ہم نے لاہور میں 25 ہزار اموات کر سکنے والے ڈینگی پر کیسے قابو پایا تھا


کام کی دوسری سطح علاج معالجے کی (Curitive) تھی۔ اس کے لئے سرکاری اور نجی و خیراتی ہسپتالوں میں خصوصی ڈینگی وارڈز (HDU۔ High Dependency Units ) قائم کیے گئے جہاں اس کا مفت علاج ہوتا۔ ہمارے بُزرگوں کے قائم کردہ فلاحی اداروں، اتفاق ہسپتال اور شریف میڈیکل سٹی میں بھی اس کا اہتمام تھا۔ علاج کے لیے ضروری ادویات اور طبی آلات کا فوری انتظام کیا گیا (انہیں بیرون ملک سے ہوائی جہازوں پر بھی منگوایا گیا ) ہسپتالوں میں خصوصی استقبالیہ کاؤنٹرز اور مریضوں کے لواحقین کے آرام دہ قیام کا بندوبست کیا گیا۔

سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹ مفت تھا، ہم نے پرائیویٹ لیبارٹریوں کے لئے اس ٹیسٹ کی فیس 90 روپے مقرر کردی جنہوں نے عوام کی سہولت کے لیے کثیر تعداد میں خصوصی کاؤنٹرز کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سرکاری ٹیمیں باقاعدہ چیکنگ پر نکلتیں اور خلاف ورزی کرنے والی لیبارٹریوں کو جرمانے کے ساتھ سیل بھی کر دیا جاتا۔ اس حکم کی مخالفت کرنے والوں میں عمران خان نیازی پیش پیش تھے۔ وہ اس پر میرے خلاف مقدمہ درج کرانے اور عدالتی چارہ جوئی کرنے کی دھمکیوں پراتر آئے تھے (لاہور ہائیکورٹ نے مفادِ عامہ کے تحت حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیا) ڈینگی کے علاج کے لئے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔

2 روزہ ڈینگی انٹرنیشنل کانفرنس میں سری لنکا کے علاوہ انڈونیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کے ماہرین نے بھی شرکت کی۔ ہم نے اپنے 100 ڈاکٹرز اور نرسز ٹریننگ حاصل کرنے تھائی لینڈ بھجو ائے ( ان میں پرائیویٹ پریکٹشنرز بھی تھے ) مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پر کوئی 10 کروڑ روپے خرچ آیا تھا۔ جو علاقے ڈینگی کے خطرے کی زد میں تھے، وہاں ضروری لٹریچر اور سپرے کے انتظام کیا گیا۔ لاہور کے بعد یہ مہم پورے صوبے میں پھیلا دی گئی۔ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے دوسرے صوبوں کو بھی اس حوالے سے ممکنہ سہولتیں اور رہنمائی فراہم کی۔ پشاور اور سوات میں ڈینگی نے زور پکڑا تو پنجاب سے ماہرین کی ٹیم اور موبائل یونٹ بھجوائے۔

اللہ تعالی نے کرم کیا۔ محنت رنگ لائی اور ہم ڈینگی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ سری لنکن ٹیم واپس جارہی تھی تو ہم نے ان کے لیے 90 شاہراہ ِقائداعظم پر الوداعی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر تسیراکا کہنا تھا کہ وہ اپنے ہم پیشہ پاکستانی بھائیوں کے علم، مہارت، لگن اور جستجو کے علاوہ یہاں کی سیاسی لیڈر شپ کے جذبۂ خیرخواہی اور شبانہ روزمحنت سے بھی متاثر ہوئے۔ یہ ”پولیٹیکل وِل“ تھی جس کے باعث چند ہفتوں کی مہم کے نتائج اس سے کہیں بڑھ کر ہیں جو سری لنکا میں ہم نے برسوں کی کاوش سے حاصل کیے۔

سری لنکن ٹیم کے سینئر رکن ڈاکٹر فرنینڈو بتا رہے تھے کہ ان کی زندگی کے کئی ماہ وسال ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر گزرے۔ سیاستدانوں کے حوالے سے ان کی رائے کبھی اچھی نہیں رہی لیکن یہاں کی سیاسی قیادت جس طرح اپنے عوام کے لیے سرگرم عمل نظر آئی، اس کے بعد وہ سیاستدانوں کے متعلق اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبورہو گئے ہیں۔

ڈینگی کے پہلے سال ( 2011 میں ) 17352 کیس رپورٹ ہوئے اوراموات کی تعداد 252 رہی۔ ان میں وہ بھی تھے جو کئی دوسری بیماریوں کا شکار تھے اور ڈینگی انہیں موت کے قریب لے آیا۔ دوسرے سال ( 2012 ء میں ) صرف 182 کیس رپورٹ ہوئے اور الحمدللہ یہ سب صحتمند ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ دنیا حیران تھی اور خصوصاً سری لنکن ڈاکٹر کہ صرف ایک سال کی مُدت میں یہ کارنامہ کیسے انجام پا گیا۔

ڈینگی خاتمے کی اس قومی مہم میں سبھی نے اپنا حصہ ڈالا۔ یہاں میں اس وقت کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق (جوآج نا کردہ گُناہوں کی سزا بھُگت رہے ہیں ) ، چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ، ڈاکٹر جہانزیب خان، ڈاکٹر فیصل مسعود (مرحوم) ، ڈاکٹر جاوید غنی، ڈاکٹرعمرسیف اور ڈاکٹر وسیم اکرم کا نام بطورِ خاص لینا چاہوں گا۔ اس کے علاوہ تمام اضلاع کی انتظامیہ، پولیس کے چھوٹے بڑے افسران و اہلکاران، ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف، بلدیاتی ادارے اور محکمہ زراعت سمیت تمام محکمے، جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ اب کہ ڈینگی ایک بار پھر حملہ آور ہے، میں نے عزم وہمت کی یہ داستان بیان کرنا اس لیے ضروری سمجھاکہ موجودہ اربابِ اختیار و اقتدار شاید اس سے کوئی رہنمائی حاصل کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2