گل بدین حکمت یار ۔۔۔ لوٹ کے بدو گھر کو آیا


\"aliیہ کوئی عام بدو کی بات نہیں جو اونٹ چرانے ریگستان میں کہیں نکل گیا تھا، جب بھوک اور پیاس نے تنگ کیا اور کچھ نہ بن پایا تو گھر کی راہ لی۔ پہلے ملٹری اکیڈمی اور پھر کابل یونیورسٹی سے اپنے شدت پسند نظریات کی وجہ نکال دیے جانے والے گلبدین حکمت یار1973 میں کابل سے نکلے تھے۔ وہ بطور فاتح کابل بھی آۓ وزیر اعظم بھی بناۓ گئے لیکن اپنے مخالفین کے خلاف ان کی نفرت کم نہ ہو سکی۔ کابل کے در و دیوار گواہ ہیں کہ روس کے ساتھ جنگ کے دوران نہایت پرامن رہنے والے اس شہر میں اسی گلبدین کی موجودگی میں پچاس ہزارسے زیادہ لوگ مرے۔ روسی مداخلت کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں روسیوں کے یہاں قیام کے دوران اس شہر میں ایک بھی گولی نہ چلی لیکن روسیوں کے نکل جانے اور گلبدین اور دیگر دین کے ناموس کے لئے جنگ لڑنے والوں کی آمد کے بعد اس شہر کا کوئی درو دیوار بغیر گولی یا گولے کے نشان کے نہ رہا۔ کابل کو شمال کے ساتھ ملانے والا درہ سلانگ گواہ ہے کہ کیسے اسلام کے نام پر جہاد کرنے والوں نے افغان روایات تک کو بھی بھلا دیا تھا جب عورتوں اور بچوں کو بھی فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر اپنی ہوس کے بھینٹ چڑھایا۔

کیڈٹ کالج سے کابل یونیورسٹی اور اس کے بعد پاکستان آنے کے بعد گلبدین یہاں بھٹو اور اس کے بعد ضیاالحق کے مہمان خاص رہے۔ بھٹو سرکار کے سردار داؤد کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے کے باوجود بھی گلبدین کو بچاۓ رکھا گیا۔ جب سردار داؤد کا تختہ الٹا کر کمیونسٹ اقتدار میں آۓ تو حکمت یار سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا۔ امریکہ کے نور نظر اور سعودیہ کے چہتے گلبدین اس وقت کے بارسوخ اور صاحب ثروت جنگجوؤں میں شامل ہوتے تھے جو روسی افواج کے خلاف اپنے ہی ملک میں امریکی میزائل جہاد سمجھ کر داغ رہے تھے۔ امریکی ان پر اس قدر مہربان تھے کہ ان کو ہیروئین کے کاربار کی اجازت بھی دی گئی تھی۔

روس کی مداخلت کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں بعض اندازوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ تک افغان گھر بار چھوڑ کر پاکستان، ایران، ہندوستان، یورپ اور امریکہ میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بیس لاکھ تک لوگ مر گئے اور لاکھوں معذور ہوچکے ۔ افغانستان کے اندر سڑکیں، نہری نظام، زراعت سمیت ہر شے تباہ ہوگئی اور ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ۔

افغانستان کی تباہی کی رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوئی جب روسی فوج نکل گئی اور کابل میں مجاہدین کہلانے والے جنگجوؤں کی آمد ہوئی۔ آٹھ دھڑوں میں بٹے مجاہدین کو خانہ کعبہ کے اندر قسم دلاکر کابل لایا گیا تو پھر بھی ان کے دلوں سے ایک دوسرے کے لئے کدورتیں ختم نہ ہو پائیں۔ ان کے علاوہ ایران کے حامی شیعہ جنگجوؤں کے نو دھڑے تھے جن کو ابتدائی طور پر حکومت سازی میں بالکل نظر انداز کیا گیا تھا اور وہ اس بات پر ڈٹے ہوے تھے کہ وہ اپنا حق لے کر رہیں گے۔ جب یہ سب اپنا اپنا ایجنڈا لیکر کابل میں داخل ہوۓ تو دنیا نے وہ مناظر دیکھے کہ الامان الحفیظ۔

خون خرابہ، مار دھاڑ اور لاقانونیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا اور ایسے میں گلبدین حکمت یار وزیر اعظم بھی رہے مگر کابل سمیت پورے افغانستان میں رقص ابلیس جاری رہا۔ کابل کے بارے میں کبھی تعجب سے یہ پوچھنے والے کہ کیا کابل میں گدھے نہیں ہوتے اب پوچھنے لگے تھے کیا وہاں کوئی انسان بھی رہتے ہیں۔ ایسے میں بظاہر گلبدین سمیت مجاہدین کہلانے والے حکمرانوں کی کارستانیوں سے تنگ آکر مدرسوں کے طلبہ جن کو پشتو میں طالبان کہا جاتا ہے نے بغاوت کی او ر قندھار سے ایک نئے عہد آغاز ہوا۔ طالبان کی کابل آمد کے ساتھ ہی تمام مجاہدین بشمول گلبدین کے پھر سے جلاوطن ہوۓ۔

گیارہ ستمبر 2001 کے امریکہ پر حملوں تک طالبان کا دور بھی افغانستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے جب یہاں سخت گیر موقف رکھنے والےمدارس کے طلبہ نے حکومت بنا کر اقلیتوں، عورتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ ظلم و استبداد جاری رکھا۔ گلبدین اپنے وطن میں امن اور ترقی کے لئے کوئی کردار ادا کرنے کے بجاۓ خود پناہ گزین ہوگئے۔ طالبان کو حکومت کرنے اور امور مملکت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اگر گلبدین جیسے لوگ ان کے قریب آتے تو شاید افغانستان ایک پرامن ارتقائی عمل میں داخل ہو جاتا۔ لیکن پوری دنیا میں اپنی ایک شہرت رکھنے والے بغیر کسی ڈگری کے انجنئیر دین کے گل حکمت کا یار کس طرح قندھار کے کسی مسجد کے ایک غیر معروف مولوی کے اقتدا میں کھڑے ہوتے۔

جب امریکی اور ان کی اتحادی فوجیں کابل میں آئیں تو حکمت یار کے پاس ایک اور موقع تھا کہ وہ افغانستان کو مزید تباہی سے بچاتے۔ ان کے پاکستان اور امریکہ دونوں کے حکمرانوں کیساتھ پرانے روابط تھے اور وہ ایک بہتر کردار ادا کرسکتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کرزائی سے بہتر ثابت ہوتے۔ لیکن وہ اپنے دیرینہ حریف احمد شاہ مسعود کی شمالی اتحاد کے بغض میں ایسا نہ کر پاۓ یا شائد وہ امریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کی اور بھول گئے کہ روسیوں کے خلاف تو امریکہ تھا لیکن امریکہ کے خلاف کوئی نہیں ۔

امریکہ کے کابل آنے کے بعد افغانستان کی بربادی کا چوتھا دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ القاعدہ کے افغانستان سے نکلنے کے ساتھ اب کے جنگ کابل سے پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں داخل ہو چکی ہے جو اب داعش کی شکل میں واپس آ رہی ہے۔ طالبان کمزور ہوچکے ہیں لیکن طالبانیت طاقتور ہوئی ہے۔ دھماکے، خودکش حملے، اغوا، قبضہ اور منشیات افغانستان کے نئے مسائل ہیں جن سے آنے والے وقتوں میں افغانوں کو نمٹنا ہے۔

خرابی بسیار کے بعد خیر سے بدو گھر کو تو لوٹے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ انیس سو اسّی کی دہائی کی طرح بغض اور کینہ لے کر کابل پر قبضے کے لئے آۓ ہیں یا ساری زندگی جنگ و جدل میں گزارنے کے بعد اب کفارہ ادا کرنے آۓ ہیں۔ اگر وہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے آۓ ہیں تو بہت جلد نظر آۓ گا کہ وہ مذاکرات کے عمل کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں اور دیگر فریقین بالخصوص طالبان کو اس میں شامل کرتے کے لئے کیا اقدامات کراتے ہیں۔ ورنہ بہت جلد کابل کی سڑکیں ایک نیا منظر نامہ پیش کریں گی جو1979 میں مجاہدین کی یہاں آمد کے ابتدائی دنوں سے مختلف نہیں ہو گا۔

کابل میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنان نے گلبدین کو معافی دینے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر افغان حکومت کے خلاف احتجاج کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ایسے مجرموں کو معافی نہیں دی جا سکتی جنھوں نے اپنے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہو۔

یہ گلبدین کا طرز عمل ہی بتاۓ گا کہ افغان حکومت کا ان کے لئے معافی کا فیصلہ غلط تھا یا صحیح۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments