ایک ماہ پہلے: الیکشن جیتنے کے لئے مودی پاکستان سے جنگ کر سکتا ہے، مایاوتی


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

یہ 29 اگست 2016 کا دن ہے۔ اکیس کروڑ آبادی والی بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں ریاست کی چار مرتبہ وزیراعلی رہنے والی بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کر رہی ہیں۔

”لوگوں کی توجہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانے کے لئے نریندر مودی کی حکومت کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان سے جنگ شروع کر سکتی ہے۔ لوگوں کو سماج وادی پارٹی اور خاص طور پر بھارتیا جنتا پارٹی کی مکاریوں کی سمجھ آ گئی ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت اسمبلی کے الیکشن سے پہلے یا درمیان میں ہندو مسلم فسادات کروا سکتی ہیں۔ جنتا چوکنی رہے“۔

مایاوتی نے کہا کہ پردھان منتری نریندر مودی نے لوگوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔ پروانچل (مشرقی یوپی)، جس میں نریندر مودی کا انتخابی حلقہ بنارس بھی شامل ہے، خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔ مودی نے جن اچھے دنوں کے سبز باغ دکھائے تھے وہ درحقیقت بہت برے دن ثابت ہوئے ہیں۔

\"mayawati_thmni_1266038f\"

مایاوتی کی اس تقریر کے ٹھیک بیس دن بعد 18 ستمبر کو مقبوضہ کشمیر کی بھارتی چھاؤنی میں حملہ ہوتا ہے۔ پورے ہندوستان میں جنگی جنون پیدا کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا بے تحاشا چنگھاڑ رہا ہے۔ بعد لوگ تو پاکستان پر ایٹمی حملے کی بات کر رہے ہیں۔ طرح طرح کے منصوبے پیش کیے جاتے ہیں کہ پاکستان کو کیسے سزا دی جائے۔ اور اس تقریر کے ایک ماہ بعد ہندوستانی سینا اعلان کرتی ہے کہ اس نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کر دیے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر پاکستان دشمنی کے جنون کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حتی کہ اس وقت بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیاں بھی نریندر مودی کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں۔

نریندر مودی نے جب گجرات سے نکل کر مرکز کی حکومت پانے کی خاطر اپنی مہم چلائی تو وہ ہر محاذ پر ناقابل شکست ثابت ہوئے۔ مرکز میں حکومت بنانے کے بعد بھی وہ ہر ریاستی الیکشن میں اپوزیشن کو بلڈوز کرتے رہے۔ حتی کہ دہلی میں جھاڑو کے نشان والا اروند کجریوال آ گیا۔

\"arvind-kajriwal\"

دہلی میں فروری 2016 میں ہونے والے انتخابات میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر دی اور ستر میں سے 67 سیٹیں جیت لیں۔ بی جے پی نے صرف تین سیٹیں جیتیں اور باقی کوئی پارٹی ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر پائی۔ اس سے پچھلے الیکشن میں بی جے پی کی 32 سیٹیں تھیں۔ اس الیکشن کو حیرت سے دیکھا گیا مگر کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ مودی کی مقبولیت کی لہر ختم ہو چکی ہے۔

نومبر 2015 میں اترپردیش میں لوکل باڈی الیکشن ہوئے۔ اس میں بہوجن سماج پارٹی نے واضح برتری حاصل کی۔ 2014 کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکتی تھی اور بی جے پی نے 80 میں سے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن لوکل باڈی الیکشن میں یہ حال ہوا کہ پردھان منتری نریند مودی کے قومی اسمبلی کے اپنے حلقے میں 48 میں سے صرف 8 سیٹوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیابی نصیب ہوئی۔

\"lalu_prasad_jp_1880229f\"

پھر بہار کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں نریندر مودی کا ٹکراؤ لالو سے ہوا اور لالو پرشاد نے نریندر مودی کو لالو لال کر دیا۔ آٹھ نومبر 2015 کو الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا تو لالو پرشاد یادیو اور نتیش کمار کے اتحاد نے 243 میں سے 178 سیٹیں جیت لیں۔ بی جے پی نے کے اتحاد نے کل 57 سیٹیں جیتیں جن میں سے 53 بی جے پی کے اپنے پارٹی امیدواروں کی تھیں۔

اب واضح تھا کہ مودی مقبولیت کی لہر دم توڑ چکی ہے۔

دسمبر 2016 میں اترپردیش میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا اور 2017 کے اوائل میں یہ الیکشن ہوں گے جن میں جیتنا نریندر مودی کے لئے بہت اہم ہے۔ مقابلہ بی جے پی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے درمیان ہونے کی توقع ہے جس میں مایاوتی کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا تھا لیکن بی جے پی اس الیکشن میں فتح کے لئے ہر حربہ آزمانے پر آمادہ دکھائی دیتی تھی۔ ان حالات میں مایاوتی نے وہ تقریر کی جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے کہ نریندر مودی یہ انتخابات جیتنے کے لئے کشمیر یا دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان سے جنگ کرنے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔

\"narendar-modi-2\"

دوسری طرف، کشمیر میں گزشتہ چند ماہ سے جاری تحریک آزادی نے بھارتی سرکار کی نیندیں اڑائی ہوئی تھیں۔ ہر ریاستی حربہ، ہر غیر انسانی ظلم، اس تحریک کو دبانے میں ناکام تھا۔ بین الاقوامی فورمز پر بھارت منہ چھپائے پھرتا تھا۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ میں نواز شریف کشمیر کے موضوع پر تقریر کرتے دکھائی دے رہے تھے، مگر ہر وقت غیر ملکی دورے کرنے کے شوقین نریندر مودی اسی کشمیر پر ہونے والی سبکی کے اندیشے سے اقوام متحدہ میں نہیں گئے۔ بھارتی سرکار لاکھ کوشش کے باوجود یہ ثابت نہیں کر سکی کہ کشمیری تحریک ادھر کے مقامی لوگ نہیں چلا رہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بھارتی سرکار کے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہیں تھا۔

اب بھارت میں جس طرح جنگی جنون پیدا کیا گیا ہے، اور جس طرح پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کیے جا رہے ہیں، تو دنیا اس وقت کشمیر کی تحریک آزادی کو بھول کر برصغیر میں پاک بھارت جنگ اور ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکنے پر پوری توجہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔

\"narendar-modi-3\"

نریندر مودی اس معاملے کو گرم کر کے نہ صرف ملکی انتخابات جیتنا چاہتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیر کی تحریک آزادی کے ذکر سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ مایاوتی درست کہتی تھیں، ”لوگوں کی توجہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانے کے لئے نریندر مودی کی حکومت کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان سے جنگ شروع کر سکتی ہے“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments