مشرف کے لنگڑے جرنیلی جھوٹ


\"zaidi2\"حال ہی میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے امریکہ میں رابرٹ سیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے چند انتہائی قابل اعتراض جملے کہے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس انٹرویو کے اس حصے کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جس میں پرویز مشرف صاحب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ فوج کی مدد سے پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ گو کہ یہ حصہ بڑی حد تک قابل اعتراض ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اور ساری دنیا میں پرویز مشرف کے مانے بغیر بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ مشرف صاحب یہاں سے بھاگ نکلنے میں اسی لیے کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق فوج سے تھا۔ مجھے تو اعتراض ان کی جانب سے بیان کی گئی فوج کے پاکستانی سیاست میں کردار کی وضاحتوں پر ہے۔

انٹرویو کے دوران جب رابرٹ سیگل نے مشرف صاحب سے پوچھا کہ عام تاثر ہے کہ آپ پاکستان سے نکلنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ آپ کا تعلق فوج سے ہے، کیا یہ تاثر درست ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے مشرف صاحب کا کہنا تھا کہ یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتانا شروع کر دیا کہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار ہمیشہ سے رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ سویلین حکومتوں کی نااہلی رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فوج نے 1988 سے لے کر 1999 تک سویلین حکومتوں کو حکومت کرنے کا موقع دیا مگر یہ حکومتیں انہی حکومتوں کے خود کے لگائے ہوئے صدور مملکت نے کرپشن الزامات کی بنیاد پر برطرف کر دیں۔

\"musharraf\"ان میں سے مجھے اعتراض تو دونوں ہی باتوں پر ہے مگر پہلی بات کا جواب میں صرف اتنا دینا چاہوں گا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کی تاریخ کا کرپشن کے حوالے سے بدترین سال 2005 تھا، جو کہ یقیناً مشرف صاحب کے سنہری دور کا عروج بھی گردانا جاتا ہے۔ جبکہ اسی تنظیم کے مطابق کرپشن کے حوالے سے بہترین سال 1995 تھا، جو بینظیر بھٹو صاحبہ کی اس بدترین حکومت کے دوران تھا جسے \”انہی کے لگائے صدر\” فاروق لغاری نے ہٹایا تھا۔ مزید یہ کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہی کے مطابق پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کی آج تک کی بہترین رینکنگ گذشتہ برس یعنی 2015 میں رہی جب پاکستان 9 درجے ترقی کرتے ہوئے 117 نمبر پر آ گیا۔ یہ بھی جہاں تک میری معلومات ہیں، کسی فوجی کی براہ راست حکومت نہیں۔ انہیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں سطح  کثیرالجہت غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 2004 میں 55 فی صد تھی جبکہ یہ تعداد کم ہو کر گذشتہ برس 39 فی صد پر آ چکی ہے۔ اور ابھی دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ کے عذابوں کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا۔

اب آتے ہیں مشرف صاحب کی لکھی ہوئی پاکستان کی خود ساختہ تاریخ کی جانب۔ میں اس حوالے سے صرف 1988 سے لے کر 1999 کی چار حکومتوں کی بات کروں گا کیونکہ ان کا مشرف صاحب نے خود ذکر کیا ہے۔

سب سے پہلے آتے ہیں بینظیر صاحبہ کی پہلی حکومت کی جانب۔ مشرف صاحب نے فرمایا کہ چاروں حکومتیں انہی کے اپنے لگائے ہوئے صدور نے برطرف کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غلام اسحاق خان صاحب جنہوں نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کی وہ بینظیر بھٹو حکومت کے لگائے ہوئے صدر نہیں تھے بلکہ ضیاء صاحب والے چونسے پھٹنے کے فوراً بعد 17 اگست 1988 کو ہی صدر مملکت بن گئے تھے جبکہ بینظیر بھٹو دسمبر 1988 میں انتخابات جیت کر آئی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ مکروہ کردار بینظیر حکومت کو ترکے میں ملا تھا، ان کا خود کا لگایا ہوا نہیں تھا۔ اور پھر جنہوں نے صدر لگایا تھا، انہی کے کہنے پر 1990 میں انہوں نے بینظیر حکومت بھی برطرف کی تھی۔

اس کے بعد آئی میاں نواز شریف کی پہلی حکومت۔ اس کو بھی 1993 میں انہی صاحب نے برطرف کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ کوشش ناکام ہوئی تھی۔ کیونکہ حکومت نے صدر کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر عملدرآمد کو روک دیا تھا۔ اس موقع پر بالآخر اصلی طاقتوں کو سامنے آنا پڑا اور کاکڑ فارمولے نے جنم لیا۔ فارمولہ کیا تھا؟ بس یہی کہ میاں صاحب کے ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی گھر جانا پڑا۔ غلام اسحاق خان کون سے سگے تھے؟ جو سگے تھے، وہ تو اپنی اپنی جگہ برقرار رہے۔

\"benazir\"بینظیر کی دوسری حکومت ضرور 1997 میں انہی کے لگائے ہوئے صدر نے گرائی تھی مگر یہ بھی کوئی اتنا سادہ معاملہ نہیں تھا جتنا مشرف صاحب اور ان جیسے لوگ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے کارفرما عوامل ایک علیحدہ بلاگ کے متقاضی ہیں۔ اس حد تک بہرحال یہ بات درست ہے کہ یہ حکومت بینظیر کے اپنے ہی لگائے ہوئے صدر نے گرائی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر یہی بینظیر کا لگایا ہوا صدر پہلے ملت پارٹی بنا کر اور پھر اس پارٹی کو مسلم لیگ ق میں ضم کر کے مشرف کا پانچ سال حواری بھی رہا۔

اور آخری حکومت جو 1999 میں میاں صاحب کی ہٹائی گئی، وہ کیسے مشرف صاحب اس بےضرر آدمی رفیق تارڑ پر ڈال سکتے ہیں؟ یہ مرد قلندر کبھی خواب میں بھی میاں صاحب کی حکومت برطرف نہیں کر سکتا تھا۔ یہ حکومت کسی اور نے نہیں بلکہ خود مشرف صاحب نے برطرف کی تھی اور اس کا جواز بنایا تھا ایک بیہودہ طیارہ اغوا سازش کیس کو جس میں اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے مشرف صاحب کو پہلے پوری سپریم کورٹ اپنی مرضی کی لگانی پڑی اور اس فیصلے کے چیلنج ہوتے ہی 2009 میں سپریم کورٹ نے اسے کھڑکی سے باہر اٹھا پھینکا تھا۔

تو معاملہ صرف اتنا ہے جناب کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جنرل صاحب آپ لاکھ  دنیا میں اپنے فوج سے تعلقات کا ڈھنڈورا پیٹیں مگر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ویسے بھی یہ کوئی بہت پرانی تاریخ نہیں۔ اس دور کے تو بچے بھی ابھی لڑکپن ہی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی ہلکی پھلکی ٹچکری تو شاید برداشت ہو جائے لیکن کم از کم یہ جرنیلی سطح کے جھوٹ تو نہ بولیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments