عابی کو پھر مار پڑی تھی


”دیکھ رہے ہیں آپ؛ یہ لڑکا تو خود کو رئیس زادہ سمجھتا ہے۔ “ بیگم شوکت نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک کہ رہی ہو، مجھے باہر جانا ہے ورنہ اس کم بخت کو ابھی سبق سکھا دیتا۔ خیر شام کو دیکھا جائے گا۔ “ شوکت نظامی نے فوراً کہا۔

”اختر تم ابھی جا کر اسے جگاؤ اور اس سے کہو کہ گھر کی صفائی کرے میری ایک سہیلی نے ملنے آنا ہے۔ “ بیگم شوکت نے باورچی سے کہا۔
”جی بیگم صاحبہ۔ “ باورچی نے بڑی فرمانبرداری سے کہا اور اسے کوارٹر کی طرف چل دیا۔

شوکت نظامی تو چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد عابی اپنے کوارٹر سے نکلا اور صفائی کرنے لگا۔ تھکن اب بھی تھی اسی لیے کچھ سست لگ رہا تھا۔ اسے آرام سے کام کرتے دیکھ کر بیگم شوکت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

”اے ذرا تیز ہاتھ چلاؤ، ہاتھوں پیروں میں جان نہیں ہے کیا؟ “ بیگم شوکت نے چیختے ہوئے کہا۔
”جی کر تو رہا ہوں۔ “ عابی کے منہ سے نکلا۔

بیگم شوکت نے یہ جواب سنا تو اسے دو چار موٹی موٹی گالیاں دیں پھر اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگی۔
”زبان درازی کرتے ہو، تمہاری ماں نے ہی تمہیں یہ سکھایا ہو گا۔ وہ بھی بڑی زبان دراز تھی۔ “

اپنی ماں کی توہین پر اس کا خون کھول اٹھا مگر وہ بے بس تھا۔ اس نے زخمی نظروں سے بیگم شوکت کو دیکھا۔ بیگم شوکت کو اس کا یوں دیکھنا بہت برا لگا اس نے آگے بڑھ کر عابی پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔
”خبردار جو آئندہ ایسے آنکھیں دکھائیں۔ آنکھیں پھوڑ دوں گی تمہاری۔ چلو جلدی کام ختم کرو۔ “ بیگم شوکت پاؤں پٹختے ہوئے اندر چلی گئی۔

عابی پھر کام میں جت گیا۔ عابی کے لیے آج کا دن بھی خاصا مشکل تھا۔ صبح بیگم شوکت سے تھپڑ کھائے تھے شام کو شوکت نظامی آ گئے۔ بیگم شوکت نے خوب مرچ مسالہ لگا کر اپنے خاوند کو بتایا کہ عابی کتنا باغی ہو رہا ہے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے تو گھورتا ہے۔

شوکت نظامی کی جیسے مراد بر آئی۔
”تم فکر نہ کرو میں اس کی طبیعت صاف کرتا ہوں۔ “ شوکت نے اپنی بیوی کو دلاسا دیا۔

وہ ایک آڑ کے پیچھے سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ شوکت نظامی نے زور دار آ واز دے کر عابی کو بلایا۔
عابی کسی مجرم کی طرح سر جھکائے اس کے سامنے آ گیا۔

”اختر ذرا ایک چھڑی تو لے کر آؤ۔ “ شوکت نے سرد لہجے میں کیا۔
اختر فوراً بھاگ کر چھڑی لے آیا۔ شوکت نے ڈرائیور کو بھی آواز دے کر بلا لیا۔ آج اس کے ارادے کچھ زیادہ خطرناک لگ رہے تھے۔

”ہاں میاں صاحب زادے! لگتا ہے تمہارے دماغ میں کوئی کیڑا پل رہا ہے۔ اب اس کو تو مارنا پڑے گا ناں۔ “ شوکت نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ عابی بری طرح گھبرا رہا تھا جب کہ بیگم شوکت یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔

”اختر تم اس کے کپڑے اتارو تاکہ چھڑی اور اس کے جسم کا ڈائریکٹ ملن ہو۔ “ شوکت نے ہنستے ہوئے کہا۔ اختر بھی مسکرا اٹھا اور عابی کی طرف بڑھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک آ گئی تھی۔

عابی کا شرم اور بے بسی سے برا حال تھا اس کا جی چاہ رہا تھا کہ یہاں سے بھاگ جائے۔ شاید شوکت کو بھی اس کا اندازہ ہو رہا تھا۔
”ڈرائیور اس کو پکڑ لو۔ “ شوکت نے حکم دیا۔ ڈرائیور جیسے اسی حکم کا منتظر تھا۔ اس نے فوراً عابی کو جکڑ لیا۔ عابی اس کے بازوؤں میں مچلنے لگا۔

”مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو۔ “ وہ چلانے لگا۔
شوکت اور بیگم شوکت ہنسنے لگے۔

وہ پودے کی آڑ سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس کی رگ رگ میں غصے کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ اسے اس بچے پر ترس آ رہا تھا۔ اس کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ ورنہ یہ بے چارہ آج نہ جانے کس عذاب کا شکار ہو گا۔

ادھر شوکت شاید اس صورتِ حال کو انجوائے کر رہا تھا۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔ اختر نے عابی کی قمیض اتاری۔ تو وہ اور زور سے چیخنے لگا۔ شوکت نے آگے بڑھ کر دو تین چھڑیاں اس کی کمر پر ذرا نرمی سے ماریں جیسے کوئی بلی چوہے کو قابو کرنے کے بعد اس سے کھیل رہی ہو۔ بیگم شوکت بھی قریب آ گئی۔ شوکت نے چھڑی سے اس کی پیٹھ پر دو تین ضربیں لگائیں۔

”اختر کچھ مزہ نہیں آ رہا۔ اس کی شلوار بھی اتار دو۔ “ شوکت نے کہا۔
”ابھی لیجیے حضور! “ اختر بولا۔

عابی چیخنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب وہ جھاڑی کے پیچھے سے نکل کر شوکت کے پیچھے آ چکی تھی۔ سب کا دھیان عابی کی طرف تھا لہٰذا کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا مگر عابی کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ چیختے چیختے یک دم خاموش ہو گیا۔

”کیا ہوا صاحبزادے! لگتا ہے تم ہماری بات ماننے کے لیے تیار ہو گئے ہو۔ چلو شاباش جلدی کرو۔ “ شوکت نے طنزیہ انداز میں کہا۔

عابی کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرا رہے تھے۔ وہ شوکت کے پیچھے تھی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے وار کر دیا۔ فضا میں دو چیخیں گونجیں۔ پہلی چیخ شوکت نظامی کی تھی اور دوسری چیخ بیگم شوکت نظامی کی۔ چیخوں کی آواز سن کر اختر اور ڈرائیور نے پلٹ کر دیکھا۔ تب تک وہ ان کی پہنچ سے دور جا چکی تھی۔ انہوں نے اسے دیکھ لیا تھا مگر وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ شوکت اور بیگم شوکت زمین پر گر چکے تھے۔ ان دونوں کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی دونوں تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ اختر اور ڈرائیور کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

چیخ پکار کی آواز سن کر ساتھ والی کوٹھی کا چوکیدار گیٹ پر آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھ کر پولیس کا فون کر دیا۔ جب پولیس پہنچی تو اختر اور ڈرائیور ڈرے سہمے لاشوں کے پاس بیٹھے تھے جبکہ عابی ان سے کچھ فاصلے پر لان میں بیٹھا تھا۔

”کیا ہوا تھا؟ “ پولیس انسپکٹر نے پوچھا۔
”بڑی زہریلی ناگن تھی جناب۔ مالک اور مالکن کو ڈس کر نہ جانے کہاں چھپ گئی ہے۔ ہمیں تو بہت ڈر لگ رہا ہے، وہ اسی بنگلے میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔ “ اختر نے بتایا۔

”ہوں۔ وہ بچہ کون ہے؟ “
”یتیم ہے بے چارہ۔ اس کے ماں باپ بھی یہیں کام کرتے تھے۔ “ اختر بولا۔

”ادھر آؤ بیٹے! تمہارے رشتہ دار ہیں؟ “ پولیس انسپکٹر نے پوچھا۔
”جی نہیں میرا کوئی نہیں ہے۔ “ عابی نے کہا۔
”میں آپ کو ایدھی سنٹر میں پہنچا دیتا ہوں۔ “ عابی مطمئن انداز میں پولیس والوں کے ساتھ چل پڑا۔ ناگن اس وقت بھی جھاڑیوں کے پیچھے سے اسے دیکھ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2