سیانے چوہے کی شادی اور ڈیل کرنے سے توبہ


گڈریے نے ہنستے ہوئے بھینس کی رسی چوہے کی گرد میں باندھ دی۔ چوہے نے گڈریے کو خدا حافظ کہا اور گھر کی طرف چلا۔ جیسے ہی رسی ٹائٹ ہوئی تو اچانک ایک جھٹکا لگا اور چوہا اڑتا ہوا دوسری سمت جا گرا۔ بھینس نے دوسری سمت ہرا بھرا گھاس دیکھ کر یوٹرن لے لیا تھا۔

چوہے کو اپنی مصیبت کا اندازہ ہو گیا تھا مگر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے گڈریوں کو دیکھ کر اس نے اپنے بدن سے مٹی جھاڑی اور کہنے لگا ”ٹاٹا اچھے لوگو۔ میں نے اب اس راستے سے گھر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کچھ لمبا تو ہے مگر زیادہ سایہ دار بھی ہے“۔ یہ کہہ کر سیانا چوہا نہایت وقار سے سر اٹھا کر بھینس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

چوہے نے خود کو تسلی دی ”جب بندہ بھینس پال لیتا ہے اور اسے چرانا بھی پڑتا ہے۔ بھینس کا پیٹ خوب بھرا ہو گا تو پھر ہی وہ دودھ دے گی۔ اور ویسے بھی میرے پاس وقت کی بھلا کیا کمی ہے؟ “ دن بھر وہ خود کو یونہی تسلیاں دیتا ہوا بھینس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا مگر چند گھنٹوں بعد وہ تھکن سے چور ہو چکا تھا۔ آخر کار بھینس ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی اور جگالی کرنے لگی۔

اتنی دیر میں ادھر سے ایک بارات گزری۔ دولہا اور اس کے ساتھی آگے نکل گئے تھے اور چند سست سے کہار دلہن کی ڈولی اٹھائے چل رہے تھے۔ گھنے درخت کا سایہ دیکھ کر وہ اس کے نیچے سستانے کو بیٹھ گئے اور کھانے پکانے کو چولہے جلانے لگے۔

”اتنی شان و شوکت والی شادی اور ہمارے کھانے کو صرف ابلے ہوئے چاول دیے ہیں۔ نہ تو گوشت ہے، نہ ہی نمک یا شکر۔ اگر ہم اس دلہن کی ڈولی کو کسی کھائی میں پھینک دیں تو پھر ان کنجوسوں کے ساتھ ٹھیک ہو گا۔ “ ایک کہار نے کہا۔

چوہا ہمدرد آواز بنا کر چیخا ”خدایا، یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ میری تمام ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔ میری بھینس لے لیں، اسے ذبح کریں اور پکا لیں۔ “
کہار بولے ”تمہاری بھینس؟ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ کوئی چوہا کسی بھینس کا مالک ہو؟ “

چوہے نے کہا ”سچ بات ہے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا لیکن تم لوگ خود دیکھ لو، کیا اس بھینس کے گلے میں بندھی رسی میرے پاس نہیں ہے؟ “
ایک پیٹو کہار چیخا ”مٹی ڈالو کہ رسی ہے یا نہیں ہے۔ چوہا مالک ہو یا نہ ہو، مجھے کھانے کے لئے گوشت چاہیے“۔
سب کہاروں نے بھینس کو پکڑ کر ذبح کیا، پکایا اور اس کا گوشت چٹ کر گئے۔ اس کے بعد انہوں نے بچا کھچا کھانا چوہے کو دیتے ہوئے کہا ”یہ لو ننھے چوہے، یہ تمہارا حصہ ہے“۔

چوہا غصے سے بولا ”یہ کیا بات ہوئی؟ میں تمہارا کھانا نہیں لوں گا۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنی سب سے بہترین بھینس جو دودھ کی بالٹیاں بھر دیتی تھی، اور جسے میں دن بھر چراتا رہا ہوں، چاولوں کی ایک رکابی کے بدلے دے دوں گا؟ میں ایک سیانا چوہا ہوں اور ہمیشہ بہترین ڈیل کرتا ہوں۔ میں نے ایک چھوٹی سی لکڑی کے بدلے آٹے کے پیڑے کی ڈیل کی، آٹے کے پیڑے کے بدلے مٹی کی بہترین ہنڈیا کی ڈیل کی، مٹی کی ہنڈیا کے بدلے ایک خوب پلی ہوئی بھینس کی ڈیل کی، اور اب بھینس کے بدلے میں یہ دلہن لوں گا۔ دلہن سے کم پر ڈیل نہیں ہو گی۔ “

کہاروں کا پیٹ بھر چکا تھا اور ان کا بھوک کی شدت سے ماؤف دماغ اب کام کر رہا تھا۔ انہوں نے اب سوچا کہ وہ ایک پرائی بھینس کاٹ کر کھا گئے ہیں، اس کا مالک آ گیا تو انہیں زندہ نہیں چھوڑے گا، اور اس سے پہلے دلہن کو کھائی میں پھِینکنے کا ارادہ بھی ظاہر کر چکے ہیں، تو انہیں اب بھیانک سزا ملے گی۔ یہ سوچتے ہی وہ ڈولی وہیں چھوڑ کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔

سیانا چوہا یہ دیکھ کر فخر سے سر اٹھائے ڈولی کی طرف بڑھا اور اس کا پردہ ایک طرف کر کے بہت میٹھی سی آواز میں دلہن سے مخاطب ہوا اور کہا ”محترمہ شرمائیں مت، اب باہر تشریف لے آئیں، آپ کا شوہر منتظر ہے کہ آپ کو اپنے گھر لے جائے“۔

دلہن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہنسے یا روئے، لیکن خود کو جنگل بیابان میں تنہا پا کر اس نے سوچا کہ کوئی نہ ہونے سے اچھا ہے چوہا ہی ساتھی ہو۔ چوہا اسے لے کر اپنے بل کی طرف روانہ ہوا۔
دلہن زیورات سے لدی پھندی تھی اور کوئی شہزادی دکھائی دے رہی تھی۔ چوہا خود کو شاباش دینے لگا ”واہ واہ، میں کتنا سیانا ہوں، میں کتنا خوش قسمت ہوں، میں کتنی اچھی ڈیل کرتا ہوں“۔

جب وہ بل کے سامنے پہنچے تو سیانے چوہے نے ایک طرف ہٹ کر دلہن کو راستہ دیا اور کہنے لگا ”محترمہ میرے غریب خانے میں خوش آمدید۔ اندر تشریف لائے۔ چونکہ راستہ کچھ اندھیرا ہے اس لئے میں آگے آگے آپ کو راستہ دکھاتا ہوا چلتا ہوں“۔

سیانا چوہا بل میں گھس گیا لیکن کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ دلہن پیچھے نہیں آئی تو اس نے اپنی ناک بل سے باہر نکالی اور بولا ”محترمہ، آپ میرے پیچھے کیوں نہیں آ رہی ہیں؟ اپنے شوہر کو اس طرح انتظار کروانا بری بات ہے“۔

دلہن ہنسنے لگی اور بولی ”سرتاج، میں اس چھوٹے سے سوراخ میں کیسے گھسوں؟ “

چوہے نے بڑی سی دلہن اور اپنے چھوٹے سے بل کو دیکھا، پھر شرمندگی مٹانے کو کھانسا اور کہنے لگا ”تمہاری بات میں کچھ وزن تو ہے۔ تم ضرورت سے زیادہ ہی پلی بڑھی ہو۔ مجھے تمہارے لئے کوئی جھونپڑا تعمیر کرنا ہو گا۔ آج رات تم اس درخت کے نیچے گزار لو، کل دیکھتے ہیں“۔

”مجھے بہت بھوک لگی ہے“۔ دلہن کراہی۔
”خدایا، آج کیا ہو گیا ہے، جس سے ملو وہ بھوکا ہے۔ اچھا ٹھہرو میں ایک منٹ میں کھانے کے لئے کچھ لاتا ہوں“ چوہا یہ کہہ کر اپنے بل میں گھس گیا اور چند لمحوں بعد مٹر کا ایک دانہ اٹھائے باہر آیا اور فاتحانہ انداز میں بولا ”یہ لو، یہ ایک بہترین کھانا ہے۔ خوب پیٹ بھر کر کھاؤ“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar