ایٹمی ماحول میں \”آئٹم سونگ\”


\"Rashidنفرت کا جواب نفرت سے اگر نہ  دیا جائے تو معاملات تبھی حل ہو سکتے ہیں۔ زندگی کم و بیش اسی اصول پہ چل رہی ہے، نفرت کو کاشت کیا جاتا ہے، پھر مخالفت کی آبیاری ہوتی ہے، خود غرضی کی آب و ہوا میں پروان چڑھتی نفرت کی فصل کو کاٹا جاتا ہے۔ پھر ہم اپنی نسلوں کو کھلاتے ہیں، یعنی نفرت کی افزائش کرتے ہیں۔ منہ سے نفرت کو برا بھلا کہتے ہیں، سو سو کوسنے دیتے ہیں۔ یہ زہر جو ہم گھولتے ہیں، اس نے زندگی کی مٹھاس کو، اس کی شیرینی کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن ہم اس کے اتنے رسیا ہیں جیسے ہیروئنچی کو جتنے بھاشن مل جائیں اس کی آنکھ کش لگا کے ہی کھلتی ہے۔ وہ رفتہ رفتہ اپنی ساننسوں کو پھونکتا رہتا ہے، ہر باہر جانے والا سانس پلٹ کے آکسیجن نہیں لاتا۔ وہ خالی ہوتا جاتا ہے، خاک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دھواں بھی نظر نہیں آتا۔ زندگی کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے کبھی انسان سے موقع نہیں چھینا، یہ بار بار موقع دیتی ہے۔ نفرت سے نکلنے کا کوئی سوچے تو اسے معاشرتی اقدار کا باغی سمجھا جاتا ہے۔۔ باعث حیرت یہ ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ جو ہر معاشرے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اس کی ذہنی بلوغت اور وسعت پہ شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں سکا۔

حالیہ ہندوستانی \”سرجیکل سٹرائک\” کا جو ڈرامہ سرحد پار سے رچایا گیا، اس کے پیچھے قیادت کی بوکھلاہٹ تھی۔ جب کچھ بن نہیں پایا کہ کشمیر کے موقف پہ کس طرح رد عمل کا اظہار کیا جائےتو یہ حماقت کر ڈالی۔ کیونکہ اقوام عالم پہ یہ حقیقت واضح  ہو رہی ہے کہ بھارت کی بربریت اور انتہا پسندی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔ پڑوسی ملک کی اندرونی صورت حال یہ ہے کہ ہٹ دھرم انتہا پسند تنظیموں کا جو رویہ پاکستان کے حوالے سے رہا ہے، اس پہ بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بھارت دشمنی کو فروغ دینے کے لئے اتنے اقدامات نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے کہ جن سے من گھڑت کہانی سنائی جاتی، مگر اس ضمن میں باقاعدہ مہم بھارت میں چلائی گئی۔ اس سے نادر موقع شدت پسند تنظیموں کے پاس کم ہی آتا ہے کہ جب بھارتی قیادت اور انتہا پسند ایک مقام پہ کھڑے ہوں۔ جب کہ منتری مودی اپنی انسان دشمنی کے نشے میں بار بار جنگی ترانے بجا رہے ہیں۔

میڈیا کا عالم یہ ہے کہ اس وقت نفرت کو پھیلانے کا کاروبار بھارت میں ہو رہا ہے۔ جو کچھ اس پار نشر کیا جارہا ہے اس سے پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کی کو ششیں جاری ہیں۔ ہندوستانی اداکاروں کے جو بیانات یا سماجی رابطے کی سائٹس پہ پیغامات نظر آ رہے ہیں وہ در اصل اس ذہنیت کا اظہار ہے جس سے جمہوریت کی گاڑی کو چلا کر اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان دشمنی وہاں کے قدامت پسند ہندوؤں کے پاس سب سے مجرب نسخہ ہے جسے ہر وقت استعمال کر کے ہندو مسلم فسادات اور باہمی نفرت کو پھیلایا جاتا ہے۔ اس وقت صورت حال اور خطرناک ہو جاتی ہے جب قیادت بھی وہی پالیسی اپنا لے جو رجعتی گروہ کی تجویز کردہ ہو۔ بھارتی اداکاروں کی بولی دراصل وہاں کے ذرائع ابلاغ کی معلومات پہ مبنی ہے اور مسلمان اداکاروں کو وہاں اپنے آپ کو بھارتی ثابت کر نے کے لئے پاکستان مخالف بیانات دینے پڑے ہیں۔ یہ ہے وہ بھارتی جمہوریت جس کی مثالیں ہمارا دانشور طبقہ دیتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا جب کہ سرحد پار کی جمہوری روایات کی نشانی صرف یہ ہے کہ حکومت کے لئے ہر دور میں چناؤ کا عمل ہوتا رہا ہے۔ اسی چناؤ کا ثبوت ہے کہ کشمیر آج بھی بھارت کے غاصبانہ کردار کی وجہ سے ظلم اور غیر انسانی برتاؤ کا شکار ہے۔ آزادی کی خاطر کھڑے ہونے والوں کو جس اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے آج پوری دنیا اس بات کی گواہی دیتی ہے۔

ہمارے ہاں جب ٖمیڈیا نے بھارتی حملے کو جھوٹا ثابت کیا تو نہایت پیشہ وارانہ کارکردگی اور مہارت سے اس جھوٹ کا پردہ چاک ہوا۔ مگر وہاں کے اداکاروں کو غیر ضروری طور پہ خبر میں جگہ دی گئی۔ پاک بھارت جنگی ماحول میں کیا ہم یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہاں کے اداکار بھارت پہ نکتہ چینی کریں گے؟ یا اس کے اقدام کو نہیں سراہیں گے، ایک پسماندہ، شدت پسند معاشرے کے اداکاروں کی ملکی شناخت ان کے لئے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ عامر خان اس کی زندہ مثال ہے کہ جس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایسے حالات میں سونو نگم پاکستان کے جنگی ترانے گائیں گے اور سلمان خان نشان حیدر حاصل کرنے والے کسی فوجی کردار کو کسی ڈرامے یا فلم میں نبھائیں گے۔ وہاں کے دانشور اتنے تنگ نظر رجعتی سماج سے اٹھ کر واہگہ سرحد پہ ہمارے فوجیوں کے گلے میں ہار ڈالنے آئیں گے؟ بھیا یہ خواہشات یا توقعات ہم کر رہے تھے، تبھی ہمیں ان کے بیانات پہ سخت غصہ آیا۔ اب اگر بیانات پہ اتنی تلملاہٹ ہوئی ہے کہ بھارتی چینلز کو بند کیا جائے تو سوچئے ہمارے چینلز پہ جو بھارتی اداکاروں کی مدد سے مصنوعات کی تشہیر ہو رہی ہے، فلمیں، ڈرامے اور دیگر شوز چل رہے ہیں حتیٰ کہ فلمی ایوارڈز کی تقریبات بھی باقاعدہ دکھائی جاتی ہیں۔ دکھانے کی بحث یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ بولڈ سینز اور مکالموں کے\”بہادر بول\” کھلم کھلا بولے جاتے ہیں۔ شاید وہاں ہمارے ملی جزبات ہمیں اس پہ اتنا نہیں اکساتے، جتنا ان کے اداکاروں کے پیغامات ہمیں ناگوار لگے ہیں۔ جہاں مسئلہ آمدن کا ہو وہاں سے آنکھیں چرانا مناسب حرکت نہیں۔ جناب ہمیں آنکھیں کھول کر اس بات کو جاننا ہو گا کہ وہ اداکار ہمارے ملک میں جتنی بھی محبت سمیٹیں مگر ہیں وہ انتہا پسند بھارتی جمہوریت کے زیر تسلط رہنے والے باشندے۔ جنہیں ہر موقع پہ اپنی شہریت کو اور وفاداری کو ایسی حرکات سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ عدنان سمیع خان پہ بھی ہمارا میڈیا بڑا سیخ پا ہوا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ابھی مکمل بھارتی پن کا اظہار کر کے ہی اپنی حیثیت کو قابل قبول بنا سکتے ہیں۔ہم جتنے شوق سے وہاں کی فلموں کے مزے لوٹیں مگر یہ توقع کرنی کہ وہ اپنے ہاں کے حکومتی اقدامات کو نہ سراہیں یہ سرا سر غلط مطالبہ ہے۔ ہاں آپ غور کریں کہ آپ کی نسل کیا ملاحظہ فرما رہی ہے۔

ابھی آتے ہیں فن کی قدردانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بات پہ، تو صاحبو! اگر کوئی ایسی ثقافتی یلغار جو ہمارے ہاں بچی کھچی قومی پہچان کو کچلنے کا کام کرے اس سے دو سو گز دور رہنا ہی اچھا ہے۔ چاہے اس بہانے دانتوں کی بیماریوں کو دور کرنے والا منجن ہی مشہور ہو رہا ہو۔ ٹی وی شوز میں اب جو خواتین کے ساتھ بے تکلفی کو دکھایا جا رہا ہے۔ اس بےحیائی کی حد تک لے جانے کے اثرات ہندوستان سے ہم نے بر آمد کئے ہیں۔ اب ہندوستان کے ہدایت کاروں اور اداکاروں کو ملامت کیجئے کیونکہ انہوں نے آپ کی سماجت کی کہ ہمیں شرف نظر بخشیئے۔ ہالی وڈ کی فلموں پہ اس لئے اعتراض نہیں کرنا چاہیئے کہ اس بہانے ہم کوئی سائنٹیفک یا بظاہر نا ممکنات کا تخیل کر سکتے ہیں۔ یا ان خطوط پہ سوچنے کی دعوت بھی ہو سکتی ہے جو علمی اور تحقیقی سفر کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس میں قابل اعتراض حصوں کو اپنی پالیسی کے تحت نہ دکھایا جائے تو بھی حل نکل سکتا ہے۔ لیکن پڑوسیوں نے ہالی ووڈ سے آگے کسی منزل کا انتخاب کیا ہے، جنسی موضوعات کو فلم اور ڈرامے کے ذریعے پر کشش بنا کے پیش کیا جاتا ہے اور عجیب سی ثقافتی جدت ہے کہ جس میں جنسی مراعات کی کھلی تقسیم ہے۔ گانوں مین جو آوارہ پن ہے اسے محض بھارتی صنعتی آزادی سے منسلک کرنا دراصل آزاد فکر کی توہین ہے۔ آزادی صرف یہ تو نہیں کہتی کہ جسم کے حصوں کی لچک کو فلما کے داد وصول کی جائے۔ اگر یہ کمائی کسی فلمی صنعت سے لینی ہے تو پھر اسے تخلیق یا تفریح سے جوڑنا سراسر دھوکہ ہے۔ قربان جائیے،ان مصنفین حضرات پہ جو ایسی نگارشات پیش کر رہے ہیں۔ \”اس آٹم سونگ اور بولڈ سین\” کے \”ہاٹ \” سپاٹ سے نکلیں گے تو آنے والی نسل کو کسی تعمیری سرگرمی میں مشغول کریں گے۔

ان سب کے باوجود خطے کو ان قومی و فکری اختلافات پہ جنگ جیسی ہولناکی کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اختلاف رکھتے تھے تو علیحدہ ہوئے، اب بھی بہت سے تضادات کے ساتھ وجود رکھتے ہیں جنہیں ہم بزور بازو و زبان تھونپ نہیں سکتے۔ اب \”نفرت کے چینل پہ آئٹم سونگ\” جو جی بہلاتا ہے اس سے جان چھڑانی ہے، اب نہیں بہلنا، بلکہ غیر روائتی جواب دینا ہے۔ ہمیں اپنے ثقافتی ورثے سے گرد ہٹا کے ایک ضرب عضب کی ضرورت ہے کہ جو پسماندگی کا خاتمہ کرے۔ پروڈکشن ہاوسز اور ادبی بیٹھکوں کے انعقاد کے لئے انتظامات کرے، تحقیقی و مطالعاتی مراکز کی شروعات ہوں۔ ہمیں یہ جنگی خبریں بہت کچھ دے جائنگی اگر ہم اپنی کمزوریوں پہ کام کریں۔ غیر فطری مطالبات ہم نہیں کرتے اور وہاں ہونے والے ایسے غیر انسانی اقدامات جو جبر اور تشدد پہ مبنی ہوں ان کی مذمت کرنا اور آواز بلند کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

البتہ ایٹمی ماحول میں \”آئٹم سونگ\” کے بغیر ہماری زندگی میں جو خلا پیدا ہو گا اس کی تشویش اپنی جگہ موجود ہے۔ ہماری تو خبروں میں سیاست دانوں اور رہنماؤں کی ویڈیوز کے پس پردہ وہی ہندوستانی گانے چلتے ہیں۔ تقریبات اور پارٹیوں میں ہلڑ بازی کن گانوں پہ ہو گی؟ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس بحران میں اپنی میوزک انڈسٹری کو فروغ دے پائیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہم اس وقت سے سبق سیکھ کر اپنے مقامی ٹیلنٹ کو اپنے پاکستانی برانڈ کی مقبولیت کے لئے فائدہ مند بناسکیں۔ ہمارا عزم اور حوصلہ ہمیں مایوس نہیں کریگا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments