ہم ’سب ایک‘ ہیں


\"ammarہم سب ایک ہی دشت کے ساتھی ہیں۔ دکھ بھی ہمارے سانجھے اور خوشیاں بھی ایک سی ہیں۔ آنسو بھی ایک سے ہیں، مسکان بھی۔ درد بھی مشترکہ ہے درمان کی خواہش بھی ایک سی ہی۔ یہ قبیلہ ایک سا ہے۔ اس کی روایت ایک ہے۔ خواہش ایک ہے۔ امید یں بھی مشترکہ اورخوف بھی یکساں ہیں۔
خبر جاننے کا عمل ہے۔ کالم پہچاننے کی کہانی ہے اور تجزیہ ادراک کے معنی میں آتا ہے۔ تبصرہ شناسائی کی طرف قدم ہے۔ نام کچھ بھی رکھ لیں، کسی بھی لقب سے پکار لیں ۔ کنیت ہم سب کی ایک ہے۔ ارادہ ہم سب کا نیک ہے۔
قلم کار کا معیار اور مرتبہ کچھ بھی ہو لیکن جب وہ ہاتھ میں قلم تھامتا ہے تو شعر کے تحریر ہونے تک، افسانے کے انجام تک، کالم کے اختتام تک وہ اپنے آپ میں خود کو میر ، غالب، منٹو کا ہم سر گمان کرتا ہے۔ یہی گمان اس کی قوت ہے، طاقت ہے،اس کی سچائی کی عظمت ہے۔ہم سب اس گمان میں رہنے والے لوگ ہیں۔سب ہی ہاتھ میں قلم کا تیشہ سنبھالے مٹی کے ڈھیر سے دودھ کی نہر کی تلاش میں نکلے ہیں۔ زاد سفر کچھ لفظ ہیں، چند جملے اور بکھرے سے حروف ہیں۔
ابتلا کے اس بے ہنگم دور میں کسی ایک سوچنے والے دوست کا نصیب ہو جانا بڑی بات ہے ۔ ’ہم سب‘ میں تو ایک لشکر ہے درد دل والوں کا۔ سچ لکھنے والوں کا ۔ حق بات کہ دینے والوں کا۔انصاف کے متمنی لوگوں کا۔ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں کا۔ایسے لوگ خال خال ملتے ہیں۔ یہ وجاہت مسعود کا کمال ہے کہ انہوں نے کمال محبت سے ان خال خال خاص لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اس پلیٹ فارم کی خوبی یہ ہے کہ نہ یہاں کسی ایک نام کی ٹرین آتی ہے ، نہ کوئی ایک پلیٹ فارم کسی صاحب حیثیت کے لئے مختص ہے، نہ کسی سیٹ پر ریزروڈ لکھا ہوا۔ جو ہے ، ’ہم سب‘ کا ہے اور جو نہیں ہے اس کے بھی سزاوار ہم سب ہیں۔جو کمال ہے وہ ہم سب کا ہے جو وجہ زوال ہے بھی تو ہم سب کی ہے۔ جو راستہ ہے وہ بھی ہم سب کا ہے اور جو دروغ ہے وہ بھی ہم سب کا ہے۔
اس بات پرقطعا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہم سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہاتھ میں کیا آئے گا؟ پونجی کون سی لٹے گی؟ خاک کون سی چھاننی پڑے گی؟ صحرا کون سے درپیش ہوں گے؟ آبلہ پائی کب مقدر بنے گی؟تشنہ لب سیراب کب ہوں گے؟روشنی کب ہو گی؟ اندھیرا کب چھٹے گا؟ نتیجہ کب آئے گا؟ ان سوالوں سے ماورا ہو کر بس ابتدا کی جائے، پہلا قدم اٹھایا جائے، پہلی اڑان بھر لی جائے۔ یہ بہت کافی ہے، اسی کی ضرورت ہے بس اتنی سی ہی خواہش ہے۔
میں جن ناموں کو ’ہم سب‘ کے ابتدائی صفحات پر دیکھتاہوں، دل خوش گمانی سے بھر جاتا ہے۔ اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔راحت محسوس ہوتی ہے۔ کیسے کیسے انمول نگینے آگئے۔ محبتوں کے سفینے آگئے۔حرفوں کے خزینے آگئے۔ اب با ت کہنے کا لطف آئے گا۔ سچ لکھنے کی خواہش زور پکڑے گی۔امید کے دامن کا سرا ہاتھ میں آجائے گا۔بات سمجھنے والا میسر ہو، داد دینے والا رسا ہو، بات سن لینے کا حوصلہ ہو تو قلم کار کا سینہ چوڑا اور دل کشادہ ہو جاتا ہے۔محنت وصول ہو جاتی ہے۔گلہ دور ہو جاتا ہے۔یہاں سب وہ ہیں جو حرف کے ہنر کے معنی جانتے ہیں۔
لفظ کی تاثیر سے واقف ہیں۔ جملے کیے آداب سے آگہی رکھتے ہیں۔ نفس مضمون ان سب کو عزیز ہے۔ یقین مانیئے ’ہم سب‘ کی ابتدا پر ہم سب خوش ہیں کیونکہ ہم سب ایک ہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments