سیاست اور ادب کے مشاہیر کی رومانوی زندگیاں


سقراط یونان کے روایتی شہریوں کی طرح خوبصورت نہ تھا۔ وہ جسمانی لحاظ سے بھدا اور بدصورت تھا۔ اس بھدے اور بدصورت جسم میں انتہائی خوبصورت، نیک اور ذہین روح کا بسیرا تھا۔ وہ خوش مزاج بھی تھا۔ پہلی بیوی کے مرنے کے بعد اس نے اپنے سے بیس سال چھوٹی زینتھی پی (Xanthippe) نامی خاتون سے شادی کی۔ وہ انتہائی جھگڑالواور لڑاکا خاتون تھی۔ وہ صرف سقراط ہی نہیں اس کے دوستوں کو بھی بہت برا بھلا کہتی تھی۔ اس کی یہ برائی پورے ایتھنزمیں مشہور تھی۔

اسی وجہ سے آج بھی انگلش زبان میں زینتھی پی کو ’لڑاکا‘ کا ہم معنی لکھا جاتا ہے۔ یہ خاتون اس حد تک بدزبان اور بدتمیز تھی کہ ایک دن اس نے بدکلامی کرتے کرتے پیشاب کابرتن سقراط کے سر پر انڈیل دیا۔ سقراط نے مسکراتے ہوے کہا، ”طوفان میں گرج چمک کے بعدبارش بھی ہوتی ہے۔ “ سقراط کہتا ہے کہ اس نے اسے بحث میں مضبوط دلائل دیتے ہوے دیکھ کر شادی کے لئے چنا۔ وہ مثال دیتا ہے، ”یہ ایک سوار کی مثال ہے جو ایک ماہر گھوڑ سوار بننے کی خواہش کرتا ہے، اسے نرم مزاج اور شائستہ جانور نہیں چاہیے۔ وہ اکھڑ، وحشی اور سرکش گھوڑا سواری کے لئے پسند کرے گا۔ اس سے اسے دوسرے گھوڑوں سے نمٹنا بھی آسان ہو جاے گا۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں انسانوں سے معاملات کرنا چاہتا ہوں، لہذا میں نے اس بیوی کا انتخاب کیا۔ اگر میں اس کرخت بیوی کو برداشت کر لوں گا تو میں ہر انسان سے منسلک ہو سکتا ہوں۔ “

سقراط کا شاگرد افلاطون لکھتا ہے کہ د وہ ایک جان نثار بیوی اور ماں تھی۔

نپولین کی مادام ڈی بیوہارنس سے ملاقات ہوئی تو اس کے دوبچے تھے اوروہ طلاق یافتہ تھی۔ اس کے بہت سی سیاسی شخصیات سے جنسی تعلقات تھے۔ وہ نپولین سے چھ سال بڑی بھی تھی۔ وہ اس کی رکھیل بن گئی۔ چار سالہ تعلقات کے بعد انہوں نے مارچ 1796 میں شادی کر لی، جس سے نپولین کا خاندان، خصوصی طور پراس کی ماں اور بہنیں بہت ناراض ہوئیں۔ اس شادی پر غیر قانونی ہونے کے الزامات بھی لگے۔ بونا پارٹ سے ملنے تک اس کو ’روز‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نپولین نے اسے ’جوسفین‘ کا نام دیا۔

شادی کے دو دن بعد ہی نپولین کو فرانسیسی افواج کی قیادت کرتے ہوے اٹلی جانا پڑا۔ جہاں سے اس نے اسے بہت سے خطوط لکھے جو عشق و محبت کی دنیا میں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ نپولین ہمیشہ اس کی تصویر اپنے پاس رکھتا اور اس کے بوسے لیتا رہتا۔ اس کی عدم موجودگی میں جوسفین نے ایک خوبصورت، حسین نوجوان لفٹیننٹ سے تعلقات بنا لئے۔ خبر نپولین تک بھی پہنچ گئی۔ دو سال بعد جب نپولین مصر گیا تو اس کا ایک جونئیر افسر کی بیگم سے معاشقہ شروع ہوگیا۔ یہ خاتون بعد میں ”نپولین کی قلو پطرہ“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ دونوں کی ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کہانیاں مشہور ہوئیں۔

1804 میں جب نپولین فرانس کا بادشاہ قرار دیا گیا تو اس سے ایک دن پہلے دونوں کی شادی کومذہبی اور قانونی تحفظ دینے کے لئے دوبارہ رومن کیتھولک چرچ میں شادی کی رسم ادا کرنا پڑی۔ تخت نشینی کے وقت نپو لین نے اپنا تاج اس کے سر پر رکھ کر اسے اپنی ملکہ قرار دیا۔ تخت نشینی سے کچھ دیر پہلے ہی جوسفین نے نپولین کو اپنی ایک مصاحبہ کے ساتھ خواب گاہ میں پکڑ لیا۔ بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ جاتی اگر ان کی بیٹی بیچ بچاؤ نہ کرو ادیتی۔

جوسفین نپولین کو سلطنت کا وارث نہ دے سکی۔ 1807 میں جوسفین کا نواسہ، نپولین کا بھتیجا، جسے ولی عہد بنایا گیا تھا، ایک بغاوت میں مارا گیا تو اس کی کمی اور شدت سے محسوس کی گئی۔ نئی شادی کا راستہ ہموار کرنے کے لئے جنوری 1810 میں نپولین اورجوسفین میں باہمی رضامندی سے طلاق ہو گئی۔ طلاق کی محفل میں نپولین نے کہا، ”میری خواہش ہے کہ ملکہ کا منصب اوراعزاز اس کے پاس ہی رہے۔ وہ کبھی بھی میرے جذبات اور پیارپر شک نہ کرے اورمجھے اپنابہترین اور عزیز ترین دوست ہی سمجھے۔ “ ایک مرتبہ اس نے کہا، ”میں نے تو صرف رحم مادر سے شادی کی ہے۔ “

جلاوطنی کے دوران نپولین کو اس کی وفات کی خبر ملی تو اس نے خود کو دو دن تک اپنے کمرہ میں بند کرلیا۔ جب وہ خود مرنے لگا تو اس کے لبوں سے جو آخری الفاظ نکلے وہ تھے، ”فرانس، فوج، فوج کا سربراہ اور جوسفین۔ “

یہ وہ عشق ہے، جس کی مثالیں ہر علاقہ، ہر معاشرہ میں، ہر دور میں ملتی ہیں۔ کیا اب یہ عشق مفقود، ناپیدیا متروک ہو چکا ہے؟ معاشرہ میں اب میاں بیوی کو علیحدہ علیحدہ حیثیت میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ وہ یہ کام کرے، دوسرا کہتا ہے کہ نہیں کرے گا۔ ملازم نہیں ہے۔ شادیوں کی ناکامی میں بدزبانی، بد اخلاقی کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کوئی کسی کی کمی کو تاہی برداشت کرنے کوتیا ر نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کی رغبت دی جا رہی ہے۔ کسی مکتب میں قربانی کا درس دیا ہی نہیں جا رہا۔ عشق کہیں نظر ہی نہیں آرہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2