قوم کی ساکھ ، دیوار برلن اور لاہور کی گلیاں


\"????????????????????????????????????\"لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے۔ اسلام آباد میں قوم کی منتخب قیادت ایک میز پر بیٹھی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ اپنے ہندوستانی ہم منصب کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایسے میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف ایک انٹرویو میں پاکستان کی قوم اور محب وطن افواج کے درمیان تفریق کھڑی کر کے پاکستان کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ وہ پاکستان کو جمہوریت کے لئے ناموزوں ملک قرار دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نو برس تک فوج کے سربراہ رہے۔ انہوں نے آئین سے روگردانی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔ انہوں نے قوم کی تائید رکھنے والی سیاسی قیادت پر ناروا حملے کئے۔ پاکستان کے شہریوں نے ریاست سے وفاداری کے ناگزیر تقاضے کے تحت پرویز مشرف کی ذات پر حملہ نہیں کیا، ان کے خلاف سیاسی جدوجہد کی، ان کے منعقد کردہ انتخابات میں حصہ لیا۔ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی خاطر تکلیف اٹھائی، جمہوریت کے لئے توہین برداشت کی، قید و بند کاٹی، دہشت گردی کی مزاحمت کرتے ہوئے جانیں دیں تاکہ پاکستان باوقار قوموں کی صف میں کھڑا ہوسکے۔ آج جب کہ ملک کے دفاع کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے اور عوام کے نمائندے افواج پاکستان کو اپنی مکمل تائید کا یقین دلا رہے ہیں، جنرل پرویز مشرف نے بے وقت کی راگنی چھیڑی ہے۔

پاکستان کا دفاع پاکستان کی سرحدوں پر بھی کیا جائے گا اور اس دھرتی پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے، چلچلاتی دھوپ میں محنت کرنے والے غریبوں کے حق حکمرانی کا دفاع بھی کیا جائے گا۔ پاکستان کا دفاع بندوق کی نالی سے بھی کیا جائے گا اور ووٹ کی پرچی سے بھی۔ جنرل پرویز مشرف فوج کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے قوم کی قیادت کرنا چاہی تھی، قوم نے انہیں اس اعزاز کا مستحق نہیں سمجھا۔ جنرل پرویز مشرف کسی قومی ادارے کی نہیں، غیر جمہوری سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ سوچ سب سے پہلے گورنر جنرل غلام محمد نے پیش \"berlin\"کی تھی۔ غلام محمد سرکاری ملازم تھے اور سیاست دانوں کو نااہل اور بدعنوان قرار دیتے تھے۔ انہوں نے ہماری دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی۔ دست خاص سے لکڑی کی سیاسی پتلیاں گھڑتے رہے۔ اسکندر مرزا نے انہیں ڈنڈا ڈولی کر کے گورنر جنرل ہاؤس سے نکالا۔ اسکندر مرزا نے 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین پر دستخط کئے تھے۔۔فروری 1959 میں انتخابات ہونا تھے۔ اسکندر مرزا نے اپنا منظور کردہ آئین توڑ دیا۔ بیس روز بعد جنرل ایوب خان نے آئین سے محروم صدرِپاکستان کے پاس رات گئے ایک وفد بھیجا۔ اسکندر مرزا ملک سے چلے گئے، ایوب خان نے اعلان کیا کہ جمہوریت پاکستان کے لئے موزوں نہیں ہے۔ پاکستان کے باشندوں نے فیصلہ کیا کہ جمہوریت کے بغیر پاکستان کا تصور محال ہے۔ ہم فاطمہ جناح کے جھنڈے تلے چلے۔ ہم نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا۔ ہم نے بھٹو صاحب پر اعتماد کیا، ہم نے بے نظیر بھٹو کو رہنما مانا، ہم نے نواز شریف کو قیادت کی ذمہ داری دی، ہم کسی کی ذات کے اسیر نہیں۔ ہمارا اختلاف صرف یہ تھا کہ قائداعظم نے جمہوریت کے اصول پر یہ ملک حاصل کیا تھا۔ جمہوریت کے ذریعے آزادی حاصل کرنے والے جمہوریت کے لئے نااہل کیسے ہوسکتے ہیں؟

محترم پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے فوج اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ 14 اگست 1947 کو ایک خود مختار مملکت کے طور پر پاکستان کی آزادی ہی گزشتہ ستر برس کی سیاسی کشمکش کا بنیادی استعارہ ہے۔ آزادی کے بعد عوام کے حق حکمرانی پر حملہ کرنے والوں \"berlinermauer\"کو آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار بیان کرنا چاہیے۔ آزادی لوگوں کے حق حکمرانی کے اصول پر مانگی گئی تھی۔ ملک کا دفاع جمہور کی حکمرانی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جنرل پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ جمہوریت ہمارے لئے موزوں نہیں۔ جنرل صاحب سے پوچھنا چاہئے کہ اکتوبر 2002 میں آپ نے کیا بحال کرنے کا اعلان کیا تھا؟ آپ تو نیو یارک اور لندن میں بتایا کرتے تھے کہ پاکستان میں دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ جمہوریت ہے۔ یا تو آپ جمہورت کا مطلب نہیں سمجھتے تھے یا آپ غلط بیانی کر رہے تھے۔ آپ نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ انتخابات جمہوری عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ جمہوریت پاکستان کے لئے موزوں نہیں تو آپ کی سیاسی جماعت کیا سیاسی متبادل پیش کرنا چاہتی ہے۔ پرویز مشرف تسلیم کرتے ہیں کہ فوج نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ پاکستان کی فوج ایک منظم ادارہ ہے، منظم ادارے اپنی قیادت کو دھوکہ نہیں دیا کرتے۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانی فوج نے نظم و ضبط برقرار رکھا۔ تاہم جنرل پرویز مشرف کو بتانا چاہئے کہ انہوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ پاکستان کی فوج جس قوم کا دفاع کرنے کی ذمہ دار ہے، \"berlin-1989\"جنرل صاحب نے اس قوم کو اعتماد کے قابل کیوں نہیں سمجھا۔ عوام اور فوج تو ایک قوم کی اکائی کے حصے ہیں۔ قوم کے بغیر فوج کا جواز نہیں اور فوج کے بغیر قوم کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی فوج آئین کی پابند ہے اور آئین جمہورت کو ملک کا واحد جائز نظام حکومت قرار دیتا ہے۔ جنرل صاحب ہماری فوج کو غیرضروری بحث میں کیوں گھسیٹتے ہیں؟ پاکستان کی فوج آئین کی بالادستی کی پابند ہے اور پاکستان کے عوام مسلح افواج کی حمایت کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں، عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیا، وہ پاکستانی قوم کے بارے میں حکم لگانے کا منصب نہیں رکھتے۔

آیئے ایک پرانا قصہ سنتے ہیں۔ 1961 میں برلن کے قلب میں ایک دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ موسیقی کا ایک معروف ٹکڑا ہے \” برلن کی گلیوں میں\”۔ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے دونوں طرف رہنے والے \”برلن کی گلیوں میں\” کی دھن سنائی دیتے ہی سناٹے میں آ جاتے تھے۔ وہ برلن کی گلیوں میں جمہوریت مانگتے تھے۔ انہیں برلن کی گلیوں میں دیوارقبول نہیں تھی۔ وہ دیوار پھاند کر جمہوریت کی تلاش میں نکلتے تھے۔ ان پر گولیاں برسائی جاتی تھیں۔ ان پر دیوار سے غداری کا الزام دیا جاتا تھا۔ قومی ریاست میں غداری ایک آئینی تصور ہے۔ یہ کسی نواب یا راجہ سے شخصی دھوکہ دہی نہیں ہوتی۔ قومی ریاست کے تین اصول ہیں، طے شدہ جغرافیہ، متعین شہریت اور شہریوں کی مساوات۔ یہ تینوں اصول صرف جمہوریت میں اپنا مکمل اظہار پاتے ہیں۔ برلن کی دیوار عبور کرنا حب الوطنی اور غداری کے درمیان لکیر \"lahore\"کو پار کرنا تھا۔ ہم پاکستان کے رہنے والے وطن سے محبت اور غداری کا مطلب جانتے ہیں۔ اس ملک سے محبت کرنے والے اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں، ہر قربانی دیں گے۔ لیکن اپنے حقِ حکمرانی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اپنے شہری حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم قوم کے بانی سے غداری نہیں کر سکتے۔ ہم نے قائد اعظم سے وعدہ کیا تھا کہ جمہوریت کے نام یر حاصل کیا گیا ملک جمہوریت سے چلائیں گے، جمہوریت کے نام پر وطن کا دفاع کریں گے اور اسی مورچے پر قومی وقار کی لڑائی لڑیں گے۔ قوم کا وقار محض بندوق کی نالی سے قائم نہیں کیا جاتا۔ جمہوریت شہریوں کی مساوات کے اصول اور اکثریت رائے کے طریقہ کار کا امتزاج ہے۔ ہماری معیشت، پارلیمنٹ اور قومی دفاع کی قوت عوام کی اکثریت سے حاصل کی جاتی ہے۔ ملک کی 97 فیصد آبادی قوت کا سرچشمہ ہے۔ پاکستان کا وقار ملک کی 3 فیصد اقلیت کے تشخص سے طے ہو گا۔ جس دن پاکستان کا ایک مسیحی شہری، ایک سندھی بھائی، ایک اردو بولنے والا مہاجر اور ایک بلوچی بہن پاکستان کی سرحدوں سے باہر کھڑے ہو کے اور سر اٹھا کے اعلان کریں گے کہ پاکستان کی ریاست غیر جانبدار ہے۔ ہمیں انصاف دیتی ہے، ادارے ہمیں تحفظ دیتے ہیں، ہم پاکستان میں برابر کے حکمران ہیں۔ اس روز پاکستان دنیا کے نقشے پر اپنی ساکھ کی جنگ جیت لے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، ہم اس ملک کا وقار ناقابلِ تسخیر بنانا چاہتے ہیں۔ ہم برلن کی دیوار کے غدار ہیں، ہم لاہور کی گلیوں میں خوشیاں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ہمیں پرویز مشرف سے اختلاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments