سرجیکل سٹرائک کا ناکام ڈرامہ


محمد خرم صدیقی

\"khurram\"انڈیا سرجیکل سٹرائیک کا دعوی کر کے پھنس گیا ہے کیوںکہ اس کے پاس اس کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت یا وڈیو نہیں ہے۔ یہ وہ موقف ہے جو رائے عامہ میں مبینہ بھارتی اقدام کے حوالے سے سامنے آ رہا ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اپنے مضحکہ خیز دعوے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے بھارتی افواج اور حکومت سٹرائیک کی کوئی وڈیو بھی جاری کریں گے حالانکہ اب اگر عوامی دباؤ میں آکر یہ اقدام اٹھا بھی لیا گیا تو سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے سوالات کم نہیں کئے جاسکیں گے۔ سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ اگر ایک احمقانہ حرکت اور غلطی تھی تو اس کی جعلی وڈیو بنانا اور اسے عام لوگوں تک پہنچانا اس سے بھی بڑی اور مہلک غلطی ثابت ہو گی۔ اس سے سارے شبہات اور سوالات کا رخ وڈیو کی جانب ہو جائے گا، پوری دنیا سے لوگ اور ماہرین اس وڈیو کے بخیے ادھیڑ دیں گے اور یہ سب بھارت کی مزید جگ ہنسائی کا سبب بنے گا۔ لیکن اس حوالے سے کچھ ایسے سوالات ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا کے سامنے آئیں گے اور ان کے جواب حاصل کرنا یا ان سے پیچھا چھڑانا، بھارتی حکومت اور افواج کے لئے آسان نہ ہو گا۔
مثلاً یہ کہ اڑی حملے جیسے کسی اور واقعے کی صورت میں بھارت کیا کرے گا؟ جیسا کہ اس دفعہ اس نے اس واقعے کی شرمندگی چھپانے کے لئے پاکستانی حدود میں نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا ہے کیا اگلی بار بھی ایسا ہی کرے گا؟ ایسا کرنے کی صورت میں اسے یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ پاکستان اس بار اس ڈرامے کے لئے پوری طرح تیار ہو گا اور بھارت کے لئے اس بار کسی بھی طرح کا دعویٰ کرنا اور پھر کنی کترا کر نکل جانا آسان نہ ہو گا۔ دوسری جانب اگر اگلی بار انڈیا کے واقعتاً پاکستانی سر زمین پر پہنچ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تو یہ یقیناً خطے کو ایک مکمل جنگ کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہو گا اور ایسے اقدام کا کوئی بھی ساتھ نہیں دے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ دنیا ہر بار بھارت کی جانب سے سرحد پار سے دہشت گرد آنے کی بات سننے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گی نہ ہی بھارت ہر بار ایسے بے بنیاد دعوے کر کے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر سکے گا۔ اسی معاملے میں بھارتی ردعمل سے منسلک ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر اڑی جیسے واقعے کی صورت میں بھارتی حکومت سرحد پار دہشت گردی کا الزام نہ لگا سکی اور اس کے بعد سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھی نہ کرسکی تو کیا وہ اپنے عوام، میڈیا اور اپوزیشن کو مطمئن کر پائے گی؟ کیا یہ سب حلقے اور دنیا ایسے حملے کے بعد بھارت کو بزدلی کا طعنہ نہیں دیں گے اور کیا ایسی صورت میں بھارتی حکومت اس دباؤ کا سامنا کرسکے گی؟

اس تمام معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر میں جاری صورت حال ہر روز بگڑتی جا رہی ہے اور وہاں کے عوام اپنی آزادی کی تحریک میں روز بروز شدت لاتے جا رہے ہیں۔ تقریباً تین ماہ سے جاری ہڑتالیں، ہنگامے، بھرپور احتجاج اور اس کے جواب میں بھارتی افواج کا بڑھتا تشدد نہ صرف عالمی بلکہ بھارتی رائے عامہ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ان تمام واقعات کی جھلک نہ صرف خطے بلکہ عالمی میڈیا پر بھی نظر آ رہی ہے اور کشمیریوں کو موقف کو اس سے بھرپور تقویت مل رہی ہے۔ بھارتی حکومت اب سے کچھ عرصہ قبل تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑ کر دن گزارتی رہی ہے لیکن وادی میں قابض بھارتی افواج سے برسرپیکار آزادی کے متوالوں کے ہر وار کو ہر بار سرحد پار مدد سے جوڑنا بھارتی حکومت کے لئے مشکل بھی ہو گا اور مضحکہ خیز بھی۔ کشمیر میں جاری بغاوت کو اس بار سرحد پار سے کوئی مدد حاصل نہیں اور لائن آف کنٹرول پر کڑی نگرانی کے بعد ایسا ہونا تقریاً ناممکنات میں سے ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جس کا ادراک بھاری حکومت کو بھی ہے اور اسی حوالے سے آنے والے وقتوں میں اگر ایسے حملوں میں شدت آئی تو بھارتی حکومت کو اس حوالے سے دنیا کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو اب مسئلہ کشمیر کو سردخانے کی نذر نہیں ہونے دینا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو اب صرف سفارتی اور اخلاقی پاکستانی مدد کی ضرورت ہے اور یہی وہ طریقہ بھی ہے جس کو اپنا کر پاکستان عالمی محاذ پر کشمیر کا مقدمہ قانونی انداز میں لڑ سکتا ہے۔ اگر پاکستان کشمیر کے معاملے پر سمجھ اور عقل سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کا یہ مرحلہ بھارت کو مزید احمقانہ ردعمل دینے اور ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments