عمران خان کا جلسہ: تمہی کہو یہ انداز سیاست کیا ہے؟


\"mujahidنواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرنے کیلئے پاکستان تحریک انصاف نے کل رات رائے ونڈ کے اڈہ پلاٹ پر ایک شاندار اور پرجوش جلسہ کیا۔ چیئرمین عمران خان کے علاوہ پارٹی کے دوسرے لیڈروں اور شیخ رشید نے حسب معمول ہتک آمیز اور لایعنی تقریریں کیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر نواز شریف کی بجائے عمران خان ملک کے وزیراعظم ہوتے تو حالات کیوں کر مختلف ہو سکتے تھے۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ جمہوری نظام میں جمہوری لیڈر کے طور پر سامنے آنے کے باوجود جمہوری طریقہ کار کے بنیادی اصولوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی باتوں اور دعوؤں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ وہ نہایت بے صبری سے برسر اقتدار آنا چاہتے ہیں۔ سونامی کا نعرہ لگاتے ہوئے انہوں نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ایک دن کیلئے ان کے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ اگرچہ سیاست کے کسی بھی طالب علم کے نقطہ نظر سے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے اور قومی اسمبلی میں 30 کے لگ بھگ نشستیں حاصل ہو گئی تھیں۔ تاہم چونکہ یہ انتخابات عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اس لئے انہوں نے کبھی ان کے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے صبر کا پیمانہ اس قدر لبریز ہو چکا ہے کہ وہ بہر صورت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتے ہیں۔

کرپشن اور انصاف کی عدم فراہمی کے حوالے سے عمران خان کا مقدمہ مضبوط ہے۔ یہ نعرے پاکستان کے عوام کے دل کی آواز بھی ہیں۔ لیکن ایک دیانتدار شخص اور سچے لیڈر کے طور پر انہیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ معاشی بدعنوانی اور انصاف کے حصول میں دسواری دراصل ایک بوسیدہ اور ناکارہ نظام کا حصہ ہے۔ معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے اور انصاف کو ہر عام و خاص کیلئے بلاتخصیص عام کرنے کیلئے اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہو گی۔ عمران خان اس کو ماننے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ حکومت تبدیل کرنے کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مکمل آزادی حاصل ہے۔ اور جہاں چاہیں جلسہ کرنے اور حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف دشنام طرازی کو بھی اپنا بنیادی جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ جمہوری نظام میں بہرطور انتخابات کے دوران ووٹروں کا کیا ہوا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے۔ ہارنے والے لوگوں کو عوام کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم ختم کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان جمہوریت کے صرف ان پہلوؤں کی بات کرتے ہیں جن سے ان کا موقف مضبوط بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ ان حدود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جو اس نظام کو قابل عمل بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ یعنی دوسرے کے موقف کو صبر و تحمل سے سننا۔ ناکامی کو قبول کرنا۔ جمہوری طریقے کے مطابق دلیل کے ساتھ مثبت طریقے سے اپنا نقطہ نظر سامنے لانا اور انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل نہ ہونے کی صورت میں آئندہ انتخابات میں لوگوں کو قائل کرنے کیلئے کام کرنا۔

یہ درست ہے کہ ملک میں جو سماجی اور سیاسی برائیاں موجود ہیں، ان میں انتخاب میں حصہ لینا اور جیتنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ اس کیلئے وسائل ، سماجی تعلقات ، علاقائی اثر و رسوخ اور مناسب قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اس طرح سے نتائج فراہم کرنے سے قاصر ہے جس طرح وہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں سامنے لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن ان ممالک کے مثبت نتائج پاکستان میں حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے سماجی حالات میں بھی وہی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے جمہوری طریقہ عوام دوست بن سکتا ہے۔ ان میں بنیادی اصول تعلیم کا فروغ اور تعصبات کا خاتمہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی لیڈروں کو حوصلہ مندی سے مسلسل عوام کی سیاسی تربیت کیلئے کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت ایک مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔ اس کے نتائج ایک جلسہ کرنے ، چند ہزار یا چند لاکھ لوگوں سے نعرے لگوانے یا کسی وزیراعظم کو گرانے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے عمران خان کو سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا وہ واقعی جمہوری نظام کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں یا وہ جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی ہتھکنڈہ اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ یعنی انہیں طے کرنا ہو گا کہ وہ اس نظام کو قبول کر کے اس کے اندر رہتے ہوئے عوام کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں یا وہ ایک نظریاتی انقلابی لیڈر ہیں جو معاشرے پر ایک خاص طرح کی تبدیلی نافذ کرنے کیلئے انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ جمہوری روایات اور طریقہ کار کے محتاج نہیں ہوں گے۔ اگر عمران خان یہ لائحہ عمل لے کر سامنے آتے ہیں تو انہیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی انقلابی شخصیت ہیں جو معاشرے میں بڑی تبدیلی کیلئے جمہوری طریقہ کار کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ ان دونوں رویوں کو ملا کر خود اقتدار حاصل کرنے کیلئے بے چین ہیں تو وہ موجودہ نظام کو بھی مشکلات کا شکار کریں گے اور معاشرے میں اصلاح کیلئے بھی کوئی قابل قدر خدمات سرانجام نہیں دے سکیں گے۔

اس وقت ملک میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہئے اور اسے مستحکم کرنے کیلئے اقدام ہونے چاہئیں۔ عمران خان کا طرز عمل ملک میں پائے جانے والے اس اتفاق رائے کے برعکس ہے۔ وہ بھلے بہت عالی دماغ اور باصلاحیت رہنما ہوں گے جن کی قیادت میں شاید ملک ترقی کی منازل تیزی سے طے کر سکتا ہے۔ لیکن جمہوری نظام میں وقت کے افلاطون یا رستم ہی منتخب نہیں ہو سکتے بلکہ وہ لوگ سرخرو ہوتے ہیں جنہیں عوام اپنے ووٹوں سے سرفراز کرتے ہیں۔ کوئی لیڈر قیادت حاصل کرنے کے اس طریقہ کو مانتے ہوئے، اسی کی بربادی کا سامان نہیں کر سکتا۔ یعنی جو شخص اسی شاخ کو کاٹے گا جس پر اس کا بسیرا ہو اور منع کرنے والوں کو احمق کہے گا تو درخت سے گرنے اور زخمی ہونے کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہو گا۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں یہ تجربے کئے جا چکے ہیں کہ غیر جمہوری بنیاد کے بغیر ملک میں تحریک چلانے اور انتشار پیدا کرنے کی صورت میں فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ اگرچہ ملک پر فوجی حکومتوں کے بارے میں بھی مختلف آرا موجود ہیں لیکن یہ بات بہرطور طے ہے کہ اس طریقہ سے پاکستان کا جمہوری نظام مشکلات کا شکار ہوا ہے۔ اس لئے ملک میں نئی قیادت سامنے نہیں آ سکی اور عام لوگ اپنے ووٹ کی طاقت اور اس کے اثرات کے بارے میں شبہات کا شکار ہوئے ہیں۔ مثبت قیادت پر لازم ہے کہ وہ ان شبہات کو دور کرے اور جمہوری نظام سے بہتر اور عوام دوست نتائج حاصل کرنے کیلئے دل جمعی سے کام کرے۔

اس کے برعکس پاکستان میں خود کو واحد لیڈر اور دوسرے کو نااہل اور بدعنوان ثابت کرنے کا رویہ عام رہا ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی تھی۔ تاہم 2013 کے انتخابات تک نواز شریف اور ان کے ساتھی پنجاب میں حکمرانی کے مزے لینے کے باوجود مرکزی حکومت پر ہر طرح کی الزام تراشی کرتے رہے تھے۔ اس وقت عمران خان بھی پیپلز پارٹی کے قائدین کی کردار کشی میں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ اب وہ یہی کام نواز شریف کے خلاف کر رہے ہیں۔ نواز شریف برسر اقتدار آنے کے بعد تمام اپوزیشن پارٹیوں سے اس رویہ کی خواہش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے بوجوہ اپوزیشن کے طور پر نہیں کیا ہے۔ یہ ایک افسوسناک عمل مسلسل ہے جس میں کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کا طریقہ وہی رہتا ہے۔ تبدیلی کی خواہش کرنے والوں کو اس طریقہ کو بدلنا ہو گا۔ یہ اصول عمران خان پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن اگر وہ اس بنیادی بات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو وہ جلسے کرنے ، ریلیاں نکالنے اور دشنام طرازی سے تھکیں یا نہ تھکیں حسب توقع نتائج بہرصورت حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

عمران خان انصاف کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام عدل سب کیلئے یکساں طور سے موثر ہو۔ اگر وہ ایک غریب کو سزا دیتا ہے اور بااثر کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے نقائص کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے اس موقف سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو عمران خان صرف اس انصاف کو مانتے ہیں جو ان کے موقف اور طرز عمل کی تائید کرے۔ جب بھی کوئی عدالت عمران خان کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتی تو عمران خان اس کے خلاف ’’عوامی قوت‘‘ استعمال کرنے کی بات کرنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ تو سب کیلئے یکساں سلوک کے اصول سے متصادم ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کے لیڈر خود ہی اپنے موقف کی نفی کرتے ہیں۔ ملک کی کسی بھی عدالت سے عمران خان کی مرضی کے خلاف فیصلہ صادر ہو تو وہ اس کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں اور اسے بدعنوانی کا نام دیتے ہیں حالانکہ عدالتوں میں فیصلے بہرحال قانون کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے کے باوجود انہیں تسلیم کر کے ہی انصاف کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کیلئے حصول انصاف کا وہ طریقہ درست نہیں ہے جو ان کے سیاسی مقاصد کیلئے راستہ ہموار کرنے میں ان کا معاون نہ ہو۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کے ممدوح تھے۔ لیکن جب انہوں نے چار نشستوں کی پڑتال کیلئے الیکشن ٹربیونلز اور الیکشن کمیشن کو نظر انداز کرتے ہوئے اقدام کرنے سے انکار کر دیا تو وہ ملک میں انصاف کے سب سے بڑے قاتل بن گئے۔

عمران خان کے اس طرز عمل کا اندازہ ان گنت مقدمات میں عدالتوں کی بے بسی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف 2014 کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر حملہ کے مقدمے قائم ہیں اور حاضر نہ ہونے پر عدالتوں سے ان کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ملک کی کسی بھی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتا ہے، وہ کس منہ سے انصاف کی بات کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف مقدمے سیاسی بنیادوں پر قائم ہوں اور عدالت میں الزام ثابت نہ ہو سکے۔ لیکن عمران خان اگر عدالتی کارروائی کو ہی تسلیم نہیں کریں گے تو انہیں عدل و انصاف اور مساوات کا چیمپئن کیسے مان لیا جائے۔ اس طرح وہ متعدد افراد کے خلاف الزام عائد کرتے ہیں۔ ان میں ایک نجم سیٹھی ہیں جن پر وہ 35 پنکچر کا الزام لگاتے ہیں۔ نجم سیٹھی نے ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہوا ہے لیکن عمران خان اس عدالتی کارروائی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ مساوات اور برابری کی بات کرتے ہیں ، اسے ہوس اقتدار کیلئے نعرے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔

عوامی مقبولیت کے زعم میں عمران خان سیاستدانوں ، عدالتوں اور سرکاری اہلکاروں کو للکارتے ہیں۔ ان کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ لیکن ان الزامات کو عدالت میں چیلنج کیا جائے تو وہ ثبوت فراہم کرنے اور عام شہری کے طور پر عدالت کے سامنے حاضر ہونے کی بجائے اپنی سیاسی حیثیت کی آڑ میں خود کو ہر فرد یا ادارے سے بالا سمجھتے ہیں۔ ایسا شخص ملک میں انارکی تو پیدا کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ تبدیلی کے ذریعے سب شہریوں کیلئے انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments