طافو …. طبلے کا جادو گر نابغہ جسے سمجھا نہیں گیا


\"muhammadاس قسم کے خاکے عموماً ممدوح سے معلومات حاصل کرکے تحریر کئے جاتے ہیں اورلفاظی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ہماری طافو سے آخری ملاقات ہوئے بیس برس بیت چکے ہیں۔ ’جہالت ‘کے دور میں (ویسے تو اب بھی عالم نہیں) ہمارا شمار ان کے ناقدین میں ہوتا تھا۔ جب خود طبلہ سیکھنا شروع کیا اور دنیا گھومی تواندازہ ہوا کہ طافو کیا ’بلا‘ ہے! ایک زمانہ طافو کا مداح بھی ہے اور ناقد بھی۔ مداح عموماً سچے اور ناقدین حاسدین ہیں۔ مداحوں میں بھی ایک گروہ ایسا ہے جو ان کے سامنے ان کے گھٹنے چھوتا ہے اور پیچھے تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ ہم ہر گروہ کے ساتھ اچھی طرح اٹھ بیٹھ چکے ہیں۔ یہ خاکہ ہماری بے لاگ رائے ہے۔ کسی کو اچھی یا بری لگ سکتی ہے لیکن ہے نیک نیتی پر مبنی!

 طافو سے پہلا تعارف لوک ورثے کی ویڈیو ریکارڈنگ سے ہوا۔ جس جگہ آج کل اسلام آباد کی سپر مارکیٹ میں وین گارڈ بک سٹور ہے وہا ں بیس برس قبل لوک ورثے کا display center ہوا کرتا تھا۔ اس ویڈیو کی کوالٹی اچھی نہ تھی (لوک ورثے کے پاس آج بھی ماڈرن ریکارڈنگ سسٹم موجود نہیں! ) پھر اس ریکارڈنگ میں طافو کا چیلنج سنا کہ وہ ایک لاکھ روپے اس شخص کو دینگے جو ان سے اچھا طبلہ بجا کر دکھا سکے اور شکست کی صورت میں وہ طبلہ بجانا بھی چھوڑ دیں گے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ چھچھورا پن لگا لیکن اس وقت ہم بچے تھے (اب بھی ایسے ہی ہیں!) اور اس بات کی سمجھ بوجھ نہ تھی کہ یہ دعویٰ کس تناظر میں کیا جا رہا ہے۔ پسِ منظر تو جلد ہی چل گیا مگر سمجھنے میں پچیس برس لگ گئے! آج ہمارا یہ ماننا ہے کہ طافو کا یہ چیلنج کافی حد تک درست ہے ۔ اگر ہم ان کی جگہ ہوتے تو شاید ایسا ہی کرتے۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب طافو کے استاد بھائی استاد شوکت حسین مرحوم کو ان کے چند شاگردوں نے ایک ذاتی محفل میں ’میاں‘ کے لقب سے نواز دیا۔ اصلی ’میاں‘ تو ایک ہی تھے یعنی میاں قادر بخش۔۔ ان دونوں کے استاد، برصغیر کے عظیم طبلہ نواز\"tafu1\" استاد اللہ رکھا کے استاد، طبلہ لیجنڈ استاد ذاکر حسین کے دادا استاد۔ طافو کو یہ بات کھل گئی۔ اس قسم کے القابات سے کسی کو اس وقت نوازا جاتا ہے جب وہ طبلے کا دنگل بجائے اور پنڈال میں اس کی قابلیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ طافوکا یہ چیلنج شوکت صاحب کے لئے تھا کہ بھئی میاں بننے کا شوق پورا کر لینا پہلے اتنا تو بجا لو جتنا میں بجا سکتا ہوں۔ طافو شوکت صاحب سے جونیئر تھے۔ اور شوکت صاحب انتہائی عاجز اور کم گو انسان۔ اپنی ذات میں ایک مکمل درویش۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ انہیں کیا ضرورت تھی اس جھنجھٹ میں پڑنے کی۔ وہ میاں بننے سے پہلے بھی عمدہ طبلہ بجاتے تھے۔ ان کے کام کھوکھلے القابات کی ضرورت نہ تھی اور وہ موسیقی کی روایات سے بھی خوب واقف تھے۔ انہیں علم تو ہو گا کہ ایسا کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ساری زندگی شوکت صاحب نے طافو کے چیلنج کا جواب نہیں دیا۔ طافو اس کے باوجود شوکت صاحب کی بہت عزت کرتے رہے۔ جب صاحبِ فراش ہو گئے توطافو ان کی عیادت کو بھی آئے۔ شوکت صاحب نے طافو کو کہا کہ یار اب یہ جھگڑا ختم کرو۔ یہ بات ہمیں شوکت صاحب کے شاگرد اور ہمارے دوست اجمل نے بتائی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شوکت صاحب خوشامدیوں کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔ جنہوں نے انہیں میاں بنایا ان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی ۔ وہ شوکت صاحب کے بے وقوف دوست تھے جن سے اچھا عقلمند دشمن ہوتا ہے۔ مگر طافو دشمن نہ تھے۔ ہم نے آج تک طافو سے شوکت صاحب کے بارے میں کوئی نا مناسب بات نہیں سنی۔ اور طافو نے کبھی بھی نام لیکر شوکت صاحب کو چیلنج نہیں کیا۔ یہ چیلنج دنیا کے ہر طبلہ نواز کیلئے تھا اور وہ آج بھی ہے جس کا جواب دینے کی کسی نے بھی جسارت نہیں کی۔ وہ چیلنج کچھ ایسے ہے: سب بھائیوں کو میرا طبلہ یاد ہے اور مجھے سب کا۔ اب اگر کوئی ہے تو سامنے آجائے اور کر کے دکھا دے۔ میں اسکا باج بجا کر دکھاﺅں گا وہ میرا بجا کر دکھا دے! ‘ لنک ہے

 https://www.youtube.com/watch?v=qouCq-7KOqo

لیکن مسئلہ یہ کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ ایک سے ایک سر پھرا ہندوستان میں بھی موجود ہے مگر کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ طافو کے آگے بول سکے۔ کیسے بول سکتا ہے کوئی۔ ہم خود طبلے کے طالبعلم ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسی تیاری کے لئے اگر ہمیں ہزار برس بھی مل جائیں تو ہم نہیں کر پائیں گے۔ طافو کی رفتاراتنی تیز ہے کہ کچھ ٹھیک سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا ہو گیا کونسا بول بجا۔ روایتی انداز میں طبلہ بجانے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ طافو بزرگوں کے مرتب کئے طریقے سلیقے سے طبلہ نہیں بجاتے ۔ جیسے فرش بندی، پیشکار، اٹھان، قاعدہ، گت، پرن وغیرہ ۔ منہ سے طبلے کے بول نہیں پڑھتے۔ اپنا ہی خود ساختہ طبلہ بجاتے ہیں۔ مگر ایسا سامنے نہیں اپنے شاگردوں اور معتقدین‘کے درمیان بولتے ہیں! ایسے لوگوں کے لئے مشورہ ہے کہ وہ مغربی موسیقی کی ایک صنف جاز سنا کریں۔ جاز میں improvisation کی بے انتہا گنجائش اور چھوٹ ہے۔

دراصل طافو نے اپنا جداگانہ اندازبے حد محنت سے بنایا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ، وہ سب کچھ کریں جو ساری دنیا کر رہی ہے۔ ناقدین \"tafu-with-ghulam-ali\"یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ایسا اندازانہیں پسند نہیں مگرطافو کو نہ ماننا نا انصافی ہوگی۔ کچھ لوگ توطبلے میں پنجاب کو گھرانہ ہی نہیں مانتے ! طافو باج کے حساب سے ایک school of thought ہے جسکی ایک دنیا دیوانی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ طافو کی محفل میں زیادہ تر تعداد ان گھرانے دار حضرات کی ہوتی ہے جو ان کے پیچھے ان پر تنقید کرتے ہیں۔ ارے بھائی کیوں منافقت کرتے ہو۔ اگر یہ انداز ہی نہیں تو گھر بیٹھو۔ سننے کیوں آ جاتے ہو اور پھر کھل کر داد بھی دیتے ہو!

طافو پر دوسرا اعتراض جو کہ کسی حد تک درست ہے کہ ان کے طبلے میں روح داری نہیں۔ یہ آغاز ہی انتہائی برق رفتاری سے کرتے ہیں اور اسی رفتار سے گھنٹوں بجاتے جاتے ہیں۔ ان کے ایک ناقد نے یو ٹیوب پر یہ تبصرہ کیا کہ لگتا ہے انہوں نے ایک گھنٹہ ایک لوپ (loop)بجایا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک خراجِ تحسین ہو سکتا ہے کیونکہ loopتو کمپیوٹر ہی بجا سکتا ہے، انسان کے بس کی بات ہی نہیں اور loopکو جتنا مرضی بڑھا دو یا گھٹا دو یہ غلطی نہیں کر سکتا۔ ایک اور اعتراض یہ رہا کہ طافو بہت سارے ساز بجانے کے بجائے صرف طبلے پر ہی توجہ مرکوز کرتے تو موجودہ مقام سے کہیں بڑھ کر مقام ملتا۔ اس لنک میں طافو کمال کا طبلہ بجانے کے بعد ہارمونیم بجانا شروع ہوگئے اور ایسی تیاری سے بجایا کہ رہے نام اللہ کا!

https://www.youtube.com/watch?v=qouCq-7KOqo

کیا ہی اچھا ہوتا اگر طافو صرف تین منٹ کا کسی بھی راگ کا الاپ کرتے ہارمونیم پر روح داری سے! لگتا ایسا ہے کہ انہوں نے ساری توجہ رفتار اور تیاری پر ہی صرف کی۔ کاش وہ سننے والوں کو ’طافو‘ کے علاوہ روائتی انداز بھی سناتے تا کہ ناقدین کے منہ بند ہو جاتے۔ اس اعتراض کا دفاع اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ جس نے روح داری کا لطف لینا ہو وہ روائتی طبلہ سن لیا کرے۔ طافو تو نام ہی thrill کا ہے!

 اور طافو اگر چاہیں تو روائتی انداز میں طبلہ بجا سکتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ میں تمہارا انداز پہلے بجاﺅں گا پھر تم میرا انداز بجانا، اسکا مطلب ےہی ہے کہ انہوں نے روائتی انداز سیکھا ہوا ہے اور کیوں نہ سیکھا ہو، وہ تو شاگرد ہیں میاں قادر بخش کے۔ ہندوستان جا کرایسا چیلنج صرف وہ ہی کر سکتا ہے جسے اتنا یقین ہو کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں۔ اور جو نامی گرامی طبلہ نواز اس چیلنج پر خاموش رہتے ہیں وہ اصل میں دوراندیشی سے کام لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ’جن‘ جس کا نام طافو ہے وہ کر گذرے گا جو کہ وہ کر رہے ہیں مگر اس کا کام وہ کرنے کے اہل نہیں۔ طافو کا تو طبلہ ہی اس لے سے شروع ہوتا ہے جس لے پر ان کا طبلہ ختم ہو رہا ہوتا ہے۔ اور طافو برق رفتاری سے طبلہ ایسے سکون سے بجاتے ہیں جیسے کوئی گہری سوچ میں غرق ہو۔ ہاتھ اور انگلیاں طبلے پر ہی رہتی ہے۔ چہرے پر کوئی تناﺅ نہیں ہوتا۔ ہندوستان کے مایہ ناز ستار نوازشاہد پرویز جب 2006میں اسلام آباد تشریف لائے تو ہم نے انہیں طافو کا طبلہ سنایا۔ سنکر بولے کہ کیا خوبصورت انگلیاں اور ہاتھ ہیں۔ ایسا ہاتھ اور انگلیاں آج تک نہیں دیکھیں۔ شاہد پرویز ایک حیران کن لے کار انسان ہیں۔ ایسی تعریف کرنے کے پا بند نہیں۔ لیکن فن داد لے ہی لیتا ہے!

اب آتے ہیں طافو کے چیلنج پر۔ لوگ کہتے ہیں موسیقی اکھاڑے کا میدان نہیں۔ اس کا مزہ لینا چاہیے۔ درست مگر ایک قابل اور سچا فنکار جھوٹ اورمنافقت برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم کوئی پرفارمنگ آرٹسٹ نہیں۔ موسیقی سیکھتے ہیں اپنے آنند کیلئے۔ لیکن ایک سنوئیا ہونے کے ناتے دل کڑھتا ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ آجکل ہر بے سرا ، بے تالہ، نالائق اپنے نام کے آگے استاد، پنڈت یا legendary maestro لکھ رہا ہے۔ اس پر ہم ایک مضمون لکھ چکے ہیں۔ لنک ہے:

http://www.humsub.com.pk/26215/muhammad-shahzad-13/

 ذرا سوچئے کہ اس صورتِ حال میں کسی geniusکی کیا حالت ہو گی؟ طافو کا چیلنج سچے فنکاروں کیلئے نہیں۔ یہ نام نہاد استادوں، خان صاحبوں اور maestroesکے منہ پر تمانچا ہے۔

پاکستان نے طافو کی صرف بے قدری کی۔ طبلے میں سب سے پہلا تمغہ حسن کارکردگی (Pride of Performance) ملا شوکت صاحب کو۔ اس کے بعد اگر کسی کا حق بنتا تھا تو وہ طافو تھے مگر ملا شوکت صاحب کے شاگرد طاری کو۔ اس کے بعد دیا گیا طاری کے بھائی جھاری کو۔ اس کے بعد ملا اجمل کو۔ یہ تمام فنکار اچھے ہیں، شوکت صاحب کے شاگرد ہیں، طافو سے بہت جونئیر ہیں اور فن کے حساب سے ان کے آس پاس بھی نہیں! اب اگر ان کے بعد طافو کو Pride of Performanceملے تو بہت زیادتی ہے۔ ہمارہ تو مشورہ ہے کہ اگر ملے تو انکار کر دیا جائے جیسے استاد ولایت خان صاحب نے پدما شری، پدما بھوشن اور پدما وِبھوشن لینے سے ان کار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ستار میں کوئی ایوارڈ ہے تو پہلے مجھے ملنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی درست تھی۔ ستار میں ایوارڈ روی شنکر کو پہلے مل گئے تھے۔ ولایت خا ں صاحب روی شنکر کے بعد وہی ایوارڈ کیسے قبول کر سکتے تھے۔ اسی لئے ہندوستان کے اس وقت کے صدر فخرالدین علی احمد نے ایک سپیشل آرڈیننس کے تحت ولایت خاں صاحب کے لئے ایوارڈ ’آفتابِ ستار‘ بنایا جسے خاں صاحب نے قبول کیا۔ اب کوئی دوسرا آفتابِ ستار ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ایسا کرنے کیلئے پھر سے آرڈیننس جاری کرنا پڑے گا! حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اسی طرز پر ایک ایوارڈ بنائے، بھلے آفتاب طبلہ ہی بنا لے اور طافو کو اس سے نوازے۔

طافو کی شخصیت کچھ سوالات کی وجہ سے تجسس سے بھرپور ہے۔ مثلاً کہ ان کے پاس اتنا ٹیلنٹ تھا کہ اگر یہ چاہتے تو طبلے کی دنیا میں شہرت کے حوالے سے وہ مقام حاصل کرتے جہاں آج ذاکر حسین کھڑے ہیں، مگر یہ فلم لائن میں آ گئے اور کمپوزر بن گئے۔ مشہور گلوکارہ نور جہاں بھی اس لنک میں حیران ہیں کہ کیوں نہیں انہوں نے صرف طبلے پر توجہ دی اورکیوں یہ فلم لائن آئے؟

یہ بات بھی سچ ہے کہ ذاکر بھائی ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ دیکھ لیں اس لنک میں کہ ذاکر بھائی طافو کے قدموں میں بیٹھے ہوئے ہیں

پھر یہ کہ فلموں میں تو انہوں نے ایسی با کمال سنگت کی مگر بڑے بڑے گویوں کے ساتھ یہ نہیں بیٹھے ۔ یہی وجہ تھی کہ سب کے سب شوکت صاحب کے مداح تھے۔ استاد سلامت علی خاں صاحب نے ایک نشست میں ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ طافو’ جن‘ طبلہ نواز ہے مگر وہ شوکت صاحب کی’ پارٹی‘ سے ہیں! پھر یہ کہ انہوں نے آج تک سوائے تین تال کے کوئی اور تال نہیں بجائی۔انہوں نے طبلہ روائتی انداز سے بجانا کیوں پسند نہیں کیا؟

طافو 76 کے لگ بھگ ہے مگر طبلہ میں وہی جوانی والی تیزی ہے ۔ آج بھی چیلنج کر کے بجاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ طافوسے ایک مفصل ملاقات ہو جس میں یہ تمام اور مزید بھی چبھتے ہوئے سوال کئے جائیں۔ امید ہے یہ خاکہ پڑھ کر وہ ضرور شرفِ ملاقات بخشیں گے۔

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments