میری پیاری جشودا بین! نریندر مودی جی کی دھرم پتنی!


\"noorulhudaمیری پیاری جشودا بین!

اُمید ہے کہ جِندَگی کی دھارا اُسی طرح دھیرے دھیرے بہتی ہوگی ابھی بھی، جیسی پچھلے چونسٹھ برسوں سے بہتی چلی آ رہی ہے! یا یوں کہوں کہ جیسی مودی جی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد پچھلے اڑتالیس سال کے سمے میں بیت رہی ہے! تجھے مودی جی نے کبھی دھرم پتنی سوئیکار نہیں کیا تھا۔ ان کے پردھان منتری بننے تک سنسار کی نظروں میں وہ برہمچاری تھے۔ اس سے بڑا دکھ ایک پتنی کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کا پتی دیو اسے قبول کرنے سے انکار کر دے اور خود راجدھانی کے سنگھاسن پر بیٹھا اور پتنی گجرات کی گمنام گلیوں میں جندگی کو کھینچتی پھر رہی ہو! اور کاغذ پر آج بھی پردھان منتری کی پتنی لکھی جا رہی ہو!

یہ جو کئی دنوں سے سیماؤں کے دونوں دوار یُدھ بپھرا کھڑا ہے اور نفرتوں کا الاؤ بھڑک بھڑک اُٹھتا ہے، اسی کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر تیرا ہی خیال آتا رہا ہے۔

ہر بار سوچا کی کہ تو ہر صبح اُسی طرح پانچ بجے اُٹھتی ہوگی اور پوُجا پاٹھ سے اپنے دن کی شروعات کرتی ہوگی! اُسی طرح توُ ہر دن مندر کا پھیرا بھی لگاتی ہوگی اور بنا کسی آہٹ، چُپ ہونٹوں کے ساتھ مندر اور گھر کے بیچ کا راستہ بھی طے کرتی ہوگی، ان کمانڈوز سے انجان بنی، جو تیرے پیچھے پیچھے چل کر گاؤں والوں میں تیرا مذاق بناتے ہوں گے کہ دیکھو دیکھو بھارت جیسے مہان دیش کے پردھان منتری کی پتنی جا رہی ہے! راستے میں سورج اُسی طرح تیرے منگل سوُتر میں اپنی کوئی ایک آدھ ادھوری کرن ڈال ہی دیتا ہوگا اور تیری چاندی کے بالوں سے بے ترتیب ہوتی مانگ میں مودی جی کے نام کا سندور ہر روز سورج کی کرنوں کے انوسار اپنا نیا رنگ پکڑتا ہوگا!

کبھی پھیکا اور کبھی تیکھا!

پر جانے تجھے خبر بھی ہے کہ نہیں کہ بھارت اور پاکستان ایک نئے مہا بھاری یُدھ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں جس میں جانے کیا کیا \"yashuda\"کچھ بھسم ہو جائے!

شاید تیرا بھی گاؤں!

شاید میرا بھی گاؤں!

یہ بھی سوچا کی کہ جانے اپنے چھوٹے سے گھر کی زرد پڑ چکی دیوار کے طاقچے پر رکھے پرانے ڈبہ سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر، میڈیا میں تو چھِڑ ہی چکی مہا بھاری لڑائی کا منظر توُ دیکھتی بھی ہوگی کہ نہیں! اور اس لڑائی میں مودی جی کی للکار اور دھمکیاں تیری نظر سے گزرتی بھی ہوں گی کہ نہیں کہ جن میں رچا ہوا گھمنڈ، بھارت دیش کی مہانتا کم، مودی جی کا ذاتی غرور اور غصّہ اور آنے والے چناؤ میں جیت کا داؤ پیچ زیادہ دکھاتا ہے!

یہ دیکھ دیکھ کر ہی تیرا خیال بار بار آتا رہا ہے مجھے اور اس کے ساتھ ساتھ مَرَد جات کے برتاؤ اور اس کے اندر کے ٹھہراؤ اور اُبال اور اس کی سوچ کے اُتار چڑھاؤ کے کئی پرَت مجھ پر کھلتے چلے گئے ہیں۔

پیاری جشودا بین\"Mysore:!

یہ بات سمجھ آئی کہ پتنی نام کا رشتہ ایسے ہی نہیں مَرَد کی جِندَگی کی نیّا کھینچنے کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ نیّا، مَرَد اور ساگر، ان کا آپس میں کیسا ہی گہرا سمبندھ سہی پر گر پتنی نام کی اِک نازک سی پتوار مَرَد کے ہاتھ میں نہیں تو کنارے تک کوئی پہنچ بھی نہیں۔

مرَد جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا ہے اور ڈال ڈال پر بسیرا کرتا ہے، اسے کیا خبر کہ پریم کس طرح من کو مُٹھی میں جکڑتا ہے اور ایک باریک سی ڈور میں بندھا پریم کا بندھن اُس پورے وجود کو کیسے پیچھے اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے، جو وجود اپنی انا کی جیت کے لیے بڑے بڑے یُدھ برپا کرتا ہے اور انسانی خون کے دریا بہا دینے پر تُلا ہوا ہوتا ہے!

ہاں میری پیاری جشودا بین! ۔۔۔ یہ پتنی ہی ہوتی ہے، جو مَرَد کے لیے گھروندہ بناتی ہے۔ چاہے وہ تیرے گھروندے جیسا چھوٹا سا، بد رنگ ہو چکی چند دیواروں پر کھڑا ہوا، کونے میں رکھے، چھوٹے سے بوسیدہ نیلے فرج اور ڈبہ سے ٹی وی اور ضرورت کی کچھ ٹوٹی پھوٹی چیزوں سے تھوڑا سا بھرا ہوا اور تھوڑا سا بکھرا ہوا گھروندہ ہی کیوں نہ ہو! اور پتنی ہی اس گھروندے کے چھوٹے سے آنگن میں پریم کا وہ بیج بوتی ہے جو اس کے بچوں کی صورت پھل پھول رہا ہوتا ہے۔ جیسے آنگن کی کیاریوں میں کھل اُٹھے پھول اور ننھے پودے جو پتلی پتلی سی ٹہنیاں پھیلاتے ہوئے اپنا قد نکال رہے ہوں! یہ ہے وہ پریم بندھن جس کی نازک اور باریک سی ڈور مَرَد کو سنسار میں برپا طاقت کی \"yashoda-1\"کھینچا تانی سے کھینچ کر اس گھروندے سے جوڑ دیتی ہے۔ دنیا کے گولے سے اسے پریم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس گولے پر اس کا اپنا گھروندہ بھی بستا ہے۔ انجان انسانوں تک کے ساتھ ایسا پریم سمبندھ جُڑ جاتا ہے اس کا کہ ہر انسان کے چہرے میں اسے اپنے بچوں کا چہرہ دِکھتا ہے جو اس کے آنگن میں انتظار کے دیے جلائے، گھر کا دروازہ کھولے بیٹھے ہوں گے کہ کب وہ آتا ہے کہ وہ اس کی ٹانگوں سے یوں لپٹ جائیں، جیسے شام ڈھلے کے پرندے گھنے درخت کی ٹہنیوں پر مل بیٹھتے ہیں!

ایسا ہی ہوتا نا وہ گھروندہ بھی جشودا بین، اگر مودی جی تجھے شادی کے بندھن میں جوڑ کر اور ماتھے میں سندور بھر کر اور تیرے گلے میں منگل سوُتر نام کی زنجیر ڈالنے کے بعد تجھے ٹھکرا کر راج نیتی سرکس کے رِنگ ماسٹر بننے نہ نکل جاتے، جس سرکس کے موت کے کنویں سے آج بھی تیرے گجرات کے جل چکے انسانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔

میری پیاری جشودا بین!

پتی اور پتنی کے شریر کا مِلن عیاشی نہیں ہے کہ مودی جی بھارتیہ جنتا پر تجھ سے اپنے تیاگ کو اپنی قربانی کا احسان کہہ کر جتلاتے رہے ہیں! پتی اور پتنی کے شریر کا مِلن ہی نئے انسانوں کی تخلیق کا کارن بنتا ہے اور نئے انسانوں کی تخلیق ہی، یُدھ میں اُترے بپھرے گھوڑے جیسے مَرَد کو تن، من اور آتما سمیت انسان کے روپ میں ڈھالتی ہے۔ تب ہی وہ کسی کا گھروندہ جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتا! تب ہی کسی بچے کا اناتھ ہونا سہہ نہیں سکتا! نہ ہی انسانوں کو زندہ جلتا ہوا سہن کر پاتا ہے! نہ ہی انسانی بستیوں پر راکھشس بن کر ٹوٹتا ہے! نہ انسانی خون کی ہولی کھیل سکتا ہے اور نہ ہی انسانی خون جلا کر دیوالی منا سکتا ہے!

پر افسوس جشودا بین! مودی جی نے تجھے سوئیکار تو نہ کیا بلکہ تجھے یوں زمانے سے چھپا دیا جیسے کوئی اپنا پاپ چھپاتا ہے! اتنا کٹھور \"yashoda-794630\"من! اور وہ بھی ایک نیتا کا من! دیش کے سب سے اونچے سنگھاسن پر بیٹھے لیڈر کا من! دیش اور جنتا پر راج کرتے پردھان منتری کا من! اور اتنا کٹھور کہ تجھ جیسی پتی ورتا کو پاپ کی طرح چھپائے رکھا، جس نے اپنی ساری جوانی ساوتری بن کر پتی کے نام نہ صرف دان کر دی بلکہ جنتا میں پتی کا مان رکھنے کے لیے خود بھی اپنے ہونٹ سی کر رکھے! جس نے کسی کو خبر ہی نہ پڑنے دی کہ وہ جو دبلی پتلی سی، غریبی سے کھُرچے چہرے والی، بوسیدہ سی ساڑھی میں اپنا آپ بمشکل ڈھانپے ہوئے، لوگوں سے نظریں چُرائے، پرانی چپلیں تھک چکے پیروں سے کھینچتی، سرکاری اسکول ٹیچر ہر صبح سڑک پر سے گزرتی ہے، اسی گجرات کے مکھیہ منتری نریندر مودی کی پتنی ہے!

پر جب تیری طرح کی عورت بن کر سوچتی ہوں تو یہ بھی خیال آتا ہے جشودا بین کہ جب تیرا پتی اسی گجرات کا مکھیہ منتری تھا اور اس کی حکمرانی میں گجرات کے ڈھائی ہزار مسلمانوں کو جب زندہ جلایا جا رہا تھا اور کاٹا جا رہا تھا اور ان کی تجھ جیسی دھان پان سی عورتوں کی عزت لوٹی جا رہی تھی اور گھروں کو آگ لگائی جا رہی تھی، تب تیرا من یقیناً نہیں مانا ہوگا کہ کوئی تجھے اس بے رحم مکھیہ منتری کی پتنی کی حیثیت سے جانے! یا پھر شاید یہ بھی سوچا کرتی ہوگی توُ کہ اگر یہ آدمی میرے ساتھ جِندَگی بِتا رہا ہوتا تو میں اس کی گود میں اس کا بچہ ڈال کر کہتی کہ اپنا بچہ دیکھ ۔۔۔۔ پھر سمجھ کہ انسانی جان کتنی قیمتی ہے!

پر یہی تو کڑوا سچ ہے جشودا بین کہ تیرے پتی نے انسانوں پر حکمرانی کا کھیل تو کھیلا پر کبھی انسان کو چھوُ کر نہیں دیکھا!

گجرات کے مکھیہ منتری ہاؤس سے لے کر راجدھانی کے پردھان منتری ہاؤس تک میں بسیرا کیا مگر یہ نہیں جان پایا کہ انسان کے خون پسینے سے گُندھے گھروندے کا کیا مول ہے!

پوری جِندَگی راج نیتی کو دے کر نیتا تو بنا پر باپو نہ بن سکا جنتا کا! باپو، جو دھرم کی اونچ نیچ سے بھی اوپر اُٹھ کر جنتا کو دیکھے۔\"yashoda\"

میری پیاری جشودا بین! مجھے نہیں پتہ کہ تیرے چھوٹے سے ڈبہ ٹی وی کی رسائی کہاں تک ہے اور دنیا تجھے اس کی چھوٹی سی اسکرین پر کہاں سے کہاں تک دکھتی ہے اور رات رات بھر کی تنہائی کے آنسو تیری نظر کو کس نمبر کے چشمے تک پہنچا چکے ہیں! یوں بھی چودہ ہزار روپے کی پینشن میں تو آدمی اس عمر کی صحت نہیں سنبھال سکتا، دنیا سے جُڑنے کا سامان کیا کر پائے گا! ہاں مگر پتی کو اس چھوٹے سے اسکرین پر چھپ چھپ کر دیکھنے سے خود کو روک نہیں پاتی ہوگی توُ! کشمیریوں پر اس کا غصّہ دیکھ کر تو بھی کشمیریوں پر کچھ نہ کچھ ناراض تو ہوتی ہی ہوگی کہ وہ تیرے پتی کو کتنا ستاتے ہیں اور چین سے حکمرانی نہیں کرنے دیتے! یہ جو ہر صبح تو مندر جاتی ہے، پتی کے لیے پرارتھنا ہی تو تیری پوُجا بن چکی ہوگی!

میری پیاری جشودابین! اب توُ مجھ سے لاکھ چھپائے پر ہوں تو میں بھی عورت ہی نا! ایک پتی ورتا کے اندر کا معاملہ کیسے نہ سمجھ پاؤں گی! مگر یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر تجھے کوئی تیرے ٹی وی کی اسکرین پر چھروں سے چھلنی ہوتے کشمیریوں کے چہرے اور خون بھری اندھی ہو چکی آنکھیں دکھا دے تو تیری آنکھوں میں ابھی بھی بچ رہ گئے کچھ آنسو کشمیریوں کے لیے نہ سہی، پر اپنے پتی کی کٹھورتا پر ضرور ڈھلک آئیں گے کہ اس شخص کے انتظار میں میں نے اپنی جوانی کی راتیں آنسوؤں سے بھگو دیں، جس کے حکم پر کشمیریوں کی آنکھوں کو چھروں سے خونم خون اور اندھا کیا جا رہا ہے!

پر بات وہیں آ کر ٹھہر جاتی ہے جشودا بین! کہ مَرَد کے کٹھور من کو دھرتی کی نرم مٹی سے دوبارہ گوندھنے کے لیے عورت کے ہاتھ چاہیے ہوتے ہیں، جو مودی جی کو نصیب نہ ہوئے! مودی جی کے برتاؤ کا کڑوا پن اور من کی کٹھورتا دیکھ کر ہی مجھے پہلی بار گاندھی جی کی عورت کے ساتھ قربت سمجھ میں آئی کہ انہوں نے اپنے اندر کے مَرَد کی آتما اور من کی نازک سی ڈور عورت کے ہاتھ میں دے دی تھی کہ جو انہیں کھینچتی ہوئی اُس خونی اور بپھرے ہوئے دور میں اہنسا کی طرف لے جائے اور انہیں انسانوں کے ساتھ پریم بندھن میں جوڑے رکھے!

انسانوں کے ساتھ پریم بندھن جو نیتا کو جنتا کا باپوُ بنا دیتا ہے۔\"yashod-modi\"

پر میری پیاری جشودا بین! اب بہت دیر ہو چکی شاید! سوائے اس کے تجھے کیا لکھوں کہ عورت کے حصّے کی جِندَگی ویسے بھی اس کا مَرَد جیتا ہے پر اگر عورت کے سنگ گزارے تو دھرتی آباد ہوتی رہے گی اور اگر تیرے پتی کی طرح عورت کو ٹھکرا کر طاقت کے سرکش گھوڑے پر تنہا سواری کرے گا تو دھرتی خون سے یونہی رنگی جاتی رہے گی!

ہاں مگر ایک بِنتی ہے تجھ سے تیری اس ان دیکھی سکھی کی کہ کل صبح جب تو اپنے پتی کے لیے پرارتھنا کرنے مندر جائے تو اوپر والے سے یہ پرارتھنا کرنا بھی نہ بھولنا کہ وہ دھرتی کے اس گولے کو خون کی ہولی کھیلنے والوں سے بچائے، جس گولے پر تیرا بھی گاؤں ہے اور میرا بھی گاؤں ہے۔

فقط تیری

سکھی

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments