سر سید اور تعلیم نسواں – حصہ دوئم


سر سید اور تعلیم نسواں – حصہ اول\"iftikhar-alam\"

بہرحال، آمدم بر سرِ مطلب، ہم تو یہاں آزادیٔ نسواں کی حامل مغربی معاشرت کی پروردہ خواتین کے لئے سر سید کی ستائش اور ادب و احترام کے جذبہ کے اظہار سے یہ امر واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تعلیم نسواں کے ساتھ ساتھ آزادیٔ نسواں کے بھی متمنی تھے۔ انہوں نے یورپ کی خواتین کی آزادی اور ان کی معاشرت کو دوسرے مشرقی سیاحوں کی طرح ’’بے حیائی یا بے شرمی پر محمول نہیں کیا تھا‘‘۔ بلکہ وہ ہندوستانی خواتین جنہوں نے اپنی روایتی معاشرت سے ہٹ کر یا مغربی معاشرت کے زیر اثر کچھ ’’نیا‘‘ طور طریقہ اختیار کیا تھا یا کوئی کارنامہ انجام دیا تھا اس کی بھی سرسید نے بھرپور داد دی تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ انگلینڈ کی مسافت کے دوران دخانی جہاز میں پیش آیا تھا جہاں سر سید کی ملاقات ایک باہمت ہندوستانی خاتون (جو آیا گیری کا کام کرتی تھیں) سے ہوئی تھی۔ وہ ان کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ:

’’مسماۃ نصیباً آیا، مسز کوپر ڈپٹی کمشنر لکھنؤ کے ساتھ جہاز میں ہے وہ بھی نہر سویز سے کچھ کم عجب نہیں ہے۔ یہ آیا کانپور کی رہنے والی ہے قوم پٹھان مسلمان ہے۔ اس کا بیان ہے کہ اس کو یورپ میں آتے ہوئے اکیسویں دفعہ ہے۔ ہمیشہ انگریزوں اور ان کے بچوں کو ٹھیکے پر ولایت پہنچانے آتی ہے اور پہنچا کر چلی جاتی ہے۔ انگریزی خوب بولتی ہے۔ انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، فرانس، پرتگال، لزبن اور، اور مقاماتِ یورپ کے اس نے دیکھے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاباش تُو تو مردوں سے بھی اچھی ہے‘‘۔

لندن پہنچ کر سر سید نے جس مکان میں رہائش اختیار کی تھی وہ مکان مسٹر اور مسز لیڈلم کی ملکیت تھا۔ سرسید نے اپنے خطوط اور سفرنامہ میں اپنی لینڈ لیڈی یعنی مسز لیڈلم کا ذکر نہایت خلوص اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:

’’مسز لیڈلم ایک ایسی قابل اور تعلیم یافتہ، نہایت شستہ، نہایت پڑھی لکھی، نہایت نیک بی بی ہے کہ اس کی خوبیاں بیان نہیں ہوسکتیں، تہذیب اور اخلاق اور ادب اور انسانیت سب چیز کی مجسم ہے تمام کام اور تمام معاملات خانہ داری کے نہایت لیاقت سے خود کرتی ہے۔ اور مسٹر لیڈلم کو بجز آفس میں جانے اور اپنے علمی جلسوں میں شریک رہنے کے کسی چیز کی فکر نہیں ہے’’۔

اسی کے ساتھ سر سید نے مسز لیڈلم کی دوسری دو بہنوں کا تذکرہ بھی نہایت اخلاص اور داد و دہش کے ساتھ اس طرح کیا ہے:

“ان کی (یعنی مسز لیڈلم کی) دونوں بہنیں بھی اسی طرح پڑھی لکھی قابل ہیں، ان میں سے مسز الن ویسٹ کو کتابیں پڑھنے کا نہایت شوق ہے۔ ان دنوں میں، مَیں ایک کتاب، متعلق مذہب مسلمانوں کے لکھ رہا ہوں اور میں نے بہت سی انگریزی کتابیں جو مسلمانوں کے مذہب کے متعلق، خواہ اس کی تائید میں خواہ اس کی تردید میں لکھی گئی ہیں، اور نیز چند کتابیں لا مذہبوں کی جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور سب کی تردید کرتے ہیں، جمع کی ہیں۔ چند روز ہوئے کہ ایلن ویسٹ واقعتاً نہایت بیمار ہوگئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہلا بھیجا کہ جو کتابیں حال میں تم نے خریدی ہیں، ان میں سے کوئی کتاب میرے پڑھنے دل بہلانے کو بھیج دو، میں نے کہا کہ میرے پاس اس قسم کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ مذہبی کتابیں ہیں وہ بھی جھگڑے اور رد و قدح کی۔ اس نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں انھیں میں سے کوئی دو۔ چنانچہ میں نے ایک کتاب بھیج دی۔ دو دن میں اس نے اس کتاب کو پڑھ ڈالا اور جب اس کو بالکل صحت ہوئی اور باہر آئی تو چند باتیں نہایت عمدہ اس کتاب میں سے بیان کیں۔

یورپین خواتین کی طرزِ معاشرت، اعلیٰ فہم اور عمدہ اخلاق و تربیت سے سر سید اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ ان کا مقابلہ ہندوستانی خواتین سے کرتے ہوئے انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا:

’’سمجھنا چاہئے کہ متوسط درجہ سے کسی قدر کم درجہ کی عورتوں کی کیسی عمدہ تعلیم ہے۔ کیا یہ تعجب انگیز بات نہیں ہے کہ ایک عورت حالت بیماری میں کتاب پڑھنے سے دل بہلاوے۔ آپ نے ہندوستان میں کسی امیر، کسی نواب، کسی راجہ، کسی مرد اشراف کو ایسی خصلت کا دیکھا ہے۔ اگر ہندوستان میں کوئی عورت بالکل برہنہ بازار میں پھرنے لگے تو ہمارے ہم وطنوں کو کیسا تعجب اور کس قدر حیرت ہوگی۔ بلا مبالغہ یہ مثال ہے کہ جب لندن کی عورتیں یہ سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں اور حلیہ تربیت اور زیور تعلیم سے بالکل برہنہ ہیں تو ان کو ایسا تعجب ہوتا ہے اور کمال نفرت اور کمال حقارت ان کے خیال میں گزرتی ہے‘‘۔

سر سید نے ان خواتین کے ساتھ ہی، ان کی خدمت کے لئے مقرر کی گئی دو خادماؤں کا ذکر بھی بڑے خلوص، عزت اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:

’’ہماری مہربان لینڈ لیڈی نے ہمارے کاموں کے انجام کے لئے دو نوکریں رکھی ہیں ایک کا نام این اسمیتھ اور دوسری کا ایلزابیتھ ماتھیوز ہے۔ پچھلی تو نو عمر غریب لڑکی ہے، متفرق کام کرتی ہے اور پہلی (یعنی این اسمیتھ) ہوشیار اور لائق پڑھی لکھی، خوش خط، باسلیقہ ہے۔ کتابیں پڑھ سکتی ہے۔ تمام ضروری مضمون لکھ سکتی ہے۔ اپنے متعلق کام اس خوبی سے انجام دیتی ہے کہ جیسے کوئی کل یا گھڑی بلا تفاوت باقاعدہ اپنا کام کرتی ہے‘‘۔

اسی کے ساتھ دوسری خادمہ یعنی ایلزابیتھ ماتھیوز، جو ایک نو عمر غریب لڑکی تھی اور قلیل تنخواہ پر متفرق کام انجام دینے کے واسطہ رکھی گئی تھی، کی ستائش بھی سر سید نے ان الفاظ میں کی تھی:

’’اس نو عمر لڑکی ایلزابیتھ ماتھیوز کو دیکھو کہ باوجود قلت تنخواہ کے ہمیشہ ہاف پینی والے اخبار جس کا نام \”ایکو\” ہے مول لیتی ہے اور جب کام سے فرصت ملتی ہے تو اس کو پڑھتی ہے۔ کبھی پنچ اخبار کا کوئی پرچہ لے کر اس میں جو تصویریں عورتوں کی مسترز اور کسٹم پر ہوتی ہیں ان کو دیکھتی ہے اور اس کے ایڈیٹر کے کنایے اور اشارے کو پڑھتی ہے اور طبیعت کو خوش رکھتی ہے‘‘۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ دوسرے مسلم سیاحوں کی طرح سر سید نے عورتوں کی مغربی معاشرت اور طور طریقوں کو ’’بے شرمی‘‘ اور ’’بے حیائی‘‘ پر محمول نہیں کیا تھا بلکہ انہیں نہایت ادب و احترام اور ستائش کا مستحق ٹھہرایا تھا۔ سر سید کی فکر میں تعلیم نسواں اور آزادیٔ نسواں دونوں کی اصلاحی ضرورتوں کی اہمیت اور طمع واضح طور پر موجود تھی۔ لیکن تعلیم نسواں اور آزادیٔ نسواں کے درمیان ’’پردے‘‘ کی ایک دبیز دیوار حائل تھی۔ سر سید کے خیال سے تعلیم نسواں بذات خود آزادیٔ نسواں کی معاون ہوگی لیکن آزادیٔ نسواں کی کوئی تحریک تعلیم نسواں کے امکانات کو بھی معدوم کر دے گی۔ اسی وجہ سے سر سید تعلیم نسواں کے حامی لیکن آزادیٔ نسواں کے مسائل سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ سر سید کا آزادیٔ نسواں کے سلسلے کا یہ ’’گریز‘‘ ہی ان پر عائد کیے جانے والے اس الزام کا موجد بنا تھا کہ انہوں نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھلائی تھی۔ سر سید کے قریبی رفقاء بھی ان پر عائد کیے جانے والے اس بہتان کی سچائی کا یقین نہیں تو خواہش ضرور رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی جس کی بنا پر سر سید کے بایو گرافر منشی سراج الدین صاحب نے اس سلسلے میں سر سید کے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ عمل سر سید کی ایما سے کیا گیا تھا۔ منشی سراج الدین مختلف مسائل پر سر سید سے ان کی آرا سوالات کی صورت میں دریافت کرتے رہتے تھے۔ سر سید ان کے سوالات کے تحریری جوابات ان کو ارسال کیا کرتے تھے۔ ہمارے خیال سے سراج الدین صاحب نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں بھی سر سید سے ضرور استفسار کیا ہوگا جس کے جواب کی بنا پر منشی سراج الدین نے 1891 میں تعلیم نسواں کے سلسلے میں سر سید کے موقف کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ:

’’سرسید احمد خاں کی رائے تعلیم نسواں کی بابت بارہا نہایت اعتدال کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے اور کوئی نہیں خیال کرسکتا کہ فاضل ممدوح کسی طرح تعلیم نسواں کو کم ضروری سمجھتے ہیں، مگر نہایت افسوس ہے کہ ان کی رائے سے جو اثر ان کے ہم خیال لوگوں کی طبیعت پر پیدا ہوا ہے وہ نہایت اندیشہ ناک ہے۔ وہ تعلیم نسواں کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے، اس سے غافل اور بے پرواہ ہو چکے ہیں‘‘۔

آخیر میں ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سر سید تعلیم نسواں کے سرگرم ہم نوا اور آزادیٔ نسواں کے مسائل سے کسی حد تک محتاط رویے کے حامل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے تعلیم نسواں پر تو اصرار کیا لیکن آزادیٔ نسواں کی ستائش سے آگے قدم نہ بڑھا سکے تھے، لیکن ان کی اس ’’محتاط گریز‘‘ سے ان کی روشن خیالی پر کوئی حرف صادر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے اس نتیجے کا ماخذ سرسید کا وہ موقف ہے جس میں انہوں نے نہایت وثوق سے کہا تھا کہ:

’’عورتوں کی تعلیم، خواہ پردے میں خواہ مدرسہ میں، ہونا اب ایسا سوال نہیں رہا جس پر حجت اور شک و شبہ باقی ہو‘‘۔

حوالے و حواشی:

  1. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 124
  2. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 193
  3. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 193-194
  4. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 194
  5. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ: 200
  6. سر سید احمد خاں، مسافرانِ لندن، پاکستان اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، (کراچی)، 1996، صفحہ:201
  7. بحوالہ سر مورگزٹ، ناہین 1891، (نوٹ: حوالہ کا کارڈ ادھر ادھر ہوجانے کی وجہ سے مزید تفصیلات درج کرنے سے قاصر ہوں)
  8. سر سید احمد خاں، ہمارے روسا اور قومی بھلائی، بحوالہ مقالات سر سید، مرتبہ: محمد اسماعیل پانی پتی، (حصہ 12)، ص: 18

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments