لبرل ناقدین سے درخواست


\"hammad\"انسانی مزاج اور رویوں کے بارے میں علم ہمیں سکھاتا ہے کہ ’سیکھنا‘ ہماری جبلت میں شامل ہے ہم شعوری یا لاشعوری طور پر کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں جو صحیح بھی ہوسکتا ہے غلط بھی۔ لیکن مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب ہم غلط کو بھی صحیح ثابت کرنے پر تل جائیں۔

اصل میں ہمارے ہاں مزاج ہی ایسے بنے ہیں کہ ہم تصویر کا ایک رخ دیکھنے کے شوقین ہیں بس جو میں نے دیکھ کر سیکھا، وہی سچ ہے جو آپ نے دیکھ کر سیکھا اول تو وہ غلط ہے لیکن اگر غلط نہیں بھی ہے تو مشکوک تو ضرور ہے۔ لہٰذا یہاں سے پھر مسائل جنم لیتے ہیں

پچھلے کئی ہفتوں سے لبرل ازم کے بارے میں بحث مباحثے جاری ہیں

مگر فریقین میں سے ایک فریق بضد ہوتا ہے کہ ہر لبرل کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی کا ایجنٹ ہے جب کہ دوسرے فریق کی نظر میں مخالف اسلامسٹ کے بنیان کے نیچے بارود کے پیکٹ ضرور ہیں اگر نہیں بھی ہیں تو گھر بھول آیا ہوگا۔

بحث مباحثے اگر اس نیت سے ہوں کہ انکے رد و قبول سے معاملات اوروں پر بالکل واضح ہوجائیں تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ برائی کے ہر نئے نام کو اپنانا بھی آج کل فیشن بن گیا ہے یعنی کہ سیدقطب کو پڑھنے والا بےچارہ ابھی آپ کی بات سمجھنے کے لئے آپ سے سوال ہی کر رہا ہوتا ہے کہ آپ ماتھے پر بارہ بجا کر خود ہی کو کافر کہہ کر بحث کو اس کے قدموں میں پھینک کر ’یہ جا، وہ جا‘ ہوجاتے ہیں۔

حالانکہ سفینہ چاند نما روشن فکر کے ناخدا جناب سقراط کا فرمان عالی شان ہے کہ آیئے ہم پہلے اصطلاحات کو سمجھیں کیونکہ اصطلاحات سمجھے بغیر مکالمہ بے مقصد ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سیدقطبؒسوچ کے افراد نے کبھی لبرل ازم پر کفر کے فتوے نہیں لگائے۔ آپ بھلے بارہا اس کوشش میں رہیں کہ اس فکر کے افراد سے اپنے لئے ’کافر‘کا لفظ نکال دیں لیکن اس میں آپ کو ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

اور پھر اس فکر کے افراد تو خود ان نعروں کا شکار ہوچکے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ایک انتہائی سمجھدار پڑھے لکھے دوست نے بحث میں میرا منہ یہ کہہ کر بند کردیا کہ سید قطب خوارج میں سے تھے۔

اور پھر سیدقطب کی تو دعوت ہی انسانیت کو زمینی خداو¿ں سے آزادی دے کر مساوات کی طرف تھی۔

اگر لبرل ازم مساوات کا نام ہے تو سیدقطب کی تو دعوت ہی یہی تھی کہ مساوات کے جھوٹے نعروں کے بجائے اس حقیقی شکل کی طرف آئیں جس میں آدھی دنیا کے حکمران اور ایک عام رعایا میں کوئی فرق نہیں۔

پھر اسی اصول کے تحت غلط کو غلط ہی کہا جائے گا خواہ وہ مسلمان کیوں نہ کریں اور درست کو درست ہی مانا جائے گا خواہ وہ یہودی کے حق میں ہی کیوں نہ جائے۔

یہ دینی اصول نہ صرف مسلمان کے لئے ہے بلکہ ہر مذہب کے ہر انسان کے لئے ہے لیکن جب آپ نے شروع سے مذہب کی مساوات کا جائزہ تک نہیں لیا تو آپ کیسے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ جس لبرل ازم کا آپ کہہ رہے ہیں وہ دینی ( لبرل ازم ) مساوات سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا خاص مودودی اور سیدقطب پر یہ الزام لگانا کہ انکے فکر کے ہی لوگوں کا \”کافر کافر\” والا رویہ ہے، انتہائی حیران کن ہے۔

دکھ کا عالم یہ ہے کہ خود کو لبرل سمجھنے والے حضرات ایک ہی سانس میں کہہ دیتے ہیں کہ تاجک حکومت کا داڑھیوں اور حجابوں پر پابندی والے عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اسی سانس میں الزام لگاتے ہیں کہ اسلامسٹ حضرات تخریب کاروں کے لئے نرم رویہ رکھتے ہیں یا آئیں بائیں شائیں سے کام لیتے ہیں۔

حالانکہ ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی تخریب کار گروپ کے مظالم پر انہی علمائے دین کے فتوے آئے ہوتے ہیں کہ فلاں گروپ شدت پسند ہے ، فلاں خارجی ہے فلاں دہشت گرد ہے۔

لیکن مسئلہ وہی ہے کہ جو میں نے سیکھا وہی درست جو آپ فرماتے ہیں وہ مشکوک۔

ان ( شاید ) لبرل حضرات کی خواہش ہے کہ تاجک حکومت کے ظالمانہ عمل پر ان کا یہ کہنا ہم مان لیں کہ لبرل ازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ ہماری یہ بات کبھی نہ مانیں کہ داعش کی تخریب کاری سے اسلام اور خلافت کا بھی دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

یہی حال سعودی عرب والی بات کے بارے میں بھی ہے ان کی خواہش ہے کہ سعودی عرب پر وہ تنقید بھی کرو جس کا کوئی ت±ک ہی نہیں بنتا۔ لیکن امریکہ اور یورپ پر تنقید نہ کرو ورنہ ہم مملکت بحث سے اپنے سفیر اٹھا کر کالموں اور تحریروں کے مورچوں میں بیٹھ جائیں گے۔

چارلی ہیبڈو پر جہاں حملہ ہوا تقریباً زیادہ تر اسلامی فکر کے لوگوں نے اس کی مذمت کی اور ساتھ میں زور دیا کہ لبرل ازم کے نام پر انسانوں کے جذبات مجروح نہ کریں کیونکہ ایسے اعمال شدت پسندی کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن بعض لبرل دوستوں کو ہم نے یہی کہتے سنا کہ خاکے بنانا یا مقدس ہستیوں کے بارے میں کچھ بھی کہنا دراصل فریڈم آف ایکسپریشن اور فریڈم آف سپیچ ہے۔

اب آپ کہیں گے کہ ایسے انتہاپسند لبرلز سے لبرل ازم کا تعلق ہی نہیں۔ تو یہی ہم بھی کہتے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی سے مذہب کا تعلق ہی نہیں۔

تو پھر کیوں نہ ہم جان ایلیاﺅالی بات پر عمل کریں کہ \”آو¿ کہ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں\”۔

بہرحال مذہب تو مساوات ( لبرل ازم ) کا درس دیتا ہے امن اخوت بھائی چارے کا درس دیتا ہے لیکن منافقت کو کبھی مساوات نہیں کہتا۔

آخر کیوں آپ امن کے ایک داعی کو انتہاپسندوں کی صف میں کھڑا کرکے خود ہی کو کافر کہہ کر یہ جا وہ جا ہوجاتے ہیں۔

اسلامسٹوں کی اپنے ناقدین سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھا کریں لبرل مفتی بن کر کسی امن پسند ترقی پسند شخص کو خودکش حملہ آوروں کی صف میں شامل نہ کریں۔ کیونکہ آپ ، ہم اور \”ہم سب\” اس ہستی ﷺ کے پیروکار ہیں جو اپنے صحابہ کے ساتھ مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک ذہنی معذور خاتون نے آکر آقا علیہ السلام کو بلایا۔ آقا ﷺ صحابہ کی مجلس چھوڑ کر ان کے پاس آئے اور ان کی بات غور سے سنی اور سمجھی۔

لہٰذا ہم بھی آپ کی بات سنیں گے ، بہت غور سے سنیں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم کسی میڈیا گروپ پر آکر ہر گز غلط پراپیگنڈوں کے ذریعے آپ کو کفار کی صف میں شامل نہیں کریں گے۔

آپ اپنے ذہن و ضمیر کو مطمئن رکھیں آپ کل بھی لبرل تھے ۔آپ آج بھی لبرل ہیں۔ ہم نے آپ کو کل بھی مسلماں سمجھا، آج بھی سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments