بر صغیر کے ایٹمی مرغے


\"mehwish\"سنا ہے جنگ کی آمد آمد ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کمر کس چکے ہیں نیز بیان بازی زور و شور سے جاری ہے۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کی مانیں تو بس کسی بھی وقت غوری اور اگنی میزائل ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کو ہیں۔ کہیں الفاظ کے نشتر ہیں تو کہیں جذبات کے۔ کہیں فقرے کسے جا رہے ہیں تو کہیں گیڈر بھبھکیاں۔ بس مت پوچھئے، جنگ نہ ہوگئی کوئی تہوار ہوگئی۔ ویسے بھی آج کل پاکستان اور ہندستان میں جنگ اور جدل کے تہوار منانا ہی زیادہ رائج ہیں۔ بسنت تو ہمارے ملک میں منع ہوگئی۔ ادھر کسی کو گائے کے گوشت کی بریانی کھانے کی خوشی میں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ تو بہتر ہے جنگ ہی کو تہوار بنا کے منا لیں ہم سب۔

یہ بھی سنا ہے کہ اس بد بخت ماحول میں ہندوستان نے پاکستانی اداکاروں کو ہندوستان سے نکلنے کا کہا ہے اور پاکستان میں ہندستانی مواد کو نشر کرنے سے روکا جا چکا ہے۔ اب ساس بہو والے ڈرامے صرف پاکستانی دیکھئے۔ اور ہندوستان بس فرحان اختر سے کام چلائے اور فواد خان کو بھول جائے۔

کل ہی مملکت شام سے ایک ویڈیو نشر ہوئی۔ اس میں ایک چھوٹا سا بچہ رو رو کر ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ چہرے پہ مٹی اور لہو۔ اس کو دلاسہ دینے والا ایک نرس تھا جس نے اس بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ بچہ اس کی گود سے نہ اترتا تھا، روتا چلاتا تھا مگر گود سے نہ اترتا تھا۔ اس کے ہمراہ ایک اور بچہ بھی تھا۔ وہ بچہ بھی لہو لہان تھا۔ دوسرا ڈاکٹر اس کی ہڈیاں تلاش کر رہا تھا کہ ٹوٹی تو نہیں۔ یہ 30 سیکنڈ کی ویڈیو دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آگیا۔

دل تو چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر آواز دوں کہ ان ایوانوں میں بیٹھے، ٹھنڈے کمرے اور ٹھنڈے پانی کے گلاسوں کو سامنے رکھے لفظوں کے ہیر پھیر کا کاروبار کرنے والے پتھر دل، ضمیر فروشوں کو کہ اس ویڈیو کو دیکھو، دیکھو تمہارا جنگی جنون کیا کر رہا ہے۔ کتنی زندگیاں تباہ کر رہا ہے۔ دل چاہ رہا تھا پاکستان اور ہندوستان کے سورماؤں کو دکھاؤں کہ دیکھو! یہ ہے جنگ کا نتیجہ۔ دیکھو یہ ہیں بلکتے روتے سسکتے ہوئے بچے جن کا ماضی جنگ مٹا دیتی ہے اور جن کا مستقل جنگ بجھا دیتی ہے۔ اور جن کا لہو لہو حال ہم سب کے سامنے ہے۔

شام میں ہونے والے ظلم اور مشکلات کو دیکھ کر بھی کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ چلئے شام تو بہت دور ہے۔ جنگ کا جو اثر بر صغیر کی معیشت اور سیاست پہ ہوا ہے اس سے بھی سبق نہیں سیکھا۔ ہندستانی فلمیں جو پاکستان میں سب ہی دیکھتے ہیں سینما انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ضروری تھیں اور پاکستانی سینما آہستہ آہستہ جڑ پکڑ بھی رہا ہے۔ مگر معیشت، عقل، مستقبل اور سینما کی زندگی سے جنگ لڑنے والوں کو کیا کام؟ بم پھٹنا چاہیے، خون بہنا چاہیے، خاندان کا خاندان ختم ہونا ضروری ہے۔ توڑ پھوڑ ضروری ہے، دل آزاری ضروری ہے۔ تفریق ضروری ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو پڑوسی مل جل کر رہیں اور \’تیرے کتنے مرے، میرے کتنے مرے\’ کی عددی تجارت کی بجائے سبزی اور کپاس کی تجارت کریں۔ بم اور بارود کے مظاہر کی بجائے موسیقی اور ادب کی محفل یا مشاعرے کریں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟ نہیں نہیں! اس میں کسی کا فائدہ نہیں۔ نسلیں آباد کرنے میں کون سا فائدہ ہے۔ عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں؟ اس میں کس کا فائدہ ہے؟ ہاں اگر جنگ کریں اور دشمن کو بڑھکیں مار مار کر ہلاک کر دیں تو ملک کا نام کتنا روشن ہو!

کیا اس خطے کے لئے امن اتنا ہی ناممکن ہے؟ کیا واقعی ہندوستان اتنا کم ظرف اور چھوٹے دل کا ہے کہ پاکستانی اداکاروں کو واپس بھیج کر وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں ہندوستانی مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال قائم کر رہا ہے؟ کیا پاکستان واقعی سمجھتا ہے کہ جنگی بیانات سے اس کے لاکھوں بچے جو سکول نہیں جا سکتے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کریں گے؟ کیا اس سے ان کی واہ واہ ہوگی؟ پاکستان کے دور دراز گاؤں دیہاتوں میں اسکول نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، ہسپتال نہیں، اور کچھ علاقوں میں تو سڑکوں کی رسائی تک نہیں۔ ہاں مگر ہمارے پاس بدیسی ٹینک ہیں، امریکی ایف 16 طیارے ہیں، روسی بندوقیں ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کے بیوی بچے بھوکے مر رہے ہوں اور اس کے گھر میں صرف ایک مرغا ہو مگر وہ اسی مرغے کو پڑوسی کے مرغے سے لڑانے پہ تلا ہو۔ اور محلے میں اپنی عزت اس طرح بیان کرے \’ الله کا بڑا کرم ہے، میں اپنے مرغے کو اپنے بچوں سے زیادہ اچھا کھانا کھلاتا ہوں!\”

یہ حکمران، یہ بڑے بڑے لوگ جو بڑی بڑی سیٹوں پہ براجمان ہیں، جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ ہم منہ توڑ جواب دیں گے، ہم دہشت گردوں کو سبق سکھا دیں گے۔ کبھی دہلی تو کبھی اسلام آباد کی ہواؤں میں اڑاتے تباہی اور بربادی کے پیغامات دیتے یہ رہنما، یہ اتنی ڈھٹائی سے کیسے ایسی باتیں کر لیتے ہیں؟ صرف اس لئے کیونکہ ان کے اپنے بچے امریکا اور لندن میں بیٹھے انگریزوں کے ساتھ ہندوستانی فلموں پہ تبصرے کر رہے ہیں۔ مگر ملک کے غریب بچے یا اسکول سے محروم ہوں، یا جان سے جائیں؟ کیا یہ اس لئے جنگ کا جواب جنگ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا بھی جنگ و جدل پہ یقین رکھتے تھے؟ یا ان کے پاس شام، عراق اور افغانستان کے بچوں کی تصویریں نہیں پہنچتی ہیں؟ کیا ایک منٹ کے لئے بھی ان کے دل میں یہ سوال نہیں اٹھتا کہ آج اگر میرا بیٹا یا بیٹی جنگ میں لڑنے والا ہوتا یا آج اگر میرے بچوں کو جنگ کے اثرات سے خطرہ ہوتا تو کیا تب بھی میں کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کا ہی خون بہاتا؟ یا پاکستان کی عظمت کو سلامت رکھنے کے لئے پاکستانی جوانوں کے مستقبل کی بازی لگاتا؟ یا جس \’rising India \’ کی بات پوری دنیا کر رہی ہے کیا اس میں بھی سطح غربت سے نچلی زندگی بسر کرنے والے تیس فیصد لوگ بھی اس جنگ کا خیر مقدم کریں گے؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ جتنا روپیہ پیسہ جنگ اور جنگی ساز و سامان میں خرچ ہو رہا ہے اتنا ہی پیسہ اگر ان کو چھت فراہم کرنے میں لگا دیا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا؟

اے پاکستانی اور ہندوستانی سربراہو! اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھو، ان پہ کیا جالے پڑ گئے ہیں؟ یا وہ پتھر کے ہوگئے ہیں؟ کیا جنگ ہی آخری راستہ رہ گیا ہے؟ کیا اس راستے کو پچھلے کئی برسوں سے آزما کر نہ دیکھا تم سب نے؟ کیا حاصل ہوا؟ سب کا سب وہیں کا وہیں ہے۔

اس لئے کیونکہ جنگ میں کبھی کسی کی جیت نہیں ہوتی۔ جنگ میں سب کی ہار ہوتی ہے۔ کب تک عوام کو ڈرا دھمکا کر ان سے جنگ کا ساتھ مانگو گے؟ یونہی جنگ ہوتی رہی تو دو ایٹمی طاقتوں کے افراد کا نام و نشان بھی نہ بچے گا۔ پھر کس کو بچاؤ گے؟ خالی سرحدوں کو کس سے بچاؤ گے؟ ٹوٹے ہوئے مکانوں میں کس جنگی ہیرو کی تصویر لگاؤ گے؟ میدانوں میں پڑے گڑھوں میں کونسے جنگی شادیانے بجاؤ گے؟ کون تالیاں بجائے گا؟ کون شاباشی دے گا کہ مبارک ہو لوگ مٹ گئے، ملک باقی ہے۔ مبارک ہو کوئی بیمار نہیں۔ سب مر گئے۔ کوئی غریب نہیں۔ سب گھر جل گئے۔

جنگ میں جیت صرف ہتھیار کی ہوتی ہے۔ اور پاکستان اور ہندوستان کے وہ افراد جن کے دل و دماغ پہ جنگ کا بھوت سوار ہے وہ یاد رکھیں کہ ہتھیار مستقبل نہیں بچایا کرتے۔ انسان بچایا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments