئی لڑکا نہیں پیدا ہوا۔ ہماری نسل کیسے آگے بڑھے گی۔ اب یہ دعا ہے کہ میری چھوٹی بیٹی جو امید سے ہے، اس کے ہاں بیٹا ہو جائے۔ دادی نے جھٹ سے پھولدار کپڑے سے بنی تھیلی کے کناروں میں پرویا ہوا ڈورا کھینچا، تھیلی کا منہ بند ہو گیا۔ دادی نے بازو لمبا کر کے اسی ڈورے سے شیشم کے درخت کی ٹہنی سے وہ تھیلی باندھ دی۔

”تھیلی میں کھلے پیسے اور کچھ رنگین دھاگے رکھنے کے بعد اسے شیشم کے درخت کی ٹہنی سے باندھا جائے اور صدق دل سے دعا کی جائے تو بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اسے منت ماننا کہتے ہیں۔“ دادی نے مجھے سمجھایا۔

گھر آکر دادی نے امی کو پوری جزئیات کے ساتھ پہلے ڈاکٹر سے ملاقات کے بارے میں بتایا، میری قابلیت کے قصے سنائے اور پھر درخت کی شاخ کے ساتھ منت ماننے کے بارے میں بتایا۔ بڑے جذب و کشف کے عالم میں آنکھیں موندے دادی بولی ”ﷲ سائیں، اپنے پیارے نبیؐ اور اس کی آل کے صدقے اک بیٹا دے دے نہ میری بیٹی کو۔ تو یہ نسل آگے چل پڑے۔ اس کی نگری میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے“ ۔

”ہو گیا بیٹا۔ وہمی لوگ!“ امی نے زہر خند انداز میں گردن موڑ کر آہستہ سے کہا۔ امی کا یہ تمسخرانہ انداز مجھے بالکل اچھا نہ لگا، مگر میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ یہ جملہ دادی نے نہیں سنا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4