ڈرپوک پاکستانی شہادت سے دستبردار ہوتا ہے


\"khaldune\"سنا ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ کا آغاز اب کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو جنگ شروع ہوئے مدت ہو گئی، پر اگر میدان جنگ فیس بک سے منتقل ہو کر ایٹمی توانائی کے زمرے میں چلا گیا تو برصغیر میں کم از کم 2 کروڑ لوگ مارے جائیں گے۔ لیکن ڈرنے کی بات نہیں کیونکہ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں 148 کروڑ لوگ بچ جائیں گے، لہٰذا ہر شخص کی جان بچنے کا احتمال 98.67 فی صد ہے۔ لیکن پاک بھارت ایٹمی جنگ کی صورت میں مزید 3 کروڑ معذور بھی ہو جائیں گے۔ مطلب مکمل طور پر محفوظ رہنے کا احتمال 96.67 فی صد ہے۔ سادہ الفاظ میں ہر 20 میں سے 19 افراد بچ جائیں گے۔ گویا کہ جنگ ہونے اور نہ ہونے میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہے۔

لیکن ہمارے سول اور عسکری رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی وطن کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ شہادت کا رتبہ ہمیں بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب نے اور جوانی میں حکمرانوں نے گھول کر پلا دیا ہے۔ اور یہ رتبہ شہادت کی نیت یا خواہش کا محتاج نہیں کیونکہ حکمران عموماً ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو سکولوں، ہسپتالوں، پارکوں، گرجا گھروں یا کچہریوں میں مارے گے ہوں۔

یعنی کہ اگر مذکورہ بالا اعدادوشمار پر ہم اس نئے زاویہ سے روشنی ڈالیں تو اگر ایک ایسی جنگ بھی چھڑ جائے جس سے کرہ ارض کے \"dalit-violence-in-india\"تسلسل اور انسانی نسل کی بقا کو خطرہ لاحق ہو اس میں بھی ہر بیس میں سے واحد ایک شخص کو شہادت نصیب ہوگی۔ خیال رکھئے کہ یہ فرد بھارتی یا پاکستانی دونوں ہو سکتا ہے، اس لیے شہادت کا احتمال مزید نصف ہے۔ اور ویسے بھی بھارت میں مقیم 17 کروڑ مسلمانوں میں سے جو ہندوستان کی جانب سے لڑتے ہوے مارے گئے ان کے رتبے پر نہ تو حکمرانوں نے ہدایات دی ہیں اور نہ ہی تعلیمی نصاب نے۔

یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ جس طرح پاکستانی ہندو محب وطن ہوتے ہیں اسی طرح بھارتی مسلمان بھی۔ لیکن ان دونوں طبقوں میں شہادت کی لگن کی پیمائش ابھی تک کی نہیں گئی کیونکہ یہ دونوں بالترتیب ایک قانون اور ایک پلیٹ بریانی کی مار ہیں۔ اس موضوع سے متعلقہ اعدادوشمار تو فی الحال موجود نہیں ہیں لیکن ایک بھارتی مسلمان کا بڑے گوشت کی بریانی کی پلیٹ کھا کر اور ایک پاکستانی ہندو کا بلاسفیمی کا غیر مصدقہ الزام لگوا کر زندہ بچ جانے کا احتمال ایٹمی جنگ میں محفوظ رہنے سے کچھ فی صد ہی کم ہوگا۔ لیکن کیونکہ دونوں ملکوں کا سرکاری طور پر کسی بھی مذہبی تعصب کو تسلیم کرنے سے صاف انکار ہے تو ہم بھی اپنے حساب کتاب میں سب کو شہید ہونے کا برابر موقع دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ کسی بھی قسم کے حالات میں شہادت کی سیٹیں بہرحال 2 سے 5 کروڑ تک محدود ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس\"women_in_deogarh_morning_orissa_india\" میں محض اس اعزاز کے حقدار ہی کامیاب ہو سکیں۔ اس نظام میں سب سے پہلے ہمیں پسماندہ طبقوں کا کوٹہ رکھنا پڑے گا۔

اب چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں شہداء کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں تو اس چکر میں دونوں کی آبادیاں دنیا کے 6 سر فہرست ممالک میں اپنی جگہ بنا بیٹھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 150 کروڑ میں سے تقریباً 46 کروڑ نابالغ ہیں۔ اب بلاشبہ محمد پن قاسم نے برصغیر پر اپنا پہلا حملہ سترہ برس کی عمر مین کیا تھا اور سچن ٹنڈولکر نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری 17 سال کی عمر میں کی تھی، لیکن شہادت کے جذبے کی جتنی زیادہ مدت تک پرورش کی جائے اتنا بڑھتا ہے۔ ویسے بھی ان میں سے 60 لاکھ بچے، جن کی عمر 14 سال سے کم ہے، چائلڈ لیبر میں مشغول ہیں۔ یہ بچے نہ تو سکول گئے ہیں اور نہ ہی دو قومی نظریے کے بارے میں پڑھا ہوگا اور نہ وہ آکھنڈ بھارت کا پاکھنڈ سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں مین شہادت کے بالغ امیدوار 104 کروڑ ہیں۔

اسی طرح بھارت اور پاکستان دونوں کی آبادیوں کا پانچواں حصہ۔۔ بالترتیب 21.9 اور 21.04 فی صد۔۔ غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اب جو افراد روزانہ موت کو گلے لگا کے سوتے ہوں ان کے لیے شیہد ہونے کی کیا اہمیت؟ لہٰذا 104 کروڑ کا 21 فی صد مزید نکال دیں تو 82 کروڑ باقی رہ جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ اگر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں اور آپ کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے تو آپ کے شہید ہونے کا احتمال 1.33 فی صد سے بڑھ کر 6.10 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔

اب ہے فیصلہ کن چھانٹی کی باری۔ ایک ہی ضرب میں آدھی آبادی کو کناراکش کر دیں گے، جیسا ہم دہائیوں سے کرتے آئے ہیں۔ 142 ممالک \"christian-pakistan\"پر مشتمل صنفی تفریق کی رپورٹ میں بھارت 127ویں اور پاکستان 141ویں نمپر پر موجود ہے۔ ایسے میں صنفی امتیاز نہ کرنا ہمارے نظام کو بے حد غیر حقیقی بنا دے گا۔ اور ویسے بھی تھوڑا دھیان دیجئے، موضوع شہادت ہے، یعنی کہ بہادری اور جارحیت کا امتحان۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں جارحیت کو مردانگی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ 1000 سے زائد کاروکاری کے واقعات اور بھارت میں 30,000 سے زیادہ ریپ ہوتے ہیں۔ تو پھر شہادت کے اس امتحان سے عورتوں کو مستثنیٰ قرار دینا ہی مناسب ہو گا۔ ویسے بھی ہمارا ماننا ہے کہ جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی۔

مزید اس میں سے ہمیں کشمیر کے دونوں حصے اور بلوچستان کو نکالنا پڑے گا۔ صرف اس لیے نہیں کیونکہ یہاں کی آبادیوں کے کتنے فی صد لوگ خود کو ان دو ممالک کا حصہ سمجھتے ہیں یہ حساب لگانا مشکل ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہاں ہلاک ہونے والا عسکریت پسند مجاہد تھا یا دہشت گرد، اس پر بھی کوئی اتفاق رائے نہیں۔

اسی طرح بیشتر افراد شیعہ، احمدی اور دلت حضرات کو شہید تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ہم مذہبی رواداری کا ڈهکن تو ڈال سکتے ہیں پر مسلکی اور فرقہ ورانہ تقسیم کو چھپانا بھی غیر حقیقی ہو گا۔ ان گروہوں کو بھی شہادت کے مرتبے پر فائز کرنا اس عظمت کو دھندلانے کے مترادف ہو گا۔ انہیں شہادت کے لئے ناہل قرار دے دینا چاہیے (بوجوہ) ۔

مختصراً یہ کہ بچے، خواتین، غرباء، کشمیری، بلوچ، شیعہ، احمدی، دلت، ناستک، ملحد\"edit\"، LGBT اور کئی نسلی، اقتصادی اور ذاتی فلٹر لگا کر امیدوار 35 کروڑ رہ جاتے ہیں۔ معزز قارئین آپ سب میں سے اب تک جو ناک آؤٹ نہیں ہوا اس کے شہید ہونے کا احتمال 1.33 فی صد سے بڑھ کر 14.29 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔

اب اس سے اگلا اور آخری فلٹر ہم سب کی ذاتی سچائی کا امتحان ہے۔ کیا آپ واقعی ایک جنگ میں ہوئی ہلاکتوں کا بے معنی عدد بننے کو اپنے اور اپنے ملک کے لیے دیکھے گئے چھوٹے بڑے خوابوں پر ترجیح دیں گے؟ وہ تمام امیدوار جو اصلی یا فرضی حکمرانوں کے ورغلانے پر مرنے مارنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور اس کا اظہار سوشل میڈیا پراشتعال انگیزی سے پرہیز سے کریں تاکہ اصلی جنگجو ہی فاتح ہوں۔ اس سے آپ کو غدار، ایجنٹ، ملک دشمن، اینٹی بھارت اور اینٹی پاکستان جیسے القاب سے نوازا جائے گا، پر یاد رکھئے گا کہ آپ کو ان سب ناموں سے پکارنے والے کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ایک بے معنی عدد بننا ہے۔ میں، ایک بزدل انسان، ڈرپوک پاکستانی، آج وطن کے لیے شہید ہونے کے اعزاز سے دست بردار ہوتا ہوں۔ میں باز آیا محبت سے، اٹھا لو پاندان اپنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments