قومی اداروں کا زوال۔ فکر کس کو ہے؟


کچھ ماہ کے لئے سندھی کے نامور ادیب اور محقق نوراحمد جنجھی، مٹھی کالج میں اپنی اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری سے ڈیپوٹیشن لے کر اکادمی کے کراچی دفتر کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے، مگر وہ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس لیے واپس اپنی اصل ملازمت کی طرف چلے گئے، کہ جہاں کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا، تو وہاں گُھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر صبح 9 سے شام 5 بجانے کا کیا فائد ہ! اور اب اکادمی کے کراچی جیسے اتنے اہم دفتر، جو نہ صرف شاعروں اور ادیبوں کے شہر، کراچی بلکہ پورے سندھ کی نمائندگی کرتا ہے، میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے نمائندہ دفتر کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت میں 16 گریڈ کے قادر بخش سومرو کو تعینات کیا گیا ہے، جن کو ادب کے ’الف‘ سے بھی واقفیت نہیں ہے۔

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کا ذکر کریں تو معرُوف اداکاروں، نعیم طاہر اور توقیر ناصر کے بعد معرُوف مصوّر جمال شاہ تک اس ادارے کو کوئی فن شناس سربراہ نہیں مل سکا تھا۔ بلکہ درمیان کا عرصہ (لگ بھگ دو برس پہلے تک) فن شناس تو دُور کی بات، ’سربراہ‘ ہی نہیں مل سکا تھا، اور یہ ادارہ بھی سرکاری ’بابُوؤں‘ کے رحم و کرم پر چلا جا رہا تھا۔ توقیر ناصر کے بعد سابقہ وزارتِ ثقافت اور موجودہ وزارتِ لوک ورثہ کے جوائنٹ سیکریٹریز کے پاس اس ادارے کا چارج رہا، جو اس ادارے اور اس میں قائم اپنے دفتر کی شکل بھی شاید چھ ماہ میں ایک بار دیکھا کرتے تھے!

ویسے تو نعیم طاہر کا دور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کا ماضی قریب میں سنہرا دور سمجھا جاتا ہے، مگر وہ خود اُن کے لئے بھی ’سنہرا دور‘ رہا۔ کیونکہ پرویز مشرف کی صدارت والے دور میں اُن سے قربت کی وجہ سے وہ اس ادارے کے ایک با اثر اور مکمّل اختیارات رکھنے والے سربراہ رہے، اسی لئے کسی بھی ملک میں اگر کوئی ثقافتی طائفہ جاتا تھا، تو اُس میں آدھے سے زیادہ افراد اُن کے اپنے ہی خاندان کے افراد ہوا کرتے تھے۔

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے کراچی دفتر، جس کی تاریخ بذاتِ خود پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے بھی پرانی ہے، کیونکہ یہ ادارہ پہلے ”پی آئی اے آرٹس اینڈ ڈانس اکیڈمی“ ہوا کرتا تھا، جس کے سربراہ، ضیاء محی الدین ہوا کرتے تھے۔ اس اکیڈمی میں شامل فنکاروں اور رقاصوں نے شہید بھٹو کی فن شناسی کا خوب فائدہ اُٹھایا اور دُنیا بھر میں اُن کے ساتھ گُھومے پھرے اوراپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے اسلام آباد میں قیام کے بعد (جوبھٹو صاحب نے فیض صاحب کے مشورے اور رہنمائی میں قائم کیا) ”پی آئی اے آرٹس اینڈ ڈانس اکیڈمی“ کو پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کا صوبائی دفتر برائے سندھ بنا دیا گیا، جس کا اہم جُز ”نیشنل پرفارمنگ آرٹس گروپ“ تھا، جس میں 20 کے قریب رقاص اور رقاصائیں، جبکہ 10 کے قریب سازندے شامل تھے۔

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے کراچی آفس کی تباہی کی داستان بہت طویل ہے، کیونکہ روم ایک دن میں تباہ نہیں ہوا تھا، مگر اس ادارے کی تباہی کے تابُوت میں آخری کیل لک بھگ 9 سال پہلے وزارتِ ثقافت، حکومتِ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر، پیر آفتاب شاہ جیلانی نے لگائی، جب اُس نے اس ادارے میں تین سال سے کام کرنے والے ڈائریکٹر کو ہٹا کر اپنے دوست اور معروف گویّے، اُستاد فتح علی خان کے بیٹے نثار علی خان کو 16 گریڈ میں ”وارڈروب انچارج“ کی حیثیت سے ملازمت دے کر، راتوں رات مستقل کر کے، ادارے کا چارج اُسے دلوا دیا۔

2010 ء کی اس تعیناتی کے بعد نثار علی خان نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کراچی کو فن کے ادارے کے بجائے نہ جانے کیا سے کیا بنا دیا۔ نتیجتاً ایک دن ہیڈ آفس کی طرف سے مارے جانے والے چھاپے کے بعد چند مہینے نثار علی خان کو معطل کر کے عمارت کو سِیل کر کے ملازمین کی چُھٹی کر دی گئی اور اب اس اہم ادارے کا حشر یہ ہے کہ اُس میں کوئی بھی فنکار تعینات نہیں، جبکہ یہ ادارہ اب ریڈیو پاکستان کی عمارت کے تین کمروں میں واقع ہے، جس میں وہ چند لوگ، جو اس ادارے کے مستقل ملازمین ہیں، کام کرتے ہیں، کیونکہ اُن کو نکالا نہیں جا سکتا، جن میں خود اس دفتر کے انچارج (وارڈروب انچارج) ، ایک اسسٹنٹ، ایک چپراسی، ایک الیکٹریشن اور دو ڈرائیور شامل ہیں۔

گویا وہ ادارہ، جس کے پاس کوئی گاڑی نہیں، اُس کے دو ڈرائیورز سالانہ کم از کم سات لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں، جو آپ کے اور میرے ادا کیے ہوئے ٹیکس سے ادا کیے جاتے ہیں، صرف یہ دو ڈرائیورز ہی نہیں، اس ادارے کے تمام ملازمین اُس کام کی تنخواہ لیتے ہیں، جو وہ نہیں کرتے، یعنی اس ادارے کا مقصد فن کا فروغ ہے، جو بغیر فنکاروں کے چل رہا ہے۔ بذاتِ خود اس دفتر کے سربراھ اُس وارڈروب کے انچارج ہیں، جس وارڈروب کا وجُود ہی نہیں ہے۔ یہاں ملازمین دفتر میں بیٹھنے کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ یہ تو ایک ادارے کا ذکر ہے، ایسے کتنے ادارے پاکستان میں ہوں گے، جن کا بوجھ یہ ملک برسوں سے برداشت کر رہا ہے!

”کی حال سناواں ’قومی اداروں دا‘! کوئی محرم راز نئی ملدا! “

اُس پر رونا یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذاتی پریشانیوں میں اس قدر محو ہے، کہ اُس کے لیے قوم کیا! اور قومی ادارے کیا! ایسے میں میری یہ داستان گوئی بھی کسی کو دیوانگی نہ لگے، اس لیے میں بھی اتنا ہی کہنے پہ اکتفا کر لیتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2