حسین سحر …. ہوا ، روشنی اور منظر رخصت ہوئے


\"raziمیں نے تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ پروفیسرحسین سحر کے بغیر ملتان کا ادبی منظرنامہ کیسا ہو گا؟ میں نے تو یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ پروفیسر عرش صدیقی، اقبال ساغر صدیقی اور عاصی کرنالی کے بغیر ملتان کیسا ہو گا؟ ہمیں ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے اور ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ جن کے ساتھ ہم نے جیون کا بہت سا وقت گزارا ہو اور جن سے رہنمائی حاصل کی ہوہم بھلا ان کے بارے میں کیسے یہ گمان کرسکتے ہیں کہ وہ کسی روز چپکے سے دبے پاﺅں یوں محفل سے چلے جائیں گے جیسے وہ کبھی یہاں تھے ہی نہیں۔ لیکن جانے والے چلے جاتے ہیں پھر ہم انہیں یاد کرتے ہیں، اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات سے مسرت کشید کرتے ہیں۔ حسین سحر ان چند ہستیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ملتان کو ملتان بنایا۔ اس شہر کے علمی ، ادبی اور ثقافتی منظرنامے پر انہوں نے بھی عرش صدیقی ، اقبال ساغر صدیقی اور عاصی کرنالی کی طرح انمٹ نقوش ثبت کیے۔

پہلا منظر 1980ءکا ذہن میں جگمگاتا ہے ۔ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ روشن ہوتا ہے کہ جب ایک نوجوان کو پروفیسر حسین سحر نے سول لائنز کالج کے ایک گراﺅنڈ میں لہلہاتی شاخ کے نیچے زندگی کی دعا دی تھی۔ وہ نوجوان ابھی زندگی کے رموز سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ جب ایک روز اس کے لیے بھی سانس لینا محال ہوجائے گی توحسین سحر کی یہی دعا اس کے کام آئے گی۔ اورجب حسین سحر نے اسے زندگی کی دعا دی تھی تو درسِ فنا دینے والا پتا بھی شاخ سے نہیں گرا تھا۔ آخری منظر پنجابی اکیڈمی کے اس اجلاس کا ہے جو ملتان لاء کالج میں منعقد ہوا۔ وہ نوجوان اب نوجوان نہیں رہاتھا لیکن اجلاس میں سٹیج پرموجود حسین سحر اسی طرح جوانِ رعنا دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے چہرے پر وہی 35سال پہلے والی تازگی موجودتھی۔

ان دو مناظر کے درمیان بے شمار ایسے منظرہیں جو میری زندگی میں روشنی کا باعث بنے۔ بے شمار مشاعرے، بہت سی تقریبات، بہت سے \"hussain\"بے تکلف لمحے اوران سب کے ساتھ ساتھ احترام کا ایک مسلسل رشتہ۔ پہلی ملاقات میں جب میں نے حسین سحر کوبتایا کہ میں شاکر کا دوست ہوں تو انہوںنے کہاتھا ”پھرتو آپ بھی ہمارے بھتیجے ہیں“۔ یہاں سے تعلق کی جو ابتدا ہوئی اس میں سحرصاحب نے مجھے اور شاکر کو اپنا ہم رکاب بنا لیا۔ پھر ہماری شاعری ان کے حصے میں لکھی جانے لگی اور کہا جانے لگا کہ دونوں بھتیجے حسین سحر سے غزلیں لکھواتے ہیں دوسری جانب میرے بہت سے کالموں اور تحریروں پریہ گمان کیا گیا کہ میں یہ سب کچھ سحرصاحب کے اشار ے پر لکھ رہا ہوں ۔ لطف یہ ہے کہ میر ے لکھے پر گوشمالی شاکر کی ہوتی تھی کہ کوئی متنازع تحریر منظرعام پر آنے کے بعد میں تو سحرصاحب کا سامنا کرنے سے گریز کرتا تھا ، چند روز کے لئے روپوش ہو جاتا تھا لیکن شاکر کو تو روزانہ ان کے روبرو حاضر ہونا ہوتا تھا کہ وہ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ایک جانب تو یہ صورتحال تھی اور دوسری جانب وہ لوگ جو پروفیسرحسین سحرکی گرد کو بھی نہیں چھوسکتے تھے اور جو کسی تعصب یا اپنی کسی محرومی کے باعث ان پر بے جااعتراضات کرتے تھے ۔ ان کی تمام تر نفرتیں بھی پہلے روز سے ہی حسین سحر کے ان دو بھتیجوں کے حصے میں آگئیں جو اقبال ارشد اور حسین سحر کے بعد ملتان میں نئی ادبی جوڑی کے طورپر متعارف ہو رہے تھے۔ اقبال ارشد کے ساتھ ابتدائی چند برسوں کے دوران میرا روز کا مکالمہ تھا۔ میں ان کی رفاقت میں بابا ہوٹل میں بھی بیٹھتا اور پھر اُن کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر بھی گھومتا تھا اور اُن سے دریافت کرتا تھا کہ چاندآ خر کتنا ہرجائی ہوتا ہے اوراگر پھربھی اس ہرجائی کو تمناﺅں کا مرکز بنا لیا جائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کوشش کے باوجود ہم اقبال ارشد سے یہ نکتہ تو معلوم نہ کرسکے لیکن ان چند برسوں کے دوران اقبال ارشد سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

ان دونوں ہستیوں کے ساتھ میرے مراسم سب کے لیے تشویش کاباعث تھے۔ اقبال ارشد کو میں ہمیشہ اقبال بھائی اور حسین سحر کو سحر \"hs2\"صاحب کہہ کرمخاطب ہوتاتھا۔ اقبال ارشد کی شکایتیں حسین سحر سے کرتا تھا اور سحرصاحب سے کوئی گلہ ہوتا تو منہ بسور کر اقبال ارشد کے پاس پہنچ جاتا۔ میری ان شکایات و حکایات کو دونوں بظاہر توجہ اور ہمدردی سے سنتے لیکن ان پر دونوں کا ردعمل یکسر مختلف ہوتا تھا۔ ذہنی ہم آہنگی کا یہ عالم کہ دونوں میری شکایات پر درپردہ ایک دوسرے کے وکیل بن جاتے تھے ۔ اقبال ارشد سے جب بھی حسین سحر کا گلہ کیا ان کاجواب ہوتا تھا”دیکھو رضی، سحر میرا بھائی ہے ، میرا دوست ہے ، مجھے عزیز ہے لیکن کیا کروں میں تو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ۔ وہ غلط لوگوں کی حمایت سے باز ہی نہیں آتا۔ اب دیکھو نا ان لوگوں کی وجہ سے نقصان تو خود سحر کو پہنچ رہا ہے“۔ دوسری جانب سحر صاحب سے جب بھی شکوہ کرتا وہ محبت کے ساتھ میرا ہاتھ دبا کر کہتے ”چھوڑو اقبال ارشد تو پاگل ہے۔ اس کی باتوں کابرا نہ مانا کرو۔ “اس وقت تو ہمیں یہ باتیں سمجھ نہ آئیں لیکن جب سمجھ آگئیں توشاکر کے بارے میں اقبال ارشد والے جملے خاکسار نے ادا کرنا شروع کر دیئے اور میرے بارے میں شکوﺅں پر آج بھی شاکر ہر شکایت کنندہ کا ہاتھ دبا کرکہتا ہے ”چھوڑو یار رضی تو پاگل ہے۔ “

گلے شکوﺅں اور شکایتوں کے ساتھ محبتوں کا یہ سفر تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ گلے شکوے یقیناً میری جانب سے ہوتے تھے اور مجھ سے شکایت بارہا سحر صاحب کو ہوتی تھی لیکن تعلق کا حسن یہی تھا کہ وہ ہرمعاملے پر میرے ساتھ کھل کر بات کرتے۔ میرا موقف سنتے اور مجھے قائل کر لیتے کہ معاملات اس طرح آگے بڑھائے تو خرابیاں بڑھ جائیں گی۔ قائل صرف میں ہی نہیں ہوتا تھا وہ خود بھی بہت سی باتوں پر میرے ساتھ اتفاق کرتے۔ ان کے ساتھ طویل رفاقت کا ایک مرحلہ وہ بھی تھا جب ہم ادبی جریدے ”اہل قلم“ کی اشاعت کے لئے اکٹھے ہوتے تھے۔ میں اس زمانے میں روزنامہ سنگ میل سے وابستہ تھا اور میں نے کاپی پیسٹنگ بھی سیکھ لی تھی۔ ”اہل قلم“ جب کتابت ہوجاتا تو کوئی ایک دن اس کی کاپیاں جوڑنے کے لیے مختص کرلیا جاتا۔ یہ دن شاید جمعہ کا ہوتا تھا اور سحر صاحب کے ڈرائنگ روم میں ڈائننگ ٹیبل پر مسطر اور بٹر پیپر جوڑ کر کاپیوں کی تیاری شروع کردی جاتی۔ یہ کام کئی گھنٹے جاری رہتا۔ اس دوران چائے کا دور بھی چلتا اورکھانے کا بھی۔ سحر صاحب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے لمحات اسی کاپی پیسٹنگ کے دوران میسر آئے۔ شاکربھی اگرچہ گھر میں موجود ہوتا تھا\"hs3\" لیکن وہ بس اپنے چچا کے کام کی نگرانی کے لیے ذراسی دیرکے لیے آتا اور ہمیں کام کرتا دیکھ کر واپس چلا جاتا۔ اس دوران بہت سے مضامین اور غزلوں پر دلچسپ تبصرے بھی جاری رہتے۔ میں کسی تحریر پر اعتراض کرتا اور سحرصاحب سے کہتا کہ آپ اس فضول سے ڈاکٹر یا پروفیسر کودوبارہ اپنے پرچے میں کیوں شائع کررہے ہیں اس نے تو آپ کے بارے میں فلاں جگہ فلاں فلاں باتیں کی تھیں۔ سحر صاحب مسکرا کر خاموش ہوجاتے ۔ وہ تحریر اٹھا کر دوسری جانب رکھ دیتے اورپھرکچھ دیر بعد جب میرا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا تو سحر صاحب وہی تحریر میری جانب اس جملے کے ساتھ بڑھادیتے ”لو بیٹا اعلیٰ حضرت کی تحریر بھی شامل کر دو کیا یاد کرے گا“میں دوبارہ اعتراض کرتا توکہتے ”کوئی بات نہیں ، رسالے میں کوئی نظربٹو بھی تو ہونا چاہیے۔ “اسی طرح بعض شاعروں کی غزلیں پیسٹ کرتے ہوئے ہم ان کے مصرعوں کی خوب حجامت بھی بناتے تھے ۔ اس طرح ہنستے کھیلتے وقت کا اندازہ بھی نہ ہوتا۔ اہل قلم کے وہ شمارے آج بھی میری لائبریری میں موجودہیں اور میں انہیں جب بھی کھولتا ہوں ان کے ایک ایک صفحے پر سحر صاحب کی یاد موجودہے۔ ہر غزل اور ہرمضمون دیکھ کر ان کے جملے بالکل اسی طرح سنائی دیتے ہیں جیسے 1980ءکے عشرے میں سنائی دیئے تھے۔

یادوں کا ایک جہان ہے جو ان کی ذات کے حوالے سے میرے ساتھ آباد ہے۔ بہت سے مشاعرے ، بہت سی تقریبات اور کانفرنسیں جن میں ہم نے ایک ساتھ شرکت کی۔ بہت سے تنازعات کا ہم نے ایک ساتھ سامنا کیا۔ مجھے اور شاکر کو اس بات پر فخر ہے کہ پہلے روز سے ہی حسین سحر ہماری پہچان بنے اور آج بھی ہم انہیں اپنی پہچان سمجھتے ہیں۔ لیکن سحرصاحب کا بڑا پن یہ تھا کہ انہوںنے ادبی بیٹھک میں ایک تقریر کے دوران برملا یہ کہا کہ ایک زمانے میں رضی اورشاکر کی میں پہچان تھا اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ اب میں ان دونوں کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہوں۔ میں نے ان کی شکایتیں بھی سنیں اور اب ان کی کامیابیوں پر مبارکبادیں بھی وصول کرتا ہوں۔

حسین سحربہت کچھ تھے لیکن وہ ان کی طرح نہیں تھے جو کچھ بھی نہیں لیکن خود کو بہت کچھ سمجھتے ہیں۔ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کوئی معمولی کام تو نہیں تھا ۔ سحر صاحب نے یہ کام بہت عاجزی کے ساتھ مکمل کیا اور اس پر عمربھرفخر کرتے رہے۔ بس یہی ایک کام تھا جسے وہ اپنے لیے باعث تفاخر سمجھتے تھے۔ وہ عالم تھے مگر علم فروشی سے دور رہتے تھے۔ مذہب سے ان کی گہری وابستگی تھی لیکن وہ مذہبی لوگوں کی طرح انتہا پسند نہیں تھے۔ انہوں نے بہت سا تحقیقی کام تو کیا لیکن خود کو محقق کہلوانا پسند نہ کیا۔ وہ عاشق رسول تھے نعت کہتے تھے ۔ نعتوں کی کتابیں بھی منظرعام پرلائے۔ سلام اورمرثیے کے ساتھ بھی ان کا مضبوط تعلق تھا۔ لیکن وہ اپنے بعض ہم عصروں کی طرح نعت اورمرثیے کو روزگار کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ ”اہل قلم“ سحرصاحب کسی منفعت کے لیے شائع نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح مکتبہ اہل قلم کے زیراہتمام کتابوں کی اشاعت بھی آج کے دور کی طرح کاروباری مقاصد کے لیے نہیں تھی۔ سحرصاحب محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ لیکن وہ آج کے اساتذہ کی طرح غریب اور مجبور طالب علموں کو فیل کرنے کی دھمکی دے کر کتابیں اوررسائل فروخت نہیں کرتے تھے۔ وہ پنجابی ہونے کے باوجود سرائیکی شاعری بھی کرتے تھے اور اس زمانے میں سرائیکی شاعری کرتے رہے جب ابھی سرائیکی کو ملتانی کہا جاتا تھا۔ وہ اس اجلاس میں موجودتھے جس میں 1960ء کے عشرے میں ملتانی کو سرائیکی کا نام دیا گیا۔ وہ مذہب اور زبان کو محبت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر نفرتیں پھیلانے والوں سے دوررہتے تھے اوراسی لیے وہ ان کی نفرتوں کا شکاربھی رہے۔ مضمون کے آغاز میں میں نے لکھا تھا کہ ملتان حسین سحر کے بغیر کیسا ہو گ امضمون کے اختتام پر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسے اقبال ساغر صدیقی ، عرش صدیقی اورعاصی کرنالی اس جہان سے رخصت ہوجانے کے باوجود آج بھی ملتان کے ادبی منظرنامے میں پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں اسی طرح حسین سحر بھی ملتان کے ادبی منظر کا ہمیشہ حصہ رہیں گے۔ ملتان کا ادبی منظر حسین سحر کے بغیر بھی ویسا ہی رہے گا جیسا ان کی موجودگی میں تھا۔ ہاں اب جب اس شہر میں میرے لیے سانس بھی لینا محال ہوچکا ہے حسین سحر کی وہ دعا میرے ساتھ ہے جو انہوں نے پہلی ملاقات کے دوران مجھے لہلہاتی شاخ کے نیچے دی تھی اور زندگی کی یہ دعا میرے لیے عمر بھر کے لیے کافی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments