کراچی سے نیویارک تک: جالے اور دُھواں


اقبال کے جانے کے بعد لگا کہ کچھ غلطی ہے، کہیں پہ کوئی مسئلہ ہے۔ ہم کچھ کرنے سے رہ گئے۔ شاید پیچھے رہ گئے، کہیں پہ کچھ سمجھے بغیر، کچھ جانے بغیر۔

پھر اس کے خط آنے لگے، کبھی بھیا کے نام، کبھی امی کے نام اور کبھی ہم دونوں کے لیے۔ یہی لکھا ہوتا کہ کراچی میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اچھا نہیں ہورہا۔ امریکا میں تو ایسا ہوتا ہے، نیویارک میں اس طرح سے اسکول چلتے ہیں، اتنے کالج ہیں، ایسی یونیورسٹیاں ہیں، ایسا قانون ہے، ایسے حقوق ہیں، ایسی خوب صورتی ہے، جیسے نیویارک نہیں کوئی جنت ہے۔

پہلے ہمیں غصہ آیا، پھر ہنسی آنے لگی، نجانے کہاں کی بات کرتا ہے۔ کراچی میں تھوڑی اس طرح سے ہوسکتا ہے۔ کراچی کی بات اور ہے اور وہاں کی بات اور ہے، وہ دنیا الگ ہے، یہ دنیا اور ہے۔

اقبال کونوکری بھی اچھی مل گئی اور اس نے گھر پیسے بھی بھیجنے شروع کردیے تھے۔ ہمارے پیسے اللوں تللوں میں خرچ ہوتے، بھائی جان کی کمائی سے گھر چلتا اور اقبال کے پیسوں سے بہنوں کے جہیز تیار ہوئے تھے۔

پھر اقبال نے ہمیں فون پہ کہنا چھوڑدیا مگر اماں کو سمجھاتا رہتا کہ ہم دونوں غلط کاموں میں ہیں۔ ہمیں کہیں کہ یہ سب کچھ چھوڑدیں، یہ صحیح نہیں ہے، یہ زندگی نہیں ہے۔ اس طرح سے گزر ہوگی تو اچھی نہیں ہوگی۔ آہستہ آہستہ کچھ چلتا رہا۔ وہ کہتا رہا، ہم سنتے رہے، ہنستے رہے۔ پاسپورٹ ملنے والا ہے، پاسپورٹ مل گیا ہے۔ میں امریکی شہری ہوگیا ہوں۔ پھر اس نے ہم دونوں سے فون پہ بات کی کہ ہم دونوں بھی امریکا چلے آئیں، وہ ہمیں اسپانسر کرسکتا ہے۔

ہم امریکا میں کیا کریں گے؟ ہم تو لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے، کلاشنکوف چلاسکتے تھے، ماؤزر، ٹی ٹی اور ایل ایم جی سے کھیل سکتے تھے۔ گولی دیکھ کر بتاسکتے تھے کہ کس قسم کے پستول سے نکلی ہے، کیا کرسکتی ہے۔ ہمارا امریکا میں کیا کام ہے، ہمیں کون نوکری دے گا ہڑتال کرانے کے لیے، بسیں جلانے کے لیے، اغوا اور موت کی دھمکیاں پہنچانے کے لیے۔

شاید یہی وقت تھا، جب پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اقبال ایک بڑی دوڑ میں شامل ہوکر آگے بہت آگے نکل گیا ہے۔ یہ سیدھی، لمبی اور چڑھائی پہ چڑھنے والی دوڑ تو کراچی میں شروع ہی نہیں ہوئی۔ یہاں تو صرف دائرے ہیں، گول چکر، ان دائروں میں ہی گھومنا ہے اور ان دائروں میں مزید دائرے بن جاتے ہیں، کون کس دائرے میں ہے، کسی کو پتا نہیں ہوتا ہے۔ ان دائروں کا سوچ سوچ کر میرا سر گھومنے لگا تھا۔ کبھی کسی چکر میں، کبھی کسی دائرے میں، کبھی کسی چکر سے باہر کسی اور دائرے میں۔

اقبال کا ہر فون، ہر خط ان دائروں کو مزید الجھا دیتا۔ امریکا سے کسی آنے والے کے ہاتھ اقبال نے تصویروں کا البم بھیجا۔ اقبال بڑی بڑی، اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان، اقبال خوب صورت بازاروں میں، اقبال گوری چٹی لڑکیوں کے ساتھ ہنستا ہوا، اقبال کارچلاتے ہوئے، اقبال سمندر کے کنارے بھیگا ہوا۔ اقبال ہڈسن دریا میں بوٹ چلاتا ہوا، اقبال آزادی کے مجسمے کے پیروں پہ بیٹھا ہوا، اقبال ایمپائراسٹیٹ بلڈنگ کی چھت پہ، اقبال ٹریڈ سینٹر کی دور بینوں میں جھانکتا ہوا، اقبال سینٹرل پارک میں دوڑتا ہوا، اقبال نیویارک کی مسجد میں، اقبال پاکستانی چاٹ کی دکان پہ۔

پہلی دفعہ ان تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے ہمارے دائرے کسی مکڑے کے جالے ہیں، دائروں کا کوئی سرا نہیں ہے۔ سارے الجھے ہوئے ایک تنظیم کے ساتھ جالوں میں گھسنا آسان مگر نکلنا ناممکن شاید۔ آغاز تو تھا، ختم کا کچھ پتا نہیں ہے۔

بہت سوچ سمجھ کر ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب مزید ان راستوں پہ نہیں چلیں گے۔ ہم تھک گئے تھے، بہت تھک گئے تھے۔ اب تو چھایا چاہیے، کسی بہت ہی گھنے درخت کے نیچے، جس کا سایہ کبھی بھی ختم نہ ہو۔ گڑیا کی شادی کے موقع پر ہی ہم نے اپنے فیصلے سے بڑوں کو آگاہ کردیا مگر ہم یہ بھول گئے کہ فیصلے کرنے کا حق تو ہم پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔

ہمیں سمجھایا گیا، روکا گیا، بتایا گیا کہ اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ ہماری ضرورت ہے، ہم اس طرح سے نہیں جاسکتے ہیں، اگر اس طرح سے لوگ جانے لگے تو پھر شہر میں رہ کون جائے گا؟ کون چلائے گا یہ نظام؟

ہم نہیں مانے، ہمارا فیصلہ اٹل تھا، اسی اٹل فیصلے کے جواب میں تحفہ آیا، ٹکڑوں ٹکڑوں میں کٹا ہوا، حصوں بخروں میں بٹا ہوا۔ جمال بھائی کی لاش احتیاط سے قالین میں لپیٹ کر شادی والے دن بھیجی گئی تھی۔

سادگی سے گڑیا کی شادی کردی گئی، ڈھائی لاکھ میں امریکا کا ویزا لگا اور ایک روز خاموشی سے ڈرتے ڈرتے میں نیویارک پہنچ گیا۔

نیویارک میرے خوابوں سے بھی خوبصورت اور اقبال کی تصویروں سے بھی زیادہ حسین اور میری امیدوں سے بھی زیادہ اچھا نکلا۔ یہاں کی سڑکیں، عمارتیں، رہنے کے گھر، پارک، اسکول، کالج، بازار، دریا، سمندر اور نجانے کیا کیا کچھ۔

شروع میں، میں اقبال کے اپارٹمنٹ میں ہی رہا۔ وہ خوش تھا اور خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔ شروع کے کئی دن ہم لوگ بچھڑے ہوئے کراچی کی باتیں کرتے رہے، جمال بھائی کی باتیں کرتے رہے، میں اسے جمال بھائی کے قصے سناتا رہا، میں کہتا رہا، وہ سنتا رہا۔ اس کی آنکھیں خشک رہیں مگر مجھے پتا تھا کہ اس کا دل رو رہا ہے۔

ایک لڑکی سے اقبال کی دوستی تھی۔ ربیکا نام تھا اس کا۔ اس نے جھینپتے ہوئے، شرماتے ہوئے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرے گا۔ اس کے دفتر میں ہی کام کرتی تھی وہ۔ امی تو مان جائیں گی نا، اس نے بڑے بھول پن سے پوچھا تھا مجھ سے۔

کیوں نہیں مانیں گی، کیا برائی ہے ربیکا میں؟ خوبصورت ہے، تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے بھی ہو، پیار بھی کرتے ہو، ساتھ رہنے کے وعدے بھی کرلیے ہیں تم نے، کراچی واپس جانا بھی نہیں ہے۔ جب نیا ملک ہے، نیا شہر ہے تو دستور بھی نئے ہوں گے، میں نے اسے یقین دہانی کرائی تھی۔

اقبال اور ربیکا ان دونوں چھوٹوں نے مجھے چھوٹے بھائی کی طرح سنبھال سنبھال کر نیویارک میں زندہ رہنے کا طریقہ سکھایا۔ ایک ایک بات سمجھائی۔ ویزا حاصل کرنے کے لیے میرے پاس میٹرک سے لے کر ایم اے تک جعلی سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں تھیں مگر مجھے آتا کچھ نہیں تھا، جو مجھے آتا تھا وہ نیویارک میں کر نہیں سکتا تھا۔

وہ ساری ڈگریاں، سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ جلانے کے بعد ربیکا کے جاننے والے ایک یہودی وکیل کے ذریعے میں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ مجھے رہنے اور کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ میں نے نئی زندگی شروع کی۔ گھر میں مجھے وہ دونوں پڑھاتے، باہر میں نے خود سیکھنا تھا، مجھے ایک اسٹور میں نوکری مل گئی۔

یکایک مجھے احساس ہوا کہ میں دائروں سے نکل گیا ہوں، گول چکر ختم ہوچکے ہیں، وہ خوف ناک مکوڑے یکایک نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ زندگی مکڑے کے جالے سے سوا بھی ہوسکتی ہے۔ دائرے ختم ہوکر سیدھی لکیر بھی ہوسکتے ہیں اور سیدھا راستہ چڑھائی پہ بھی جاسکتا ہے اور چڑھائی اوپر بہت اوپر پہنچاسکتی ہے۔

جس دن مجھے احساس ہوا کہ میں ان دائروں سے نکل گیا ہوں، اسی دن میں اقبال کے اپارٹمنٹ سے نکل کر اپنے علیحدہ اپارٹمنٹ میں آگیا۔ ایک چھوٹا سا گھر جہاں میں اکیلا تھا۔ نیویارک میں زندہ رہنے کے لیے ایک لمبی دوڑ میں شامل ہوکر اوپر بہت اوپر بلندی پہ پہنچنے کے لیے۔

زندگی بہل گئی۔ میں کام کرتا، کھاتا اور پیسے خرچ کرتا تھا۔ اقبال یا ربیکا نے نہیں کہا تھا کہ میں ان کا فلیٹ چھوڑدوں۔ میں نے خود بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے فلیٹ سے باہر نکلوں گا۔ کراچی سے یہی سوچ کر نکلا تھا کہ اقبال کے ساتھ رہوں گا اور وہاں سے ہی کام پہ جایا کروں گا، پھر آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ مگر نیویارک عجیب شہر ہے جب تک آپ کماتے نہیں ہیں، آپ ایک پیراسائٹ کی طرح ہوتے ہیں، ہمیشہ کسی نہ کسی پہ ایک بوجھ، لیکن جیسے ہی آپ کی جیبوں میں اپنی کمائی آنی شروع ہوتی ہے، ویسے ہی آپ کی زندگی دوسرے مطالبے سامنے رکھ دیتی ہے۔ اپنا کمرہ، اپنا فلیٹ، اپنا وقت، اپنے مسائل اور سب کچھ اپنا! یہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3