روحانی بابوں کی تلاش میں ہم پہ جو گزری۔۔۔


بابوں اور روحانیت کے بارے میں کیا لکھا جائے، سب کچھ تو شہاب، اشفاق احمد، واصف علی واصف، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، بابا یحیی لکھ چکے ہیں۔ رہی سہی کسر جاوید چوہدری، اوریا مقبول جان، صفدر محمود، ہارون رشید، عطاءالحق قاسمی، اور بیشتر اردو کالم نگار وقتاً فوقتاً پوری کرتے رہتے ہیں۔ اور ان سب لوگوں کی باتوں کو ناکافی سمجھتے ہوئے بابوں نے خود بھی میدان میں اتر کر کتابیں شائع کرنا شروع کر دی ہیں۔ میرے خیال سے پاکستان میں بابوں اور روحانیت کے بارے میں علم اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اس لیے اس بارے میں بات کرنا پرانی باتوں کو دہرانا ہے۔ بات یہ کرنی چاہئے کہ جب کوئی یہ سب باتیں پڑھ کر بابوں اور روحانیت کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ تو ہوا کچھ یوں۔۔

برسوں تک مشہور اردو لکھاریوں خصوصاً جاوید چوہدری صاحب، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کو پڑھنے کے بعد ہمارا بابوں پر ایمان بالغیب ہوچکا تھا۔ ان اردو لکھاریوں نے بابوں میں سے بہت سوں کی رومانوی تصاویر دکھائی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ بابے ہی ہیں جو دنیا کا نظام چلا رہے ہیں، یہ وقت کے سنگ میل ہوتے ہیں، ان کی ایک نظر سب کچھ بدل کے رکھ دیتی ہے، تمام بڑی شخصیات انہی کی دعاؤں کے فیض کی وجہ سے اس مقام پر ہیں۔ مادی دنیا تو اک فریب ہے اصل دنیا تو روحانی ہے اور روحانی دنیا کی کنجیاں ان بابوں کے پاس ہیں۔ پاکستان پر ان بابوں کی خصوصی نظر ہے۔ اس کے قیام سے سالوں پہلے یہ بابے اس کے قیام کی پیشن گوئی کرچکے تھے۔ اور اس کو ابھی تک قائم بھی وہی رکھے ہوئے ہیں۔ درحقیقت تکوینی نظام میں پاکستان ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ قائداعظم ظاہر میں ایک سیاست دان تھے لیکن باطن میں ایک صوفی تھے۔ اور اقبال اس صدی کے بہت بڑے روحانی بزرگ تھے۔ پاکستان کا ان بابوں کے سبب رہتی دنیا تک بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا۔ یہ بابے اپنے مقام کی وجہ سے تمام علوم نقلی و عقلی سے آگاہ ہوتے ہیں، ان کی ایک نگاہ انفرادی اور اجتماعی قسمت کی تختی پر ہر وقت ٹکی ہوتی ہے اسی لیے کسی کو دیکھ کر یا اس کا نام سن کر یہ سب حال بتا بھی دیتے ہیں اور سنوار بھی دیتے ہیں وغیرہ غیرہ۔

بابوں اور روحانیت پر اخباری علم حاصل کرنے کے بعد ذکر اذکار اور وظیفوں کا سلسلہ شروع کیا، اور امید تھی کہ بہت جلد کوئی بابا جی ملیں گے اور ہمیں اپنی مریدی میں شامل کرلیں گے لیکن مہینوں گزر گئے کچھ نہ ہوا، وظیفوں کا سلسلہ بہت بڑھا لیا لیکن طبیعت میں کوئی روحانیت پیدا نہ ہوئی۔ کوئی قرب کی علامت نہ ملی۔ دل کو تسلی دی کہ یہ راہ کٹھن ہے۔ دوسال گزر گے کچھ نہ ہوا۔ بہت سے مزاروں کے چکر لگائے لیکن کچھ نہ ملا، پھر ایک دن ایک مشہور بابا جی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بابا جی  اپنی شہرت کی طرح ماڈرن حلیے میں سگریٹ پیتے ملے۔ ان کے اسسٹنٹ نے ایک منٹ کی ملاقات خیرات میں دی۔ کیونکہ بابا جی کسی جرنیل صاحب کے ساتھ میٹنگ میں جانے والے تھے۔ عقیدت کے شیرے میں تو پہلے ہی ڈوبا ہوا تھا۔ بابا جی نے نام سن کو جو بتایا اسے سینے سے لگایا، حیرت کی بات تھی بابا جی کو پتہ نہیں چلا کہ میں روحانیت کی راہ کا مسافر ہوں خیر کوئی نہیں۔ پورے ایک منٹ کے بعد ہم زبردستی دربار سے نکال دیے گے۔

عقیدت میں بابا جی کے سارے لیکچر اور کتابیں پڑھ ڈالیں ساری تسبیحات کرلیں۔ ہر وقت ذکر اذکار کا سلسلہ جاری رکھا۔ دو سال مزید گزر گئے۔ روحانیت کے لیے مطالعہ اور باقی سارے شوق چھوڑ دیے۔ لیکن اندر سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ شاید کہیں کوئی کمی تھی۔ اس دوران بابا جی سے ملاقات کی کئی کوششیں کیں لیکن ان کے اسٹنٹ ملنے نہیں دیتے تھے۔ دروازے سے دھکے دے کر بھگا دیتے۔ پھر ملاقات ہوتی بھی تو بابا جی ایسے ملتے جیسے انہیں کچھ پتہ ہی نہ ہو ہمارے بارے میں۔

دو سال پھر گزر گئے روحانیت کی کوئی منزل طے نہیں ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پانچ سال میں ذرا برابر بھی بہتری نہیں ہوئی۔ خیر دوسرے مشہور بابوں کی تلاش بھی جاری رکھی۔ ایک اور مشہور بابا جی کا پتا چلا جو عوامی خدمت میں وقت صرف کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کی کوشش کی۔ پتہ چلا اسلام آباد میں ایک کوٹھی میں فقیر ہفتے میں ایک دن اپنی بڑی گاڑی میں آتا ہے اور اس کے پاس سب بڑی بڑی گاڑیوں والے ہی آتے ہیں۔ ان بڑے لوگوں کو دیکھ کر ہم پریشان تھے کہ ان لوگوں کو کیا مسئلہ ہے، مسائل تو مجھ جیسے سڑک چھاپ کے ہوسکتے ہیں۔ خیر یہاں ٹوکن لے کر ملاقات کرنی پڑتی تھی۔ یہاں بھی دس سیکنڈ کی ملاقات ہوئی۔ بابا جی نے ایک ٹافی پکڑائی اور باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اور 90 دن کے بعد آنے کا کہا۔ ہمارا خیال تھا کہ نوے دن میں ہماری روحانی راہ کھل جائے گی۔ مگر ایسا نہ تھا۔ اگلی ملاقات میں بابا جی ایسے ملے جیسے پہلی کوئی شناسائی ہی نہ ہو۔ اور اتنی حقارت سے نام پوچھا کہ دل کھٹا ہوگیا۔ خیر پھر ٹافی کھا کر باہر آگئے۔

پھر ایک تیسرے مشہور بابا جی سے رابطے کی کوششیں کیں جن کی روحانیت پر تین کتابیں مشہور ہوچکیں تھیں۔ انھوں نے سلام کے جواب کے بعد کہا کہ میں ان کا وقت برباد نہ کروں اور ان کی کتابیں پڑھوں۔ کچھ مہینوں بعد انھوں نے لاہور میں ملاقات کا وقت دیا۔ لیکن جب بندہ ملنے پہنچا تو بابا جی غائب۔ فون کرنے پر معلوم ہوا بابا جی کو یاد ہی نہیں کہ ملاقات بھی تھی۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ زندگی رہی تو پھر کبھی ملاقات ہوگی۔ اس طرح کچھ کم مشہور بابوں سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ سات سال ہوگئے شعوری طور پر ناکامی اور وقت کی بربادی کا احساس ہو رہا تھا۔ بابوں سے ملاقات کرتے ہوئے کچھ باتوں کے مشاہدے کی خواہش تھی مگر وہ پوری نہ ہوئیں جیسے

  1. امید تھی کہ بابے اکابر ملت کے اخلاق مبارکہ کا نمونہ پیش کریں گے اور بہت محبت و شفقت سے پیش آئیں گے، اس کے برعکس تذلیل ہی محسوس ہوئی۔
  2. امید تھی کہ امیر غریب کی تفریق نہیں ہوگی مگر معلوم ہوا بابے بھی صرف پیسے اور رتبے والوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ انہی کے لیے وقت بھی ہے اور دعائیں بھی۔
  3. بابوں کی دعائیں اور وظیفے بھی کام نہیں کرتے۔ اور وہ کوئی بہت بڑی علم و حکمت کی باتیں بھی نہیں کرتے۔
  4. امید تھی کہ کسی کالم نگار یا لکھاری نے سچ بولا ہو، لیکن معلوم ہوا سب منجن بیچتے رہے اور بیچ رہے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments