خواجہ سرا کا خط – تلافی کا پہلا قدم


\"leenaہمیشہ سے ہی میں خواجہ سراؤں سے بہت خوف زدہ رہتی تھی ۔ راستے پر ان کو کھڑا دیکھتی تو اپنا راستہ بدل لیتی ۔ بیٹے کی پیدائش پر جب یہ ہماری خوشی میں خوش ہوکرناچ گا رہے تھے تو ان میں سے ایک خواجہ سرا ہمارے گهر میں داخل ہو گیا جس کو دیکھتے ہی میری چیخیں سارے گهر میں گونجنے لگیں ۔

عمر گزرتی گئی پر یہ انجانا خوف دل سے کم نہ ہوا۔ بچپن سے لے کر علیشاه کی موت تک میرا خوف برقرار رہا اور پهر چند ماه پہلے ٹی وی پر علیشاہ کی خبر سنی۔ اس کے زخمی جسم کو مردانہ اور زنانہ وارڈ کے چکر کھاتے دیکھا۔ لوگوں کو حیران پریشان خواجہ سراؤں کو دهتکارتے دیکھا۔ مرتے ہوئے بھی اس کے جسم کے بهاؤ تاؤ کے سوال سے کچھ پتھر دلوں نے گریز نہ کیا ۔ زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے بھی کسی کو اس پر ترس نہ آیا ۔ یہ دیکھ کر ایک دکھ کا احساس آہستہ آہستہ کہیں کسی کونے سے دل میں در آیا۔

پهر اس کی موت کی خبرکے ساتھ اس کی تصویر جس میں اس کا زرد رنگ کا چہرہ، بند آنکھیں، بے جان جسم ، دھڑکن سے آزاد دل، سفید چادر ارڑهے جیسے مجھ سے کہہ رہی ہو کہ کیا تم کو اب بھی مجھ سے ڈر لگتا ہے؟ کیا میں مرنے کے لیے جوان ہوئی تھی؟ کیا اس کا نام زندگی تھا جو مجھے جینے کو ملی ؟ میں نے جی کر بھی دیکھا اور مر کے بھی پر کیوں جینے سے بھی زیادہ مرنا آسان لگا؟ یہ وہ سوال تھے جو وہ اپنے مرنے پر مجھ سے کر کے مجھے بے چین کر گئ ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ چند دنوں تک میری بے حسی ان سوالوں پر حاوی ہو جائے گی اور میں پهر سے تازہ دم ہو کر کسی اورعلیشاہ کی موت کی خبر کے لیے خود کو تیار کر لوں گی۔

\"alishah\"

مگر جس طرح وقت گزرتا گیا میری بے چینی، میرے اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ علیشاه کا زرد چہرہ میری نظروں سے ہٹنے کو تیار ہی نہ تھا۔ پهر علیشاه پر ہر ہونے والے ظلم کے پیچھے مجھے اپنی ذات اور ہمارا معاشرہ برابر کا شریک جرم نظر آنے لگا۔ اس احساس نے میرے اندر ہی ایک عدالت لگا دی ۔ میری لگائی گئی عدالت میں مجھے اپنے ہی خلاف ٹھوس ثبوت ملتے رہے ۔ جو بھی گواہی ملی اس نے مجھے ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ میری بے حسی اور ان کی بے بسی کے خلاف ثبوتوں کے انبار لگ گئے۔ جب میرے سامنے کٹہرے میں کھڑے اس معصوم بچے نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان سنائی تو وہ اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی رلا گیا۔ ۔بچپن میں اس کی معصومیت چھن جانے کا ذمہ دار خود کو پایا۔ میں اپنی ہی نظر میں گرتی چلی گئی جب ماوں نے اپنی خالی جھولی کا سبب مجھے قرار دیتے ہوئے میری جھولی بددعاؤں سے بھر دی۔ ایک معصوم فرشتے نے اپنی گردن پر چھری کا وہ نشان دکھایا جو اس کے باپ نے اس کو قتل کرنے کے ارادے سے اس کے گلے پر پھری تھی ۔ میری ذات شرمندگی سے زمین میں گڑ گئی جب علیشاه نے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی مجھے میرے ہاتھوں پر اس کے خون کے دهبے دکھائے۔ اس نے مجھے اپنا قاتل قرار دیا ۔ عدالت کے اس کٹہرے میں میں اکیلی کھڑی تھی۔ میرے ساتھ اس معاشرے کا کوئی دوسرا شخض موجود نہ تھا۔ اس عدالت میں میری حیثیت ملزم کے ساتھ ساتھ وکیل صفائی کی بھی تھی مگر واقعات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وکیل صفائی نے کسی بات پر بحث یا جرح کرنے کی ہمت نہ کی۔ اس کے بعد عدالت نے تمام گواہوں اور ثبوتوں کے ساتھ مجھ پر فرد جرم عائد کر دی اور سزا کے طور پر تا دم مرگ مجھے ندامت کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا۔

ندامت کے عذاب میں مبتلا میں اپنے سے سوال کرتی رہی کہ لینہ ! تم ساری زندگی ان لوگوں سے خوف زدہ رہی جو خود اپنے وجود سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں تو اپنے بچپن میں ان سےخوف زدہ ہو کر اپنی ماں کے پیچھے چھپ جاتی تھی۔ جن سے ان کے بچپن ہی سے ان کی ماں چھین لی جاتی تھی ۔ میں ان سے خوف زدہ رہی جن کی متاع زندگی آہوں، سسکیوں ، حقارت، لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہیں، جسم فروشی کی مجبوری اور تھرکتے ہوئے جسموں کے پیچھے تڑپتے ہوئے دل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

یہ احساس میرے آنسوؤں کو تهمنے کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ جب کوئی مجھ جیسا بے حس انسان ان کو دیکھ کر چیخیں مارتا ہو گا یا ان کا مذاق اڑاتا ہو گا تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ مجھے کیوں اپنے شرمناک رویے کا احساس برسوں نہ ہوا ۔

مجھے کیوں ان کی تالیوں کے پیچهے ان تهپڑوں کی گونج سنائی نہ دی جو مجھ جیسے لوگوں کی وجہ سے ان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ مجھے کیوں ان کے ہنسی اور مذاق کے پیچھے ان کی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ کیوں مجھے ان کے سستے چمکیلے کپڑوں میں چھپے زخمی دل دکھائی نہ دیئے؟ آخر کیوں مجھ سے ان کے میک اپ زدہ چہروں کے پیچھے کی ویرانی چھپی رہی؟ مجھے کیوں وہ ان گنت زخموں کے نشان دکھائی نہ دیے جو بچپن سے جوانی تک خوراک کی طرح ان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں؟ یہ مجھ جیسوں کی وجہ سے اپنی ماں کے ہاتھ سے نوالے کھانے کی حسرت لیے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ماں کے ایک بوسے کے لیے زندگی بهر اس کی راہ تکتے رہتے ہیں ۔ ان کو گناہ گار بنا کرمجھ جیسے لوگ فرشتے بن کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ ندامت کا احساس میرے اندر دن بہ دن زور پکڑتا رہا ۔ علیشاه تو یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی مگر جاتے جاتے میرے اندر کے انسان کو جھنجھوڑ کر جگا گئی۔ میرے خوف کو علیشاہ اپنے ساتھ لے گئی۔ میری بے حسی اور پتھر دلی بھی علیشاہ کے ساتھ مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئی جو ان کو انسان نہیں جانتی تھی۔ میں اب اس لینہ کو نہیں جانتی۔

جانتی ہوں کہ میں گزرے وقت کو واپس نہیں لا سکتی تھی ۔ اس لیے تین ماه یہ سوچتی رہی کہ ایسا کیا کروں جو میرے جرم کی سنگینی کو کچھ کم کر دے ۔ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو پھر میں نے بس ان کے کرب کو اپنے لفظوں کی زبان دے دی کہ شاید کسی پر میری بات اثر کر جائے اور پھر وہ بھی اپنی عدالت لگائے اور اپنے گناه کو قبول کر کے ان کو جینے کا حق دلوانے میں میرا ساتھ دے۔

اگرچہ میرا جرم بہت سنگین ہے۔ اس میں معافی کی گنجائش نہیں ۔ میں حقوق العباد سے روگردانی جیسے گناہ کی مرتکب ہوئی ہوں مگر پهر بھی آخر میں ان سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں کیونکہ میرے خوف نے میری چیخوں نے بہت سے دل زخمی کیے ہیں۔ اس خط کو مرہم کا پہلا پھاہا سمجھیے ۔ دوا کا پہلا قطرہ یا تلافی کا پہلا قدم ۔ پر کسی بہانے سہی اس معافی کو قبول کریں۔

معافی کی طلب گار

لینہ حاشر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments