اشتراکی جمعیت طالبان اور انقلابِ ثور


گزشتہ دنوں ہم پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گھوم رہے تھے تو فٹ پاتھ پر ایک شخص پرانی کتابیں بیچتا دکھائی دیا۔ کتابوں کے ڈھیر میں ایک ہاتھ سے لکھے ہوئے مخطوطے پر ہماری نظر پڑی تو اسے اٹھا لیا۔ ورق پلٹنے پر علم ہوا کہ یہ کامریڈ خلیفہ سنگین دوستم کی ڈائری ہے جو کہ کابل یونیورسٹی میں 1976 سے لے کر 1986 تک بی اے فارسی کے طالب علم رہے تھے۔ اس دوران وہ کابل یونیورسٹی میں پی ڈی پی کے پرچم دھڑے کی طلبہ تنظیم، اشتراکی جمعیت طالبان کے ناظم کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے تھے۔ ڈائری دری زبان میں لکھی ہوئی ہے جو کہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ آپ کی خوش قسمتی سے ہم دری، فارسی، چینی، اور ہڑپہ کی تہذیب کی زبانوں کے حروف تہجی سے خوب آشنا ہیں اور ان زبانوں کو پڑھنے پر قادر ہیں۔ اس لئے اس ڈائری میں درج چنیدہ واقعات کا ترجمہ ہم آپ کی سہولت کی خاطر اردو میں کر کے  لکھ رہے ہیں۔ یہ ڈائری پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ شریر کمیونسٹ کیسے یونیورسٹی کے معصوم طلبہ و طالبات پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اور انہیں اپنی مرضی کی زندگی جینے دینے سے روک رہے تھے۔


کامریڈ خلیفہ سنگین دوستم کی ڈائری
جنوری 1980

کامریڈ ببرک کارمل نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ کابل یونیورسٹی میں ہم ان کے عظیم انقلابی مشن کو پورا کرنے کے لئے تیار تھے۔ ہم یہاں پچھلے چار سال سے بی اے فارسی کے سال اول کے طالب علم ہیں اور تمام ہم جماعت اور سینئیر ہمیں نہایت عزت سے کامریڈ خلیفہ سنگین کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان چار برسوں میں ہم ہاسٹل میں کئی تکلیف دہ مناظر کے شاہد رہے ہیں۔ تمام کامریڈ رات دیر تک انقلاب لانے کے طریقوں پر غور کرنے کے بعد جب تھک ہار کر سونے کے لئے لیٹتے تھے تو چند رجعت پسند انقلاب دشمن عناصر اس وقت ہاسٹل کے لان میں فجر کی اذان دینے لگتے تھے اور باجماعت نماز کراتے تھے۔ اکثر وہ انقلابی طلبہ کے ساتھ والے کمروں کے دروازوں پر دستک دے کر اپنے ساتھی رجعت پسند طلبہ کو بھی نماز کے لئے بلاتے تھے۔ ہمیں خطرہ تھا کہ تمام ہاسٹل ہی رجعت پسند نہ ہو جائے اور انقلابِ ثور ناکام نہ ہو جائے۔

ہمیں اس بات پر بہت زیادہ حیرت ہوتی تھی کہ بیشتر طلبہ ہمارے انقلابی سیشن میں شرکت کرنے کی بجائے ان رجعت پسند طلبہ کی دینی تبلیغ میں زیادہ دلچسپی لے کر افغانستان کا مستقبل تباہ کرنے پر مائل ہو جاتے تھے۔ ہم نے ان کو کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ ہماری بات سن کر ہنسنے لگتے تھے اور دوسری طرف چل دیتے تھے۔ ہم وہیں کھڑے ان کی پشت دیکھتے رہتے تھے۔ ایک دو مرتبہ ہم آٹھ دس کامریڈوں نے رجعت پسندوں کے اجتماع میں شرکت کی کوشش کر کے ان کے سٹیج پر جا کر ان کو سمجھانے بجھانے کی کوشش بھی کی تھی مگر رجعت پسندوں کے لفنگے دیہات کے رہنے والے اور مار پیٹ میں طاق تھے اور ہمارے شہری کامریڈوں کی بہت بری طرح ٹھکائی کر دیتے تھے۔ ہماری طرف کے دیہاتی انقلابی کامریڈ ایسے مواقع پر دکھائی نہیں دیتے تھے۔ حیرت کی بات ہے اس دن کتنے انقلابی طالبان کو شدید ذاتی و طبی مسائل کا شکار ہونا پڑ جاتا تھا۔ ہمیں بعد میں کئی دن تک اپنا منہ چھپا کر یونیورسٹی میں نکلنا پڑتا تھا۔

لیکن حالات نے اس وقت پلٹا کھایا جب کامریڈ ببرک کارمل نے اقتدار سنبھالتے ہی ہمیں بلا بھیجا۔ کہنے لگے کہ کامریڈ خلیفہ سنگین دوستم، یونیورسٹی میں ابھی تک انقلابِ ثور کیوں نہیں آ سکا ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ کامریڈ، ادھر رجعت پسند بہت طاقتور ہیں، اور طلبہ ان کی بات سنتے ہیں۔ کامریڈ نے ہم انقلابیوں کو سوویت انسٹرکٹروں سے ایک ہفتے کی خصوصی انقلابی ٹریننگ دلوانے کے بعد ہاسٹل واپس بھیجا تو ہم ضروری نظریاتی اور عملی ساز و سامان سے لیس تھے۔

اگلی شام کو جب رجعت پسندوں نے سورج غروب ہونے کے وقت طلبہ کو تبلیغی درس کے لئے بلانا شروع کیا تو تمام کامریڈ بھی اس میں شرکت کے لئے تیار ہو گئے اور تبلیغ میں مصروف طلبہ کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم کھڑے ہوئے تو ہر طرف کامریڈ سنگین زندہ باد، انقلابِ ثور زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ہم نے ان طلبہ کو انقلاب کے بارے میں لیکچر دینا شروع کیا تو پہلی مرتبہ تمام طلبہ نے نہایت دلچسپی سے ہماری بات سنی۔ ان کے چہروں سے صاف ظاہر تھا کہ انقلابِ ثور ان کے دل میں اتر رہا ہے۔ ایک دو رجعت پسند لیڈروں نے کھڑے ہو کر بولنے کی کوشش کی مگر چند کامریڈ ان کو انقلاب کے نکات مفصل انداز میں سمجھانے کے لئے کمرہ نمبر 45 کی طرف لے گئے اور راستہ سمجھانے کے لئے نہایت دوستانہ انداز میں کلاشنکوف کی نال سے ان کی پسلیوں کو سہلاتے بھی رہے۔ انقلابی درس میں بقیہ طلبہ کا انہماک اب دیدنی تھا اور وہ صبح سورج نکلنے تک ہماری تقریر سنتے رہے۔ فجر کے وقت چند رجعت پسندوں میں کچھ بے چینی سی دکھائی دی تھی مگر ان کے ارد گرد موجود کامریڈوں نے ان کو سمجھا بجھا کر مطمئن کر دیا۔ معاملہ سمجھ آنے پر ان بے چین طلبہ کے منہ سے حیرت و استعجاب کے باعث چیخیں اور کراہیں بلند ہوئیں کہ اتنی سامنے کی بات ان کو اتنی دیر سے کیوں سمجھ آئی۔ وہ کلاشنکوف کی عمدہ فنشنگ اور بہترین کوالٹی سے بھی متاثر دکھائی دے رہے تھے۔

مارچ 1980

آج ہم چند نے انقلابِ ثور کی افادیت کے بارے میں ہاسٹل کے طلبہ کا روزانہ انقلابی سیشن کرانے سے پہلے ان کی حاضری لگائی تو حیرت سے ہمارا برا حال ہو گیا۔ ہمارے رجسٹر کے مطابق ہاسٹل میں ڈھائی سو طلبہ رہائش پذیر تھے مگر سیشن میں صرف دو سو چالیس دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے کامریڈ چنگیز غلزئی سے جواب طلب کیا تو اس نے بتایا کہ یہ دس طلبہ نئے آئے ہیں اور انقلاب دشمنی پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان انقلاب دشمنوں کے دلی عزائم کو جاننے کے لئے کامریڈ کارمل سے خفیہ ایجنسی خاد کے چند اہلکار بلوائے اور ان دس طلبہ کے کمروں میں ان کو ٹھہرا دیا تاکہ وہ رات دن ان پر نظر رکھ سکیں۔ ان رجعت پسند طلبہ نے چوں چرا کرنے کی کوشش کر تو کامریڈ چنگیز غلزئی نے ان کو پختون ولی اور مہمان داری کے بارے میں ان کے فرائض سے آگاہ کیا۔ نیز یہ بھی بتایا کہ پختون ولی کو ترک کرنے والے کو تمام پختون قوم کی تذلیل جان کر ایک سچا پختون اس شریر شخص کا کیا حشر کر سکتا ہے۔

ان مہمانوں کے اعزاز میں ان کمروں میں روز صبح سویرے اجتماعی ناشتے اور رات کے کھانے کا انتظام کیا جانے لگا جس میں ارد گرد کے کمروں میں رہنے والے طلبہ اور کامریڈ کثیر تعداد میں شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ پختون ولی کی مقدس روایات کے مطابق یہ کھانا حجرے کے مالک یعنی کمرے میں رہائش پذیر طالب علم کی طرف سے ہونا چاہیے تھا، اس لئے کینٹین کے بل پر اس کے کھاتے میں یہ درج کیا جاتا۔ یہ رجعت پسند بہت جلد انقلاب پسند کامریڈ بن گئے۔

ستمبر 1982

آج ہم چہل قدمی کرتے ہوئے کینٹین کی طرف جا نکلے تو یہ دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنکھوں میں خون اتر آیا کہ وہاں چند قندھاری لڑکے دوسرے لڑکوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس بے حیائی کی انقلاب اجازت نہیں دیتا۔ ہم نے حکم دیا کہ کینٹین میں اگر کوئی بھی دو لڑکے اکٹھے بیٹھے دکھائی دیے تو وہیں موقعہ پر ہی ان رجعت پسند انقلاب دشمن عناصر کی سرکوبی کر دی جائے۔ بلکہ ہم نے اس قدر احتیاط شروع کر دی کہ اگر راہداریوں میں بھی دو لڑکے اکٹھے دکھائی دے جاتے تو وہیں ان کی نظریاتی تربیت کر دی جاتی تاکہ وہ راہ راست پر آ کر اچھے انقلابی بن سکیں اور انقلابِ ثور مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔ یہ رجعت پسند بھی عجیب عجیب بہانے بناتے ہیں۔ جھوٹ تو ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ کبھی دوسرے شخص کو اپنا باپ یا بیٹا بتاتے ہیں تو کبھی بھائی۔ مگر ہم اشتراکی جمعیت طالبان کے کارکنان اور ناظمین ان کی باتوں میں نہیں آتے ہیں اور وہیں موقعے پر ہی ان کی نظریاتی تربیت کر دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اب ہماری کمیونسٹ نظریاتی تربیت کا پروگرام کافی کامیاب جا رہا ہے اور خاص طور پر دیہی علاقوں اور معاشرے کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے لڑکے جوش و خروش سے اشتراکی جمعیت طالبان کے رکن بنتے ہیں اور بورژوا طلبہ کی نظریاتی تربیت کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کامریڈ لینن نے درست ہی کہا تھا کہ ایک دن یہ غریب محنت کش طاقت پکڑیں گے اور ان کا کردار دیکھ کر عیش و عشرت کا دلدادہ بورژوا طبقہ خود ان کی سیادت تسلیم کرے گا۔ خاص طور پر جب بھی ہم اپنی مرسیڈیز میں یونیورسٹی کا دورہ کرنے نکلتے ہیں تو یہ انقلاب دشمن بورژوا امیرزادے ہمیں دیکھ کر کونوں کھدروں میں چھپ جاتے ہیں اور غریب محنت کش ہمیں فخر سے دیکھتے ہیں۔

مارچ 1983

ہم نے نہایت کوشش سے کابل یونیورسٹی سے رجعت پسند طالبات کی تربیت کر دی ہے۔ اب کوئی طالبہ برقعے یا چادر میں دکھائی نہیں دیتی ہے بلکہ وہ ایک اچھی کامریڈ کی طرح سکرٹ اور بلاؤز میں ملبوس ہوتی ہے۔ پیار محبت سے کیے جانے والے ہمارے نظریاتی سیشن رنگ لائے ہیں۔ مگر بہرحال چند لڑکیاں نہایت ہی شرمیلی نکلیں۔ ہم نے جب ان کے برقعے اتار کر ان کو دکھایا کہ اس کے بغیر وہ کتنی بہتر لگتی ہیں تو وہ یونیورسٹی میں واپس نہ آئیں۔ اوپر سے انہوں نے اشتراکی جمعیت طالبان پر طالبات سے بدسلوکی کا الزام بھی لگا دیا۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتیں تو یہ ان کے حق میں بہت اچھا سلوک تھا۔ اگر اشتراکی جمعیت طالبان ہی طلبہ و طالبات کے رویوں اور لباس کا خیال نہیں رکھے گی تو اور کون رکھے گا؟

جون 1983

دیہات میں رجعت پسندوں نے بہت طاقت پکڑ لی ہے اور وہ انقلابی فوجوں سے شدید لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ یونیورسٹی میں ہمارا نظریاتی پروگرام نہایت کامیاب جا رہا ہے۔ خاص طور پر نئے داخل ہونے والے طلبہ کو ہم انقلاب کی خاطر لڑنے کا درس دینے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور انہیں رجعت پسند انقلاب دشمنوں سے لڑنے کے لئے محاذ پر بھیجتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان کے والدین یہ خبر ملنے پر آتے ہیں اور ان کامریڈوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم ان رجعت پسند والدین کو سمجھا بجھا دیتے ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے، آپ اسے گھر بھی لے جاؤ گے تو وہاں بھی آ جائے گی، بالکل ویسے ہی جیسا کہ پہلے اس ہاسٹل کے ایسے باغی کامریڈوں کو اچانک حادثانی موت کا شکار ہوتے ہم دیکھتے رہتے ہیں، لیکن انقلاب کی خاطر لڑتے ہوئے اگر موت بھی آ گئی تو ساری زندگی آپ سر فخر سے بلند کر کے چل سکو گے۔ بیشتر والدین ہمارے اس انداز سے انقلابِ ثور کو بیان کرنے پر بات سمجھ جاتے ہیں۔ مرد تو سمجھدار ہوتے ہیں، لیکن افغانستان کی عورتیں ابھی بھی جہالت کا شکار ہیں اور بات نہیں سمجھتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سر پھری ماں رونے پیٹنے لگتی ہے کہ انقلاب کی خاطر تم خود محاذ پر جا کر کیوں نہیں لڑ رہے ہو اور ہمارے بچے کو کیوں مرنے کے لئے بھیج رہے ہو۔ پاگل عورتیں۔ اگر ہم محاذ پر جا کر لڑنے لگے تو یونیورسٹی میں یہ علمی محاذ کون سنبھالے گا؟

اگست 1984

ہم نے چند انقلاب دشمن رجعت پسند اساتذہ کو آج نظریاتی تعلیم دی ہے۔ کامریڈ چنگیز غلزئی اور درجن بھر دوسرے کامریڈوں کے ساتھ آج رات گیارہ بجے سے تین بجے تک ہم باری باری ان کی رہائش گاہوں پر جاتے رہے۔ آج ہمیں بولنے میں دقت پیش آ رہی تھی اس لئے ان انقلاب دشمن رجعت پسند اساتذہ کو بیشتر دلائل اشاروں کی زبان میں دینے پڑے۔ ہمارا پورا ارادہ ہے کہ کل ان کے کمروں میں پھولوں کے گلدستے بھجوائیں گے تاکہ انقلابِ ثور کی خاطر ہماری نظریاتی دوستی مزید مستحکم ہو جائے۔ ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ ان کے کمرے کافی کشادہ اور روشن ہیں اور ہسپتال کا صحت و صفائی کا معیار بہت بلند ہے۔

دسمبر 1984

اشتراکی جمعیت طالبان کی قائم کردہ کوالٹی کمیٹیاں بہت اچھے طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ یونیورسٹی اور ہاسٹلوں کی کینٹینوں کے علاوہ ارد گرد موجود بازاروں پر بھی کامریڈ جا جا کر مال چیک کرتے ہیں اور معمولی سا شبہ ہونے پر بھی اسے تحقیق کی خاطر اٹھا کر ہاسٹل میں لے آتے ہیں تاکہ یونیورسٹی کے طلبہ خراب مال کھا کر صحت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں یا گھٹیا مال کی زیادہ قیمت دے کر لوٹے نہ جائیں۔ کامریڈوں کے اس طرح بازار جاتے رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب ان میں سے کچھ نے خود اپنی دکانیں اور کاروبار کھول لئے ہیں تاکہ وہ یونیورسٹی کے طلبہ کو معیاری مال فراہم کر سکیں۔ ان کامریڈوں کی کامیابی مثالی ہے اور بازار میں ایسا مال بیچنے والے دوسرے دکاندار اپنی دکانیں بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مگر رجعت پسند انقلاب دشمن اب بھی اشتراکی جمعیت طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ ان کو کاروبار بند کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں کون کسی کو مجبور کر سکتا ہے؟

فروری 1985

آج کسی گمنام انقلاب دشمن رجعت پسند کا لکھا ہوا پمفلٹ کابل یونیورسٹی میں پھیلا دیا گیا ہے۔ اس میں اشتراکی جمعیت طالبان کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ اس کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول تباہ ہو رہا ہے اور درس و تدریس کے کلچر کی بجائے غنڈہ گردی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اشتراکی جمعیت طالبان کا کردار ایسا ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ سے بھی مار پیٹ کرتی ہے اور کابل یونیورسٹی میں خوف کی حکومت ہے۔ ہمیں یہ جھوٹ پڑھ کر بہت قلق ہوا۔ یہ درست ہے کہ چند انفرادی واقعات میں کچھ ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور ایک آدھ واقعہ ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ کسی کامریڈ نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا اور اس طرح استاد کی توہین کی ہے، مگر ان واقعات کو اشتراکی جمعیت طالبان کی منظم غنڈہ گردی کہنا سراسر ناانصافی ہے۔ یہ انقلاب دشمن رجعت پسند عیب ڈھونڈنے میں شیر ہیں اور کارکنان کی کسی معمولی سی کوتاہی کو بھی اشتراکی جمعیت طالبان کا رویہ بتاتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر کابل یونیورسٹی میں اشتراکی جمعیت طالبان نہ ہو تو یہ یونیورسٹی کیسے تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اشتراکی جمعیت طالبان یونیورسٹی میں باقاعدگی سے کتاب میلوں کا انعقاد کرتی ہے، نئے طلبہ کو آتے ہی اپنے پاس رجسٹر کر لیتی ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کرتی ہے، اور ان کو انقلابِ ثور کا ایک کارآمد پرزہ بناتی ہے۔ وائے افسوس۔ رجعت پسند کبھی ان کاموں کی تعریف نہیں کریں گے۔

جون 1986

کامریڈ نجیب اللہ نے کامریڈ ببرک کارمل کی جگہ انقلابِ ثور کو کامیاب کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ بہت دکھی دل سے میں کابل یونیورسٹی میں اپنا دور طالب علمی ختم کر رہا ہوں۔ بی اے فارسی کے یہ دس برس میری زندگی کا بہترین وقت تھے۔ لوگ درست ہی کہتے ہیں کہ طالب علمی کا دور زندگی کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اب میں انقلابِ ثور کی خدمت کے لئے وزارت نوجوانان انقلابِ ثور کے وزیر کے طور پر کام کروں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ میری نظامت میں اشتراکی جمعیت طلبہ نے کابل یونیورسٹی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے بعد آنے والے ناظم کامریڈ چنگیز غلزئی، جو کہ اشتراکی جمعیت طالبان کے سرگرم کارکن ہیں، میرے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلاب کو کامیاب بنائیں گے۔ کامریڈ چنگیز غلزئی کابل یونیورسٹی کے چپے چپے سے واقف ہیں اور یہاں کے طالبان اور اساتذہ کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ کابل یونیورسٹی میں بی اے دری زبان کے پچھلے آٹھ سال سے طالب علم ہیں۔ میری تمام نیک تمنائیں کامریڈ چنگیز غلزئی کے ساتھ ہیں۔

انقلابِ ثور زندہ باد۔ کامریڈ نجیب اللہ پائندہ باد۔ اشتراکی جمعیت طالبان زندہ باد۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments