بہادر گل خان


\"barkat-kakar\"گل خان نے اپنی داہنی آنکھ میں تیسری بار سُرمہ لگایا، آنکھوں میں جو ٹھنڈک اب کی بار پڑی شاید کبھی نہ پڑی ہو، دو بڑے آنسو آنکھوں میں بھر آئے، ننھا سا شیشہ ہاتھ میں دھندلا سا گیا۔ شاید سُرمہ کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا تھا۔ \”ابھی تو بائیں آنکھ باقی ہے!\” اس نے خود کلامی کی۔ شیشے کو گیلا کیا پھر دامن کی بائیں جانب سے صاف کیا، بائیں آنکھ کو سُرمہ لگاتے ہوئے گانے لگائے۔ \’شا لیلا راسہ گل دی واخلہ نور مہ شکوہ گل۔۔۔ \’ اس کار گراں سے ابھی فارغ ہوتے ہی، شیشے کو پھر صاف کیا، واسکٹ کے داہنی جیب میں مسواک، مشہدی رومال اور قینچی کے ساتھ اسے بھی ٹھونس دیا۔ گو شیشے اور اس آہنی آلے (قینچی) میں کوئی میل نہیں، لیکن گل خان کو پتہ نہیں کیوں یقین ہے کہ قینچی، نرم و نازک شیشے کو کچھ نہیں کہے گی۔

وہ جس کمرے میں رہتا ہے وہاں پندرہ افراد رات کی شفٹ میں سوتے ہیں اور پندرہ دن کو، اس مستطیل نما کمرے میں دیوار کی ہر طرف بستر فولڈ کر کے لگے ہوئے ہیں، جس سے کسی مدرسے کے کمرے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ لیکن یہاں پر ہر بستر کے اوپر دو کیل ٹھونکے گئے ہیں، جس میں ظاہر ہے دن اور رات کی شفٹوں میں یہاں رہنے والوں کے کپڑے اور ضرورت کی دوسری چیزیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ بالمقابل دیواروں سے بستر اس حساب سے لگائے گئے ہیں کہ دونوں اطراف سے لمبے قد کے لوگ نہ سوئیں، جس سے ظاہر ہے فساد اٹھنے کے خدشات بڑھتے ہیں۔ کمرے میں شیشے ٹانکنے کی جگہ شاید نہ تھی، البتہ ٹھونکے گئے دو کیلوں کے درمیان بالی ووڈ اداکارہ سری دیوی، اور ریکھا کی گرد آلودہ تصاویر کمرے کے اندر جھانک رہی ہیں۔ بستر پر تہہ در تہہ میل جم گئی ہے، جس سے یہ پتہ نہیں چل رہا کہ بستر بننے سے پہلے کپڑے کا اپنا بھی کوئی رنگ تھا یا نہیں۔ لیکن اتنا اچھا ہے کہ بستروں میں جوئیں، کھٹمل اور دیگر کاٹنے والے کیڑے مکوڑے نہیں کیوں کہ وہ اتنی زیادہ درجہ حرارت میں رہنے کی عیاشی افورڈ نہیں کرسکتے۔ البتہ رینگنے والے کیڑوں کی کوئی کمی نہیں۔

آج گل خان پہلی دفعہ اس مستطیل کمرے میں اکیلا ہے، اس کے سارے ساتھی، دوست اور عزیز پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھنے گئے ہیں۔ ان میں بھی ظاہر ہے وطن کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ پر کفیل نے جب سے ان کے پاسپورٹ چھینے ہیں۔ اس کا کمرے سے نکلنا محال ہو چکا ہے، ہر وقت دل کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اب پکڑا گیا کہ تب۔ اور پھر کرکٹ گراونڈ میں پہنچنے کے لئے پیسے بھی تو چاہئے جو فی الحال اس کے پاس نہیں تھے۔

گل خان کو عرب امارات میں کام کرتے ہوئے پندرہ سال ہوگئے۔ اس دوران وہ دو بار گھر جا چکا ہے۔ برابر آٹھ کفیلوں نے یکے بعد دیگرے اسکا ورک پرمٹ منسوخ کرایا۔ اس پر بھاری جرمانے پڑے، اسے کفیلوں کی حکم عدولی پر کئی بار پیٹا بھی گیا، زنداں میں رکھا گیا، اس کی محنت کی کمائی پر کئی لالچی دلالوں نے ہاتھ بھی صاف کئے۔ مگر مجال ہے جو گل خان کی مونچھ کا ایک بال بھی بیکا ہوا ہو۔ ہاں فاقہ مستی ویسی ہی رہی جیسے ژوب (آبائی شہر) سے آنے کے بعد تھی۔

آج شاید پہلی دفعہ وہ بن کھٹکھٹائے غسل خانے میں نہایا تھا۔ آنکھوں میں ڈھیر سارا سرمہ ڈالے وہ اپنے میلے کچیلے بستر سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا تھا، اوپر نظر دوڑائی، گٹھری کی طرف خیال گیا، آس پاس دیکھا، یکایک اٹھا، گٹھری کھولی، لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اس میں سے ایک رنگین اور ایک سادہ فوٹو نکالی، رنگین تصویر اس کی بارہ سالہ لڑکی کی ہے، جبکہ سادہ تصویر جو کافی پرانی ہو چکی ہے اس کی بیوی کی ہے، غالباََ بیس سال پرانی تصویر ہے۔ اس نے سادہ تصویر کے خدوخال پر اپنا کھردرا ہاتھ پھیرا، قریب تھا کہ محبت کے جذبات میں وہ بہہ جاتا، سرمہ بھرے آنکھوں میں نمی پہلے سے امڈ آئی تھی۔ اس نے جلدی جلدی تصاویر گٹھری میں چھپائیں، آس پاس دیکھا اور پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔

اس نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا تھا حالانکہ اب دوپہر کا وقت ہوا جا رہا تھا۔ کمرے کے کونے میں پڑے باسی سالن کی دیگ پر اس کی آنکھ پڑی، پیاسے کوے کی طرح اس کی طرف لپکا۔ رات کے باسی سالن کو گرم کئے بغیر دو زانوں بیٹھ کر کھانے لگا، تشہد کی انگلی سے پتلے سالن کی خوب تلاشی لی، پر کوئی بھی بوٹی برآمد نہ ہوسکی۔ لگتا تھا کل رات کو حتیٰ المقدور ہر کسی نے دیگ کا کونا کونا چھان مارا تھا۔ رات کے باسی سالن کو چٹ کرنے کے بعد بھی پیٹ کے بل ختم نہیں ہوئے تھے۔

گل خان کو آج پتہ نہیں کیوں بے چینی ہوئے جا رہی تھی۔ اس نے خود سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے، پھر یاد آیا کہ ہندوستانی جارحیت کی خبر کل سے اسے آسیب کی طرح تنگ کر رہی ہے۔ اس نے یکایک جیب سے شیشہ نکالا، آنکھوں میں سرمے کی مقدار کا جائزہ لیا، بچھو کے ڈانگ کی مانند مونچھوں کے نوک مزید تیز کئے اور پھر دریچے کی طرف منہ کر کے، سلفی ویڈیو بنانے لگا۔ اس نے اپنے موبائل میں جھانکتے ہوئے تقریر شروع کی!

اوے بے ایمان اور مکار دشمن !تم بھول رہے ہو کہ تم نے کس قوم سے پنگا لیا ہے؟؟ (سانس لیتے ہوئے) کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام کا بول بالا ہر وقت رہا ہے، یہ جان لو کہ مجھ جیسے جوان اب بھی زندہ ہیں۔ تم نے شاید یہ۔۔۔

تقریر کے بیچوں بیچ دروازہ زور سے کھٹکھٹایا گیا، گل خان نے دریچے کی اوٹ سے دیکھا، پانچ پولیس والے عربی لباس میں چوکنے کھڑے تھے، شاید انہیں کسی دہشت گرد کی تلاش تھی، جس نے ایک سرمایہ دار عرب کفیل کے بیٹے کو تھپڑ مارنے کی جسارت کی تھی۔ گل خان نے اوپر گٹھری کی جانب دیکھا اور پھر دروازہ کھول دیا۔ گٹھری میں لپٹی گئی تصاویر نے دیکھا کہ گل خان کو بری طرح سے گھسیٹ کر لے جایا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments