صحافی یا جماعتی کارکن؟
مکرر عرض ہے کہ میر غوث بخش بزنجو فرمایا کرتے تھے، ” سیاسی جدوجہد کا مقصد انصاف کا حصول ہے مگر سیاسی رائے کی اولین بنیاد اخلاقی اصول ہوتے ہیں“۔ بدقسمتی سے اب صورت حال وہ نہیں رہی۔ ہماری ملکی سیاست میں ایک بڑا حادثہ یہ ہوا کہ آج کا سیاسی کارکن غیر تربیت یافتہ رہ گیا۔ دوسرا بڑا حادثہ یہ ہوا کہ اخبار کا تراشہ اور نیوز پروگرام کا کلپ سیاسی دلیل کے جگہ پیش کیا جانے لگا۔ تیسرا ظلم یہ ہوا کہ نابالغ ، اور کم علم سیاسی ذہن سنے سنائے واقعات کا گواہ بن گیا۔ ایسے میں سیاسی تجزیات سن کر صرف ہنسا یا رویا جا سکتا ہے۔
ہماری سیاست میں آج جن اصطلاحات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے یہ اگلے آنے والے چند سالوں میں ایک بدنما سیاسی کلچر کا پیش خیمہ ثابت ہونے والے ہیں۔ سوشل میڈیا کے نابالغ ذہن تو چھوڑیے بڑے بڑے اکابرین و دانشور اب ’پٹواری، یہودی ایجنٹ، مسٹر ٹین پرسنٹ، شی میل، ایزی لوڈ، ڈیزل‘ جیسی مکروہ اصطلاحات تواتر سے استعمال کرنے لگے ہیں۔ ان میں وہ احباب بھی شامل ہیں جن کا کام خبر دینا ہے خبر پر تبصرہ کرنا نہیں۔ جو احباب رپورٹنگ اور تجزیہ کاری کا بنیادی فرق نہ سمجھ سکیں ان کی سیاسی رائے کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟
بدقسمتی دیکهئے کہ ستر سال بعد بهی سیکولرازم ایسے سیاسی بندوبست کو الحاد کے متبادل کے طور پر لکها جا رہا ہے۔ چار بدترین آمریتوں کے بعد بهی جمہوریت کو تسلسل سے بدنام کرنے کی کوشش جاری ہے۔ احباب شفاف نظام کا نعرہ اٹها کر ” اک ذرا گردن ادهر ہی جهکاتے ہیں“۔ شفافیت کا نام لے کر باقاعدہ کوشش کی جاتی ہے کہ سیاسی نظام کی بساط بس کسی طرح کوئی لپیٹ دے۔ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے چند مخصوص اداروں کی بے جا خوشامد کا چلن عام کر دیا گیا۔ اس بے جا خوشامد میں ہمنوائی نہ کرنے والوں سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا ہے.
اس طویل سمع خراشی کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ٹی وی اور اخبار کے چند دانشوروں کو اب مان لینا چاہیے کہ وہ صحافی نہیں بلکہ جماعتوں کے سیاسی کارکن ہیں۔ سیاسی رائے کوئی جرم نہیں ہوتی مگر اپنی ذاتی پسند کی سیاسی رائے کو خبر کے نام پر نشر کرنا جرم ہے۔ آگے بڑھیئے اور قبول کیجیے کہ آپ فلاں جماعت کی سیاسی کارکن ہیں۔
- تالہ ۔ ۔ ۔ بندی - 07/07/2023
- کہانی، ناٹک اور تسلط کا جبر - 20/02/2023
- معطل آدمی کے خواب - 19/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).