گنگا جمنی تہذیب اور محرّم


اس کے اشعار کی روانی کے ساتھ مردوں کی ٹولی سر پر ہری یا سفید پگڑی باندھے ہوئے جس کی کلغی اٹھی ہوئی ہے اور کلغی میں بھی ڈنڈیوں کے سا تھ مور کے پریا سفید اور سرخ پھندنے سے لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا قد دوسرے لوگوں سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ان سب کی کمر چوڑے پٹکے سے کسی ہوئی ہے اورسفید دھوتی اور کرتا پہنے ہوئے یہ ٹولی ایک خاص انداز میں دوڑتی ہوئی ضریح کے سامنے آتی ہے اور مورچھل سے ضریح کو ہوا دیتی ہے اور کہتی ہے ”حامی اللہ“۔ عورتیں سبز اور سرخ کپڑے پہنے ہوئے اور سب زیور جو جس کے پاس ہے وہ پہنے ہوئے گود میں بچے اٹھائے امام صاحب کے دربار میں زیارت کو آتی جارہی ہیں۔ دور سے عقیدت بھری نظریں لئے اس در پہ حاضری دیتی ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کا مذہب یا مسلک کیا ہے۔

بعد میں معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ عاشور کی رات آس پاس کے سب گاؤں خالی ہوجاتے ہیں۔ ہندو مسلمان کوئی اپنے گھر میں نہیں ہوتا۔ یہ رسم صدیوں سے اس علاقے میں چلی آئی ہے کہ لوگ کھلے گھر چھوڑ کر اس رات ”حسین ؑصاحب“ یا ”امام صاحب بابا“ (امام حسینؑ) کی زیارت کو نکلتے ہیں۔ اور کبھی کسی گاؤں میں چوری کی واردات نہیں ہوتی۔ اس رات سب کو امان ہوتی ہے۔ پیک کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ وہ عورتیں جو بے اولاد ہوتی ہیں اور ہر طرح سے مایوس ہوچکی ہوتی ہیں وہ عاشور کی رات کو تعزیہ پر منت مانتی ہیں کہ بیٹا پیدا ہونے پر اسے ”پَیک“ بنائیں گی۔ اور جس تعزئیے پر یہ منت مانی جاتی ہے۔ لڑکے کو اسی تعزیہ پر پَیک بنایا جاتا ہے اور وہیں اس کے کمر میں پٹکا باندھا جاتا ہے اور ہاتھ میں مورچھل دیا جاتا ہے۔ پیک یا پائک فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں قاصد۔ انہیں حضرت فاطمہ صغرا کے قاصد بھی کہا جاتا ہے۔

پیک عموماً سبزیا سفید لباس میں ہر ضریح اور تعزیہ کے سامنے سات مرتبہ ”حامی اللہ“ کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور پھر پیچھے الٹے پاؤں جاتے ہیں، وہ تعزیہ یا ضریح کی طرف پیٹھ نہیں کرتے یعنی میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے پنجوں کے بل اچھلتے ہوئے بے تابانہ ضریح کی طرف آتے تھے اور مورچھل لئے ہوئے حامی اللہ کہہ کرپیچھے کی طرف دوڑتے چلے جاتے تھے۔

یہ منت اس لحاظ سے بہت سخت ہے کہ پَیک شب عاشور سے تا عصر یعنی تعزیہ ٹھنڈا ہونے تک ایک تعزیئے سے دوسرے تعزیئے پر دوڑتا رہتا ہے۔ اسے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور کھانے پینے پر بھی بڑی حد تک پابندی ہوتی ہے تاکہ وہ پاک صاف رہے۔ لہذا لڑکا جب اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ خود اپنے سب کام کرنے کے لائق ہو جائے تو اسے ”پیک“ بنایا جاتا ہے اور پھر تا عمر اسے شب عاشور سے تا عصر ٹولی میں شامل ہوکر امامؑ صاحب کے دربار میں یونہی حاضری دینی ہوتی ہے۔

اور جو ”پایک یا پیک“ بوڑھا ہو جاتا ہے اور دوڑنے کی سکت نہیں رہتی وہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ”ماثیہ“ پڑھتا ہے۔ ان پیکوں کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ان منتّی بچوں کی مائیں ہیں جو ابھی پاؤں چلنے کے لائق نہیں ہیں اس لئے مائیں انہیں پَیک بناکر اور سجا کر منت پوری کرنے کے لئے آتی ہیں۔ اس رات دیہات کی عورتیں ”داہا“ روتی ہیں۔ وہ تعزیہ کے سامنے اپنے مخصوص انداز میں پوربی زبان میں اشعار پڑھتی ہیں اور پرسوز انداز میں کربلا والوں کا ذکر کرتی ہیں۔

یہ 1985 ؁ء کی عاشور کی وہ رات تھی جب میں نے پہلی بار اصل گنگا جمنی تہذیب کی ایک جھلک دیکھی۔ اوراس دو قومی نظریے پر بار بار غور کیا جو میں نے بچپن سے نصاب کی کتابوں میں پڑھا تھا۔ لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آسکا۔ ممکن ہے میرے پاس وہ بصیرت نہ ہو جو ہمارے ذہین لیڈروں کو خدا عطا فرماتا ہے۔ میری یادداشت میں آج بھی ضریح کے سامنے تیز تیز دوڑتے ہوئے مور کے پنکھ کے مورچھل لئے پیک، ان کی وہ ”حامی اللہ“ کی گردان اس میں چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں کا شور، ان کا عجیب اور مشکل پوربی زبان میں تیز تیز مرثیہ پڑھنا زندہ ہے۔

میں مشکل اس لئے کہہ رہی ہوں کہ میری مادری زبان پوربی ہے۔ میں نے اپنی ماں اور نانی اماں کو ہمیشہ آپس میں پوربی ہی بولتے سنا۔ لیکن ان ”پیکوں“ کے ”ماسیہ“ یا مرثیہ کی زبان اتنی مختلف اور ایسی ٹھیٹھ تھی کہ اس کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہ آسکا۔ لیکن ان کے والہانہ انداز نے دل پر عجیب اثر کیا۔

میں نے 1985 ؁ سے 1990 ؁ء تک پانچ سال کے عرصے میں اس گنگا جمنی تہذیب کے ان گنت رنگ دیکھے۔ لیکن ان سب رنگوں میں سب سے گہرا رنگ تھا عقیدت کا۔ نواسۂ رسولؐ سے عقیدت کا رنگ۔ جہاں آکر رنگ، نسل اورمذہب سب کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ صرف ایک رشتہ باقی رہ جاتا ہے، اور وہ ہے انسانیت کا رشتہ، مظلومیت کا رشتہ اور ایک مشترک درد کا رشتہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2