مرد اور عورت ایک دوسرے کے بارے میں پوزیسو کیوں ہوتے ہیں


پیدائش سے جوانی تک کا ماحول جو دونوں کی مختلف طور سے تربیت کرتا ہے، وہ بھی انڈرسٹینڈنگ کے فقدان کو شدید کردیتا ہے۔ گھر میں مقید عورت کی مصروفیات میں عموماً ایسی کوئی سرگرمی شامل نہیں ہوتی جس میں دماغ کا تخلیقی استعمال درکار ہو سو اس کے لیے ساس نندوں یا پڑوسیوں کے ساتھ ہونے والے اختلافات بھی زندگی موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں۔ شام کو شوہر کے گھر آنے پر اس کی سب سے پہلی خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ شوہر نہ صرف اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی کہانی مکمل ہمدردی کے ساتھ سنے بلکہ اس کے ’دشمنوں‘ کو فوراً سزا بھی دے۔ اور جب شوہر بوجوہ ایسا نہیں کرپاتا تو وہ اسے بھی اپنے دشمنوں کا حلیف سمجھ لیتی ہے۔

عورت کا یہ مطالبہ کہ شوہر جاب سے فراغت کے بعد سیدھا گھر آئے، اس کی محبت کا نہیں بلکہ پوزَیشّن کا غماز ہے جس کے پیچھے عدمِ تحفظ کا خوف ہی نہیں بلکہ شوہر کی آزادی کو محدود کرنے کی خواہش بھی پنہاں ہوتی ہے۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ شوہر نے پورا دن اپنی آزادی کو خوب انجوائے کرلیا ہے سو اُسے اس بات کی مزید آزادی نہیں ملنی چاہیے۔

مرد کے برعکس عورت کی خودسپردگی صرف پسندیدہ پارٹنر کے لیے ہی ممکن ہوتی ہے جبکہ شوہر اکثر صرف اور صرف اپنی ہی خواہش کو پورا کرنے پر بضد ہوتا ہے۔ وہ زبردستی کے زور پر اپنی خواہش پوری تو کرلیتا ہے مگر بیوی اسے اپنے دل سے نکال پھینکتی ہے۔ اور پھر یہ تعلق روز بروز ایک دوسرے سے بیزاری اورخصومت میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ اب مرد کے پوزَیسّو ہونے کے نئے شیڈز سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس کا ملکیتی جذبہ بیوی پر نت نئی پابندیوں کے حربوں کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب وہ بیوی کی محبت بھری توجہ سے محرومی کی تلافی کے لیے اِدھر اُدھربھی جھانکنے لگتا ہے۔

عورت اپنے ملکیتی حربے کو یوں پریکٹس کرتی ہے کہ وہ خود کو میاں کی مسلسل جاسوسی پر مامور کرلیتی ہے۔ بس میاں کو بے وفائی کا مجرم قرار دے کر زچ کرنے کے لیے اس کے موبائل سے ایک مبہم پیغام کی برآمدگی کافی ہوگی۔ اب دونوں ہی خصومت کے اس مقام تک آچکے ہوتے ہیں کہ جہاں دونوں کو ایک دوجے کے اندر ایک بھی مثبت بات دکھائی نہیں دیتی۔ دونوں میں ایک ایسی جنگ چھڑ چکی ہے جس کا اختتام دونوں میں سے ایک کی موت پر ہی ممکن ہوگا۔

محبت اپنی اصل میں ایک ایسا رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین کے لیے دوسرا اپنی ذات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اس میں عاشق اور معشوق کی پوزیشن فکس نہیں ہوتی بلکہ بدلتی رہتی ہیں۔ آئیڈیل تعلق کی صورت میں تو دونوں ہی ہمہ وقت ایک دوسرے کے عاشق بھی ہوتے ہیں اور محبوب بھی۔ لیکن اب نت نئی اشیاء کی کشش نے انسان کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اس کی اہمیت اشیاء کی فراہمی سے مشروط ہوتی جارہی ہے۔ اب اس کی صلاحیتوں کا جادو بھی تب تک کارگر ہے جب تک وہ نت نئی اشیاء اور سہولتوں کی فراہمی کا سبب بنا رہے وگرنہ خود اس کا وجودبہت جلد ایک ناکارہ شے میں بدل جائے گا۔

انسانوں کے درمیان ملکیتی تعلق کے ہوتے ہوئے محبت کی نمو ممکن نہیں۔ محبت کی نمو غیرمشروط آزادی کا مطالبہ کرتی ہے جسے تسلیم کیے بغیر دوسرا ہمیں اپنے کمفرٹ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کمفرٹ زون میں جیسے ہی ہم زبردستی داخل ہوں گے محبت کسی دوسرے دروازے سے باہر نکل جائے گی۔ پسند کی شادی میں فریقین ابتداء میں اکثر دل پہ ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کے کمفرٹ زون کے احترام کی یقین دہانی کرواتے ہیں مگر انھیں بالکل پتہ نہیں ہوتا کہ شعوری طور پر اپنی کایا کلپ کیے بغیر وہ جلد ہی اس یقین دہانی سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوجائیں گے اور پھر بچپنے سے رٹا ہوا ملکیت کا سبق محبت کو برباد کرکے رکھ دے گا۔

ہم نے محبت کی خواہش کو محض دل کا کوئی بے سوچا سمجھا منہ زور جبلی مطالبہ سمجھ لیا ہے جس کا شعوری ذمہ داریوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم اپنی محبت پانے کے لیے گھر والوں اور سماج سے بھی لڑ پڑتے ہیں مگر ہمارا دھیان کبھی اس محبت دشمن سماج کی طرف نہیں جاتا جو خود ہمارے اندر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا ہوتا ہے۔ ویسے بھی درست ساتھی کے انتخاب کے لیے جس آزادی کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہاں عنقا ہے۔ سو ہم اکثر محبوب کی جھلک دیکھ کر ہی ریجھ جاتے ہیں اور اسے محبت سمجھ بیٹھتے ہیں۔

مگر افسوس کہ یہ محبت اس قابل نہیں ہوتی کہ مرد اور عورت کے بیچ صدیوں سے پنپتے ہوئے تفاوت کو ختم کرسکے۔ سماجی تربیت کے نتیجے میں مسخ شدہ سسرالی کردار اور خود عورت اور مرد اس وقتی ابال نما محبت کو بہت جلد آقا اور غلام کے تعلق میں بدل دیتے ہیں۔ عورت اپنی معاشی مجبوریوں کی بنا پر لڑائی بھڑائی، طعن و تشنیع یا پھر سازشی حربوں کے ساتھ مرد کو اپنے ساتھ باندھے رکھنے کا جتن کرتی رہتی ہے۔ جبکہ مرد ایک اور شادی کے خواب میں پناہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ لڑائی کا آخری مرحلہ عموماً عورت ہی جیتتی ہے جب وہ اپنی مظلومیت کی کہانی کے زور پر اولاد کو اپنے کیمپ کا حصہ بنا کر اسے بوڑھے باپ سے دور کردیتی ہے۔

چلتے چلتے ملکیت کے مظہر کے ایک اور زاوئیے پر بھی بات کرتے چلیں۔ عورت جانتی ہے کہ مرد کی مالکانہ حیثیت کا تعلق اس کی معاشی اہمیت سے منسلک ہے۔ وہ اگر خود کمانے کی اہل نہ ہو تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف حربوں کے ذریعے کمائی کرنے والے مرد کو اپنے قبضے میں رکھے۔ عموماً ساس اور بہو کے درمیان لڑائی کی وجہ کماؤ پوت پر اپنا اپنا قبضہ قائم رکھنا ہی ہوتا ہے جسے دونوں ہی محبت کے جھوٹ میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ مرد کی بجائے معیشت اگر عورت کے قبضے میں آجائے تو وہ بھی شوہر کے ساتھ ویسے ہی سلوک پر اتر آتی ہے جیسا کہ مرد اپنی بیویوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوزَیشّن کا تعلق معیشت کی طبقاتی اور مقابلہ جاتی صورت سے ہے۔ اگر معاشرے کے سبھی افراد کے لیے روزمرہ ضرورتوں کا حصول ممکنہ حد تک سہل کردیا جائے تو سماج سے صرف پوزَیشّن ہی نہیں بلکہ مردانہ زنانہ امتیاز اور حسد کی بھی بہت سی صورتوں سے نجات پائی جاسکتی ہے۔

خیراندیش

سعید ابراہیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2