شفقت علی خان میں شام چوراسی زندہ ہے


\"muhammadکلاسیکل موسیقی (خواہ گانے کی صورت میں ہو یا بجانے کی) کا جو حال اس وقت’مملکتِ خداداد‘ میں ہے اس سے تو پاکستان اس عظیم فن کا ٹوٹا پھوٹا قبرستان دکھائی دیتا ہے۔ جو کام مغل بادشاہ اورنگ زیب نہ کر سکا (یعنی موسیقی کو دفن کرنا) وہ ہماری حکومتوں نے کر دکھایا! جب ہم نے کلاسیکل موسیقی سننا شروع کی تو تب بھی یہی سنتے تھے کہ اس فن کی کوئی پذیرائی نہیں اور یہ مر رہا ہے۔ پھر بھی ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں سلامت علی خاں، شگن صاحب، شوکت صاحب، مہدی حسن، فتح علی خان، مبارک علی ، ناظم خاں ، اقبال بانو، اللہ رکھا اور خلیفہ اختر جیسے پرانے لوگوں کو سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا۔ ہمارے دور میں کلاسیکل موسیقی آخری سانسیں لے رہی تھی اور ہم سوچتے تھے کہ بس اگلی نسل تک یہ کام نہیں پہنچنے والا! اور ننانوے اعشاریہ نو فیصد ایسا ہی ہوا ہے۔ اسے سو فیصد غرق ہونے سے بچانے کا کریڈٹ چند گنے چنے گھرانے دار فنکاروں پر ہے جو اس فن کو خاندانی روایت کے طور پر زندہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے اگلی نسل تک بطور امانت پہنچانا چاہتے ہیں۔

دو گانا گانے کی روایت ہمیں پٹیالہ اور شام چوراسی گھرانے میں ملتی ہے۔ امانت علی۔ فتح علی اور سلامت۔ نزاکت کی جوڑی سے کون نا واقف ہو گا! بدقسمتی سے امانت علی خاں بھری جوانی میں رخصت ہو گئے۔ جوڑی ٹوٹ گئی۔ فتح علی نے کوشش تو کی اس روایت کو زندہ رکھنے کی۔ اسد اور حامد کی جوڑی بنائی۔ اسد کو شراب لے ڈوبی ۔ بیچارہ اپنے باپ کی طرح جوانی میں ہی رخصت ہو گیا۔ حامد روزی روٹی کیلئے کمرشل گانا شروع ہو گیا۔ لے دے کر بیچارے فتح علی کے پاس اپنے بیٹے ہی بچے۔ رستم اور سلطان کی جوڑی بنائی جو چار دن نہ چلی۔ رستم تو ایک امیر کبیر گھرانے کا گھر داماد بن گیا اور باپ کو سرے سے بھول ہی گیا۔ بے مرادی کے سبب گانا بھی گلے سے نکل گیا۔ سلطان شروع دن سے ہی نالائق تھا۔ اس سے ہزار درجے بہتر ہمارا اتائی دوست طاہر خان گا لیتا ہے۔ ایک دفعہ طاہر نے فتح علی کو ان کا تانپورہ سر کر کے دیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سطان کو موٹی سی گالی دے کر یہ کہا کہ دیکھ نالائق تجھ سے اچھا تو یہ اتائی ہے! قصہ مختصر پٹیالہ گھرانہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

جن دنوں رستم اور سلطان کی جوڑی فرخ بشیر(پروڈیوسر پی ٹی وی )اور عارف جعفری(ڈائریکٹر ادارہ ثقافت) کی وساطت سے منظرِ عام پر \"shafqata\"آئی ان ہی دنوں (یہ 1991کی بات ہے) ہماری ملاقات شام چوراسی گھرانے کے عہد ساز گویے استاد سلامت علی خاں اور انکے بیٹے شفقت علی خاں سے جعفری صاحب کے دفتر میں ہوئی۔ یہ ہمارا زمانہِ جاہلیت تھا۔ ہمیں موسیقی کا عملی علم نہیں تھا۔ ہم صرف سنویے تھے اور بیکار قسم کے مضامین موسیقی پر تحریر کیا کرتے تھے جنہیں پڑھ کر اکثر گھرانے داروں کا خون کھولتا تھا اور ہمیں life threatsبھی مل چکی تھیں چند بدمعاش قسم کے مراثیوں سے۔ اب ہم موسیقی کے شاگرد ہیں اور سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لکھنے سے پہلے اپنے استاد پروفیسر شہباز صاحب سے رہنمائی لیتے ہیں۔

سلامت خاں صاحب اور شفقت سے پہلی ملاقات میں ہی عشق ہو گیا۔ اور کیسے نہ ہوتا۔ خاں صاحب نے اپنی بیٹی ساجدہ کے گھر جی ٹین، اسلام آباد مدعو کیا۔ اپنے ہاتھوں سے لقمے کھلائے۔ شفقت سے دوستی ہو گئی لیکن اس دوستی میں آج تک خوشامد یا بیجا تعریف کا عنصر پیدا نہیں ہوا۔ ( اس بات کا اندازہ آگے چل کر ہو گا۔)

شفقت بتلاتا تھا کہ وہ تو سوتا بھی خاں صاحب کے ساتھ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ بات لفاظی لگی مگر آج سچ لگتی ہے۔ کیسے؟ بتاتے ہیں! ہوا یوں کہ ہم رستم کا انٹرویو کر چکے تھے ۔ ایک سوال پوچھا کہ اپنے والد سے اب کیا تعلیم لیتے ہو۔ وہ بے مراد بولا کہ تعلیم کی \"shafqat-ali\"ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ سب کچھ سیکھ گیا ہوں۔ اسی سوال کا جواب شفقت نے یوں دیا کہ وہ تو سوتا بھی خاں صاحب کے ساتھ اس لئے ہے کہ اچانک خاں صاحب کو کوئی آمد آتی ہے اور وہ گانا شروع کردیتے ہیں نیند سے اٹھ کر ۔ اس طرح شفقت کی تعلیم ہوئی۔ سبق کے ساتھ ادب بھی سکھا۔ یہی وجہ ہے کی شفقت کا گانا انتہائی سریلا، رسیلا، سوز میں ڈوبا ہوا، رچا ہوا، اور روح میں اتر جانیوالا۔ شفقت سے دس سال قبل رابطہ ٹوٹ گیا۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا۔ بہت سے ٹوٹے سلسلے دوبارہ جوڑ دیے۔ شفقت کا یو ٹیوب پر راگ گاوتی مل گیا۔ یقین مانیں الاپ ، بہلاوے اور تانیں (ما سوائے رگی کے) ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لنک یہ ہے:

 ایسا لگا کہ استاد سلامت علی خاں کی جوانی سٹیج پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ہر بل سینے پر چل گیا۔ ہم تو کھو گئے کسی اور ہی دنیا میں۔ ہم کھوئے ہی رہنا چاہتے تھے مگر کیا کریں اپنے اس پیارے دوست شفقت کا کہ اسے کانو ں کو بہرا کر دینے والی تانیں مارنے کا جنون ہے۔ اسے دنیا کی کوئی ہستی ایسی تانیں مارنے سے نہیں روک سکتی۔ جب جب شفقت یہ تانیں مارے ہمارا دل دہل جائے اور ہم سکون کی جنت سے جو کہ شفقت کے الاپ اور بہلاوں سے بنتی ہے نکل کر شور شرابے کے دوزخ میں پہنچ جاتے۔ لیکن ہمارا یہ معصوم دوست پھر کوئی بہلاوہ کہہ کر ہمیں دوبارہ جنت میں لے جاتا۔ لیکن ظالم کچھ ہی دیر بعد پھر دوزخ میں دھکیل دیتا کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی تانیں مار کر۔ سلامت علی خاں صاحب بھی ایسی تانیں مارتے تھے مگر ایک توازن رکھ کر۔ مگر شفقت ان سے بھی دو نہیں چار ہاتھ آگے ہے!

لیکن یہ بات سچ ہے کہ شفقت کے وجود سے شام چوراسی اور سلامت علی خاں کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ ایک کڑوا سچ \"shafqtali\"لکھ رہا ہو۔ شام چوراسی کوئی شام چوراسی نہیں۔ یہ صرف سلامت علی خاں ہے۔ یہ لفاظی نہیں حقیقت ہے۔ پورے شام چوراسی میں گانا صرف سلامت علی خاں کا ہی ملتا ہے۔ ان سے پہلے کوئی ریکارڈنگ نہیں ملتی جیسے آپکو ملے گی عاشق علی خاں صاحب کی پٹیالہ میں یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ امانت علی اور فتح علی کے جدِ امجد کیا تھے۔ عاشق علی خاں صاحب کے شاگرد استاد بڑے غلام علی خاں صاحب کیا ’جن‘ آدمی تھے۔ ایک اور کڑوا سچ بیان کرنے لگا ہوں۔ جس دن بڑے غلام علی خاں صاحب کا جوانی کا گانا انٹرنیٹ سے ملا اسی دن امانت فتح علیخاں کی کیسٹیں توڑ دیں۔ اتنا بچگانہ اور کمزور گانا لگا ان دونوں کا کہ بس پوچھیں نہ!

 تو پورے شام چوراسی میں گویا صرف ایک ہی ہوا جس کا نام تھا استاد سلامت علی خاں۔ ہمیں تین بار ہندوستان جانے کا اتفاق ہو ا اور نامی گرامی ہستیوں سے ملاقات کا شرف ملا۔ سب کی زبانی ایک ہی بات سنی۔ بعد بڑے غلام علی خاں اور استاد امیر خاں صاحب گویا ایک ہی ہوا اور وہ ہے سلامت علی خاں۔ نزاکت علی خاں کا نام کوئی بھی نہیں لیتا۔ ہندوستان کے مایہ ناز ستار نواز اور ہمارے دوست استاد شاہد پرویز کو ہمارے ایک بہت اچھے دوست ڈاکٹر حسن آزاد انصاری نے اسلام آباد بلایا ۔ ہم سے شاہد بھائی نے سلامت علی خاں صاحب کے گانے کی فرمائش کی۔ ہم نے ماروا لگایا اور جو شاہد بھائی کا ردِ عمل تھا وہ لفظوں میں نہیں قید کیا جا سکتا۔ اس کے لئے یہ دولنک حاضر ہیں:

شاہد بھائی ہمیں بتاتے ہیں کہ ولایت خاں صاحب اور سلامت علی خاں صاحب میں بہت پیار اور دوستی تھی۔ دونوں ہندوستان اور کابل میں اوپر نیچے گاتے بجاتے تھے اور ایک دوسرے کے مداح تھے۔ جب سلامت علی خاں صاحب کا انتقال ہوا تو ہم سمیت کئی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اب شام چوراسی ختم۔ اور شام چوراسی ختم ہو جاتا اگر شفقت اپنے گھرانے کے آدرش اور پرم پرا کو زندہ رکھنے کےلئے انتھک کوشش نہ کرتا۔ سارے گھرانے کی بھاری بھر کم ذمہ داری نوجوان شفقت پر آن پڑی۔ شفقت کی عمر خاں صاحب کے انتقال کے وقت کوئی 27برس کے آس پاس ہو گی۔ شرافت بڑے بیٹے تھے خاں صاحب کے اور بہت اچھا گاتے تھے پر خاں صاحب کی طرح جینئس نہ تھے۔  dynamicبالکل نہ تھے۔ ان سے تو ہم غلطی سے بھی یہ امید نہ کر سکتے تھے کہ یہ اپنے گھرانے کا نام آگے لے جا سکیں گے۔ مگر شفقت امید کی واحد کرن \"shafqat\"تھی۔ شفقت کی مثال تھی شارجہ میں جاوید میاں داد والی۔ سب کا یقین تھا کہ جب تک میاں داد وکٹ پر ہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آخری گیند تھی اور چھ رنز چاہییں تھے جیتنے کیلئے ۔ میاں داد نے آخری بال پر چھکا لگایا اور ’جاوید‘ ہو گئے۔ شفقت نے چھکا لگا دیا ہے۔ شام چوراسی اور سلامت علی خاں کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔ اب ذمہ داری ہے شفقت کی اولاد پر۔ فیضان شفقت کا بیٹا ہے۔ باپ کے ساتھ اسی طرح بیٹھتا ہے جسے سلامت علی خاں کیساتھ ہم پہلے شرافت کو اور پھر شفقت کو بیٹھے دیکھتے تھے۔ لیکن ابھی بہت بچہ ہے۔ ریاضت کی شدید کمی ہے۔ یہ1992 کی بات ہے۔ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے سٹوڈیو میں شفقت خاں صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ماروے کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ ایک تان خاں صاحب گئے، بیچ میں شفقت کو موقع ملا اور یہ تان اٹھا گیا۔ خاں صاحب کے یہ الفاظ آج بھی اچھی طرح یاد ہیں: ’یہ بچہ ہے، نڈر ہے، اسے پتہ ہی نہیں یہ کیا رسک لے بیٹھا ہے۔ ہم نہ جاتے یہ تان!‘ اب تاریخ دہراتی ہے اپنے آپ کو۔ شفقت گا رہا تھا گاوتی۔ لنک اوپر موجود ہے۔ ایک لمحے کیلئے شفقت کو سلامت علی خاں سمجھیں اور فیضان کو شفقت۔ شفقت ایک تان گیا۔ وقفہ ملا فیضان کواور وہ بھی ایک تان چلا گیا۔ سلامت علی تو شفقت کی تان پر دم بخود ہو گئے تھے مگر شفقت نے ’شفقت‘ سے جھاڑ پلا دی فیضان کو یہ کہہ کر کہ بیٹا اس راگ کو بہت احتیاط سے گانا ہے۔ جیتے رہو!

مقصد اس بات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ اگر ابھی سے اس بچے کو داد کی بری عادت پڑ گئی تو شام چوراسی کو شفقت کے بعد سنبھالنے والا کوئی نہ ہو گا۔ شام چوراسی کا حال پٹیالہ والوں کی طرح ہو جائے گا جو کہ کم از کم ہماری خواہش تو ہر گز نہیں۔ آفریں شفقت پر کہ اس دور میں کلاسیکل گا رہا ہے۔ دو گانے کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ گھرداری بھی چلا رہا ہے۔ سلامت رہ میرے دوست شفقت۔ تو سلامت علی کی جوانی اور شام چوراسی کا نگہباں ہے! اور ہاں میری تنقید پر برا نہیں ماننا۔ ہر بڑا آرٹسٹ اپنے فن کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے اور اپنے فن میں نئی نئی جدت لیکر آتا ہے اس انداز میں کہ فن کا حسن بڑھے۔ گلا پھاڑ تانوں سے سر نہیں سادھا جا سکتا۔ سر ایشور ہے۔ ایشور کو تو پیار سے راضی کرنا ہے۔ ایشور کو بھگانا نہیں پاس بلانا ہے! اگر شفقت اپنے آپ کو مدھ لے سے لیکر درت تک قابو کر لے تو وہ شام چوراسی کو ایک نئے مقام پر لے جا سکتا ہے۔ دلیل موجود ہے۔ شفقت نام لیتا ہے بڑے غلام علی خاں صاحب کا اور امیر خاں صاحب کا۔ کیا یہ دونوں لاجواب ہستیا ں راگ کا ایسی ہی حشر نشر کرتی تھیں جیسے ہمار ا عزیز دوست کر دیتا ہے؟

 

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments