سی پیک: ایک بہت مشکل لیکن آسان منصوبہ


\"wisi-baba-4\"چینی بہت واضح ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکی اس منصوبے کی ہر ممکن مخالفت کریں گے۔ لیکن جب وہ اس کو بنتا دیکھیں گے تو پھر وہ اس کے فوائد میں شامل ہونا چاہیں گے۔ جب یہ بات ایک چینی کے منہ سے سنی تو نوٹ نہیں کی تھی۔ سال بعد یو ایس ایڈ کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر کا بیان پڑھا۔ ہم شدت سے چاہتے ہیں کہ سی پیک کا حصہ بنیں۔ اہم امریکی عہدیدار کے بیان سے پہلے ہی برطانیہ سی پیک پراجیکٹ کے لئے فنڈ مختص کر چکا تھا ۔

حویلیاں ڈرائی پورٹ اور فیصل آباد ملتان موٹر وے دو سی پیک پراجیکٹ ہیں ۔ ان دونوں کے لئے اربوں روپئے امداد برطانوی حکومت نے بھی فراہم کی ۔ سی پیک منصوبے کا سائز چھیالیس ارب ڈالر سے بڑھا کر باون ارب ڈالر کیا جا رہا ہے۔ چینی حکومت پاکستان ریلوے کو اپ گریڈ کرنے کے آٹھ ارب ڈالر کے منصوبے کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے پر تیار ہو گئی ہے۔ ساڑھے پانچ ارب ڈالر چینی حکومت جبکہ ڈھائی ارب ڈالر ایشین ڈویلپمنٹ بنک دے گا۔

سی پیک منصوبہ تو پاکستان اور چین سے متعلق ہے۔ اس میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور برطانوی یا امریکی امدادی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ صورتحال یہ ہے کہ یہ تمام منصوبے پارٹنر شپ کی بنیاد پر بن رہے ہیں۔ مختلف پراجیکٹس میں چینی سرمایہ کاری کا حصہ مختلف ہے۔ کہیں یہ سو فیصد ہے کہیں اسی اور پچاسی فیصد ۔ پاکستان اپنے حصے کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے دوست ممالک اور بنکوں سے مدد لے رہا ہے۔

\"cpec-route-2\"اصل سی پیک ایک بہت ہی بڑا منصوبہ ہے۔ جو چین سے گوادر تک ایک کاریڈور جس کے کئی راستے ہونگے پر مشتمل ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ بھارت سے سنٹرل ایشیا تک بھی کئی راستے بنائے گ ا۔اس میں بہت جلد ایرانی اور سعودی بھی بہت بھاری سرمایہ کاری کریں گے۔

جو کچھ بن رہا ہے یہ صرف شروعات ہے۔ یہ اس منصوبے کے اصل خدوخال کو ہرگز واضح نہیں کرتا۔ چین گوادر کے راستے اپنی دس سے پچیس فیصد ایکسپورٹ کرنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ یہ چھوڑیں کہ اس کی مالیت کتنی ہو گی۔ اگر یہ چینی ایکسپورٹ کا صرف ایک فیصد بھی ہو۔ تو یہ کم از کم پچاس ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ ایکسپورٹ سے تین گنا۔ پاکستان کی ایکسپورٹ کااندازہ گھر بیٹھ کر نہ لگائیں کبھی کراچی بندرگاہ کا چکر لگا لیں۔ تب محسوس کر سکیں گے کہ گوادر جب کراچی سے تین گنا زیادہ سرگرم بندرگاہ ہو گا تو کیسا ہو گا۔

اب صرف یہ سوچیں کہ دس سے پچیس فیصد چینی ایکسپورٹ کیا اکیلا گوادر ہینڈل کر سکے گا؟

چین کے میرے پچھلے دورے میں ایک چینی کمپنی کے عہدیداروں سے ملاقات ہوئی۔ اس کمپنی کو آپ چین کا ملک ریاض سمجھ لیں۔ یہ کمپنی شہر بناتی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کرنے کے لئے اس وقت اٹھک بیٹھک کر رہی ہے۔ اس کمپنی کے عہدیداروں کو پاکستان کے حوالے سے شدید تحفظات تھے۔ وہ حیرت زدہ تھے کہ پاکستان کی تیاری کیا ہے؟ تربیت یافتہ لیبر کے لئے کیا ہو رہا ہے؟ منصوبہ بندی کیا ہو رہی ہے؟ کیا پاکستانیوں کو رتی برابر بھی اندازہ ہے کہ چینی کمپنیاں پاکستان جب اپنے پلانٹ منتقل کریں گی تو کیسا انفراسٹرکچر درکار ہو گا؟ کتنی اور کیسی تربیت یافتہ لیبر درکار ہے؟ توانائی کی ڈیمانڈ کیسے پوری ہو گی؟ روڈ اور ریل پر سامان کی منتقلی کیسے ہو گی؟

\"gawadar\"

یہ سارے سوالات وہ اس کے باوجود اٹھا رہے کہ انہیں پتہ ہے کہ کیا کچھ زیر تعمیر ہے۔

سیکیورٹی کے حوالے سے سی پیک کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہماری فورسز آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ افغانستان کے باڈر کی نگرانی کرنی ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملہ مستقل گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں دو ہزار کلومیٹر طویل روڈ تعمیر کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ایک بڑا کام ہے۔ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے بھی دونوں سب روٹ پر اکٹھے کام کرنا ممکن نہیں اور معااشی مسائیل کی وجہ سے بھی۔ یہ صرف روڈ نہیں ہے بلکہ توانائی کے منصوبے بھی ہیں جو کہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

سی پیک سیکیورٹی سے متعلق افسران سے ایک ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف اس کی حفاظت کی غرض سے پراجیکٹس سے متعلق ڈاکیومنٹس کو بھی حساس ترین قرار دے چکے ہیں۔ سی پیک کے خلاف خبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ایک افسر کا ہنستے ہوئے کہنا تھا کہ اس کے حق میں خبروں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ بلکہ اس افسر کا مزید کہنا تھا وسی بابے جیسے سی پیک کے حمایتیوں کو بھی الٹا لمکانا چاہئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ انہیں اتنی خوشیاں کیوں چڑھی ہوئی ہیں۔ جبکہ ہم دن رات حفاظت کرتے ہلکان ہو رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ ایک دوستانہ مذاق ہی تھا۔

سی پیک ہمارے ریجن کے لئے ایک حقیقی گیم چینجر ہے۔ بھارت اس کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔ اس مخالفت کی بہت ساری معلوم وجوہات کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر اس منصوبے کا حصہ بننا چاہ رہا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اس کو افغانستان کی کھلی حمایت بھی حاصل ہے۔ ہمارے ریاستی سسٹم میں اکثریتی رائے یہی ہے کہ بھارت پہلے مسائل حل کرے پھر حصہ بنے۔

اس پاکستانی سوچ کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بھارت اپنا لچ تلتا رہے گا۔

\"nawaz-jinping-re\"

صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ سی پیک کو جلد از جلد فنکنشنل کیا جائے۔ راحیل شریف اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس روٹ کو چالو کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اسی سال بہت امید ہے ارمچی سے پہلا قافلہ تجارتی سامان لیکر پاکستان پہنچ جائے گا۔ دیر سویر ہو بھی گئی تو ایسا ہو کر رہنا ہے۔ جب بندرگاہ چالو ہو جائے گی تو مخالفت بس تاریخ ہی رہ جائے گی۔ اس کے بعد بھی قافلوں کی سیکیورٹی مسئلہ رہے گی لیکن سلسلہ چل نکلے گا۔

سیاست کریڈٹ لینے کا کھیل بھی اس پراجیکٹ کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہے۔ پراجیکٹس کی تکمیل کے بعد نوازشریف ایک کر دکھانے والے لیڈر کی طرح الیکشن مہم میں جانا چاہتے ہیں۔ ایک اتنا زیادہ تگڑا اور کرو لیڈر قبول کرنا ”ان کے“ لئے بھی ایک مسئلہ ہے۔ تو وہ نوازشریف کو اپنے سائز میں ہی رکھنا چاہیں گے۔

نوازشریف توانائی منصوبوں کو مکمل کر کے پنجاب سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ ان کی الیکشن مہم کو فائدہ دے گی۔ یہی فائدہ سندھ میں پی پی کو وہ نہیں دینا چاہتے۔ سندھ میں بجلی منصوبے تو شائد بروقت بن جائیں لیکن اس بجلی کو لے جانے والی ٹرانسمشن لائین لیٹ کر دی گئی ہے۔ پنجاب میں بننے والے ایل این جی منصوبوں کے لئے گیس لائینوں کے موجودہ سیٹ اپ کو استعمال کرنے پر سندھ حکومت نے اعتراض داغ رکھا ہے۔ مقصد ان کا بھی یہی ہے کہ الیکشن کا فائدہ نہ لینے دیا جائے مسلم لیگ نون کو۔ دونوں بڑی جماعتیں ایک الیکشن جیتنے کی خاطر پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی پروا نہیں کر رہی ہیں۔

بہترین کارنامہ امریکہ سے ہوا ہے۔ پنجاب میں ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھروں کی ٹربائینیں امریکہ سے آنی ہیں۔ جنرل الیکٹرک نے ان کی فراہمی میں کچھ ہفتوں کی تاخیر کا بتا کر نون لیگ میں کرنٹ چھوڑ دیا ہے۔ یہ کچھ ہفتوں کی معمولی تاخیر ان بجلی گھروں کو دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد ہی چالو ہونے دے گی۔

کے پی میں سب سے دلچسپ صورتحال ہے۔ ہزارہ کو براستہ حویلیاں، اسلام آباد سے منسلک کرنے والی موٹر وے زوروشور سے بن رہی ہے۔ یہاں سے مسلم لیگ نون کو ووٹ ملتے ہیں۔ صوبائی حکومت جتنا ممکن ہے اتنا کام لمکانے کے لئے جی جان سے محنت کر رہی ہے۔ مانسہرہ میں زیر تعمیر سکھی کناری ہائیڈرو پراجیکٹ صوبائی حکومت کی شرارتوں کی وجہ سے ایک سال تاخیر سے بنے گا۔ مولانا فضل الرحمن جو منصوبے وفاقی حکومت سے جنوبی اضلاع کے لئے منظور کرا بیٹھے ہیں۔ وہاں صوبائی حکومت نے منصوبوں کے لئے درکار زمین کے حصول میں قانونی مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔

پرویز خٹک نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے کہ کالا باغ کو سیاسی ایشو بنانے پر ان کے حلقے میں کیسے ووٹ ملا کرتے تھے۔ وہ اب مغربی روٹ پر سیاست گرم کرنے چکر میں ہیں۔ اس کے لئے وہ سفارتی طور طریقوں کو نظرانداز کرکے چینی سفیر کو بھی اخباروں میں گھسیٹنے پر آمادہ ہیں۔

اس سب کچھ میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ کراچی سے پشاور تک گلگت سے گوادر تک ہم سب ایک ہیں۔ ایک جیسی تھکی ہوئی، ایک سی سازشی اور ایک سی اچھی سوچ رکھتے ہیں۔ سی پیک بن کے رہے گا۔ اس کے سنٹرل مشرقی مغربی سب روٹ بنیں گے۔ ہماری قسمت بدلے گی۔ ہم خوشحال ہونگے اور ترقی یافتہ بھی۔

تب ہماری یہ سیاسی سازشی انتظامی مہارتیں دنیا بھگتے گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments