با پردہ پاکستان میں اجنبی


آخر شیخ کا گھر آ گیا۔ شیخ نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا پھر انٹر کام کا رسیور اٹھایا۔

”زوجہ محترمہ اطلاعاً عرض ہے کہ میرے عزیز دوست تشریف لا چکے ہیں۔ کھانا تیار کر دیجیے۔“

”بھابی صاحبہ کو کیوں تکلیف دے رہے ہو، میں باہر سے کھانا کھا لوں گا۔“

”وہ کیوں؟ جب گھر کا کھانا میسر ہے تو باہر کیوں جانا۔“ شیخ نے فوراً کہا۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ نہ جانے کتنی دیر کے بعد انٹر کام کی بیل بجی۔

”کھانا تیار ہے۔ میں کھانا لے کر آتا ہوں اور ماں جی کو بھی سلام کر کے آتا ہوں۔ “

”یار میں بھی ماں جی کو سلام کر کے دعائیں لے لوں؟ ایک مدت ہو گئی ان سے ملے ہوئے۔“

”ہوں۔ اچھا تم بھی آ جاؤ۔“ شیخ نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا کہ شاید کسی دوسرے کمرے میں جانا ہے مگر شیخ نے توقع کے برعکس فرش سے قالین ہٹا دیا۔ فرش پر لکڑی کا ایک تختہ تھا جسے ایک موٹا تالا لگا تھا۔ شیخ نے جیب سے چابی نکال کر تالا کھولا۔ لکڑی کے تختے کو سلائیڈ کر کے ہٹایا تو نیچے سیڑھیاں جاتی دکھائی دیں۔ ”واہ تمہارے گھر میں تو تہہ خانہ بھی ہے۔“ میں نے کہا۔

”ہر گھر میں ہوتا ہے۔ تہہ خانے کے بغیر تو اب گھر کا نقشہ ہی پاس نہیں ہوتا۔ گھر کی سب عورتیں تہہ خانے میں ہی تو رہتی ہیں۔“ شیخ بول اٹھا پھر وہ نیچے اترنے لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ تہہ خانے میں دو برقعہ پوش عورتیں اور دو برقعہ پوش بچیاں تھیں۔

”میری چار سالہ بیٹی، چھ سالہ بیٹی اور ماں جی۔“ شیخ نے تعارف کرایا۔ میں نے ماں جی کو سلام کیا۔ انہوں نے دعائیں دیں۔ پھر کھانا وصول کیا۔ ہم دوبارہ اوپر آ گئے۔

کھانا کھانے کے بعد میں آرام کرنے مہمان خانے میں چلا گیا۔ شام کو میں سیر کرنے نکلا۔ جس جگہ بھی گیا۔ وہاں مردوں سے پالا پڑا۔ ابھی تک ایک بھی عورت دکھائی نہ دی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شیخ کی بات درست تھیں۔ یقیناً ہر گھر میں تہہ خانہ ہو گا اور عورتیں وہاں ہوں گی۔

شاپنگ مالز میں، پارکوں میں اور سڑکوں پرمرد ہی مرد تھے۔ ایک اور خاص بات تھی کہ اکثر پاس سے گزرنے والے مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے بلکہ اکثر گھورتے تھے۔ میں اس کہ وجہ جاننے سے قاصر تھا۔ ایک سفید داڑھی والے ریڑھی والے سے گنے کا رس پینے کے بعد میں نے اس سے یہاں کے مردوں کے عجیب رویے کے بارے میں پوچھا تو وہ بول اٹھا۔

”جناب آپ نے ابھی تک کسی شخص کو داڑھی کے بغیر دیکھا ہے اور آپ کلین شیو ہیں۔ ظاہر ہے سب کے لیے آپ کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق ہیں اسی لیے وہ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں۔“ اب بات سمجھ میں آئی تھی۔

میں نے بطور مہمان شیخ کے گھر چند دن گزارے تو نہایت اہم معلو مات حاصل ہوئیں۔ تبدیلی سرکار کی حکومت گیارہ برس سے جاری تھی۔ وزیراعظم گریٹ کپتان کو عوام نے تیسری بار منتخب کیا تھا۔ کپتان کے آدھے مخالف جیلوں میں تھے اور باقی آدھے مر چکے تھے۔ لہٰذا کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا۔ تھانہ کلچر اور محکمہ پولیس یکسر بدل چکا تھا۔ جس کا ثبوت یہ تھا کہ تھانے کے اندر کیا تھانے کی حدود سے چار کلومیٹر دور تک کیمرے والے موبائل کے استعمال پر پابندی تھی۔ پولیس والے اکثر پولیس اسٹیشن میں مکھیاں مارتے رہتے تھے کیوں کہ چوروں اور ڈاکووں کو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی تشدد کر کے مار دیتے تھے۔ کوئی بڑا مجرم پکڑا جاتا تو حوالات میں چند دن گزارنے کے بعد شرم سے مر جاتا اس طرح جرائم کی شرح کافی کم ہو چکی تھی۔

عورتوں کے تہہ خانوں سے نکلنے اور سڑکوں پر آنے پر مکمل پابندی تھی کیوں کہ اس طرح وہ برقعے اور عبایا کے اندر سے بھولے بھالے مردوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کا سبب بنتی تھیں۔ عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی کی وجہ سے ہزاروں گرلز کاج اور سکول خالی ہو گئے۔ پھر حکومت نے ان خالی عمارتوں کو کٹا فارم، مرغی فارم اور انڈہ سٹورز میں تبدیل کر دیا جس سے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل گیا تھا۔ عوام بے حد خوش تھے کہ ان کا وزیراعظم بہت ہینڈسم ہے۔ پڑوسی ملک کی خلائی شٹل چاند پر لینڈ کر چکی تھی چناں چہ اسے منہ توڑ جواب دینے اور حسد کی آگ میں جلانے کے لیے حکومت نے سنہ 2030 میں بی آر ٹی کا افتتاح کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

میں چند دن تو ارض پاک پر گھومتے ہوئے بہت خوش رہا پھر مجھے بیزاری نے گھیر لیا۔ در اصل کافروں کے ملک میں رہتے ہوئے میرے اندر کافرانہ طور طریقے رچ بس گئے تھے۔ اور میں اس باپردہ پاکستان میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔ میں نے شیخ سے ذکر کیا تو وہ بول اٹھا۔

”یار پہلے بتاتے۔ اس کا علاج بھی ہے۔“ شام کو وہ مجھے ایک تھیٹر میں لے گیا۔ وہاں قوالی کی محفل جاری تھی۔ میں سمجھا کہ سینماؤں کی بندش کے بعد اینٹرٹینمنٹ کے لئے بس قوالیاں ہی رہ گئی ہیں مگر میں غلطی پر تھا۔ شیخ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے گیا۔ وہاں ایک خفیہ لفٹ تھی جو ہمیں ایک زیر زمین کلب میں لے گئی۔ اتنے دنوں بعد اچانک میری آنکھوں کے سامنے حسین و جمیل دوشیزائیں آ ئیں تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ میوزک بج رہا تھا۔ ڈانس فلور پر لڑکے لڑکیاں ڈانس کر رہے تھے۔ مختلف میزوں پر نوجوان جوڑے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ جس منظر کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں وہ یہ تھا کہ ویٹر دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ممنوعہ مشروبات بھی سرو کر رہے تھے۔ میں شیخ سے پوچھ بیٹھا۔

”یا رفیقا اے کیہ طریقہ؟“ تب اس نے بتایا کہ یہ باغیوں کا گروپ ہے جو حکومت کے خلاف سر گرم ہے۔ چناں چہ ہم فوراً وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ یہ زیر زمین دنیا کافی پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں سب کچھ دستیاب تھا۔ حتیٰ کہ کال گرلز کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔ رات بھر رنگین نظاروں کے بعد ہم اس دنیا سے باہر آئے تو وہی بلیک اینڈ وائٹ دنیا تھی۔ بارہ بج چکے تھے ہم ایک ریسٹورانٹ میں چلے گئے۔ میں نے مٹن کا آرڈر کیا۔ کھانے کے بعد عجیب سا احساس ہوا۔ شیخ سے ذکر کیا تو وہ مسکرا اٹھا۔

”مبارک ہو آپ کھوتا کھا چکے ہیں۔“ یہ سنتے ہی میرا سر گھومنے لگا۔ ایک جھٹکے سے میں نے خود کو سنبھالا تو ایسا لگا کہ میں کسی ویگن میں سوار ہوں۔ دائیں بائیں مسافروں کو دیکھا تو سب یاد آ گیا۔ میں امریکہ سے پاکستان نہیں آیا تھا بلکہ موجودہ زمانے میں ہی شیخوپورہ سے لاہور جا رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2