کرمان کے ایک بچے کا سفرنامہ اصفہان


کتابوں کی دکان سے سو صفحات والی ایک کاپی خریدی۔ اس کے باہر، موٹے قط کے قلم سے خوش خط کر کے لکھا ’سفرنامہ اصفہان‘ ، اس کے نیچے ’بہ قلم مجید‘ لکھ کر گنبد اور مینار بنائے۔ پھر پہلے صفحے پر لکھا ’مادر بزرگ عزیز اور اکبر آغا کے نام جنہوں نے میرے اصفہان جانے کے سلسلے میں بہت زحمت اٹھائی۔ ‘

دوپہر کو بی بی نے مجھے آئینے اور قرآن کے نیچے سے گزارا، روئی اور ڈھیر ساری نصیحتیں کیں۔ ٹرک آن پہنچا تھا۔ میں نے سفرنامہ اور جغرافیہ کی کتاب بغل میں دبائی اور اوپر چڑھ کر اکبر آغا اور ان کے کنڈکٹر کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ٹرک گرڑ گرڑ کرتے ہوئے سٹارٹ ہوا اور اپنی جگہ سے ہل کر سڑک پر روانہ ہوا۔

شہر سے باہر نکلتے ہی میں نے قلم جیب سے باہر نکالا اور لکھا:

”تقریبا تین بجے کرمان سے اصفہان کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت ٹرک میں اکبر آغا کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ دور دور تک کوئی سبزہ اور نہ ہی کوئی درخت دکھائی پڑ رہا ہے۔ تاحد نظر ریت ہی ریت ہے۔ دور خاکستری پہاڑیوں اور ٹیلوں کو دیکھ رہا ہوں۔ گویا خداوند بزرگ نے ریت کو اپنی مٹھی میں لے کر، ریت کو مٹھی میں سے زمین پر تھوڑا تھوڑا کرکے ڈالا ہے جس سے یہ پہاڑ اور ٹیلے بن گئے ہیں۔ اکبر آغا اچھے انسان ہیں۔ ان کی ڈرائیونگ بھی بہترین ہے۔ وہ ابھی گنگنا رہے ہیں۔ آواز کوئی خاص نہیں ہے لیکن پھر بھی ٹرک کی آواز اور ہوا کی ہوہو سے بہتر ہی ہے۔ اسی شعر کو بار بار پڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں انھیں کوئی دوسرا شعر یاد نہیں ہے۔

نعمت روی زمین قسمت پر رویان است
خون دل می خورد آن کس کھ حیایی دارد

”ان کا کنڈیکٹر، اک نوجوان ہے۔ اس کا نام فضل اللہ ہے۔ ابھی رقص کے انداز میں ہل رہا ہے۔ دیکھنے میں وہ کوئی بداخلاق انسان محسوس ہوتا ہے۔ ٹرک کا اگلا حصہ بہت گرم ہے۔ ٹرک کے سامنے کی طرف سے دھوپ پڑ رہی ہے، جس سے چہرہ جھلس رہا ہے۔ میں اس وقت اصفہان کی بو سونگھ رہا ہوں۔ “

میں تیزی کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ اکبر آغا، شاید ان پڑھ ہیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔ لیکن پڑھ نہیں پائے۔ ٹرک کی تھرتھراہٹ کی وجہ سے میرا ہاتھ اوپر نیچے ہو رہا ہے جس سے الفاظ ٹیڑھے میڑھے ہو رہے ہیں ہیں۔

اکبر آغا جب پڑھ نہ سکے تو آخر پوچھا، ”کیا لکھ رہے ہو؟ شاید اپنی دادی کو خط لکھ رہے ہو۔ غمگین مت ہو۔ خط کے پہنچنے سے پہلے ہی خود واپس پہنچ جاؤ گے۔ “

میں نے کہا، ”جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہ سب لکھ رہا ہوں۔ میں واپسی پر کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ کتاب کا انتساب آپ اور بی بی کے نام کروں گا۔ “
ہنسے لگے اور کہا، ”ہاں! جو تمہارا دل چاہے۔ کتابیں لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ “

میں لکھتا رہا لکھتا رہا یہاں تک کہ اندھیرا چھا گیا اور اب میری آنکھیں لکھے ہوئے الفاظ کو پڑھ نہیں پا رہی تھی۔ رات کو ایک قہوہ خانے میں رکے۔ قہوہ خانے میں موجود لالٹین کی روشنی میں، میں نے سفرنامہ کھولا اور لکھنے لگا: ”رات ایک قہوہ خانے پر رکے۔ یہ قہوہ خانہ رفسنجان شہر کے باہر ہے۔ اترتے وقت فضل اللہ نے ٹرک کے ٹائروں کا معائنہ کیا اور یہ دیکھ کر کے ان میں ہوا کم ہے، پمپ اٹھایا اور مدد دینے کے لیے مجھے آواز دی۔ مجھ سے پمپ نہیں دبایا جا رہا تھا، کیونکہ وہ بہت سخت تھا۔ کچھ پمپ مارنے سے ہی میرے بازو دکھنے لگے۔ کنڈیکٹری کافی مشکل کام ہے۔ اس لیے بندے کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ڈرائیور ہی بنے۔ اکبر آغا قہوہ خانے میں تختے پر لیٹے حقہ گڑگڑا رہے ہیں اور ان کا کنڈیکٹر باہر ٹائروں میں ہوا بھرنے میں مصروف ہے۔

”چائے والے نے میرے سامنے چائے کی پیالی رکھی ہے۔ چائے سے ناگوار سی بو آرہی ہے۔ ذائقہ بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ قند کے ٹکڑے بھی گرد سے اٹے پڑے ہیں اور پتھر کی طرح سخت ہیں۔ اگر بی بی کو یہ چائے اور قند دی جائے تو وہ کبھی نہیں پئے گی۔ مجھے نہیں معلوم بی بی اس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ ہم پتہ نہیں کب اصفہان پہنچیں گے۔ میں نے اکبر آغا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا ’جب خدا چاہے گا‘ ۔ آخر چائے والے نے میرے سامنے سے آدھی بچی پیالی اٹھا لی ہے۔ اس نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور پوچھا، ’بیٹا کیا لکھ رہے ہو؟ ‘ ۔“

اکبر آغا نے مذاق اڑانے کے انداز میں جواب دیا، ’کتاب لکھ رہا ہے۔ ‘

”چائے والے نے سر ہلایا اور کندھے اچکائے اور کہا، ’میرے پاس ایک کتاب امیر ارسلان کی ہے۔ جب کوئی پڑھا لکھا آدمی یہاں آتا ہے تو میں اس سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اُس میں سے پڑھ کر سنائے۔ پتا نہیں وہ کتاب کس نے لکھی ہے۔ ‘

پھر میری طرف منہ کرکے بولا، ’ایک کتاب میرے لیے لکھو جو کتاب امیر ارسلان سے زیادہ اچھی ہو۔ ‘
اکبر آغا اور چائے والے کی تمام گفتگو میں نے سفر نامے میں لکھ لی۔

ہمارے سفر کو شروع ہوئے دو دن اور دو راتیں بیت چکی تھیں۔ دوسری رات کو سحری کے وقت اصفہان میں داخل ہوئے تو میرا دل چاہا کہ اڑنے لگ جاؤں۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اصفہان کی سڑکوں پر چلوں اور جو چیز نظر آئے اسے سفرنامے میں لکھتا جاؤں۔ لیکن میری بری قسمت کہ اس وقت اندھیرا تھا اور بدتر بات یہ تھی کہ جہاں ٹرک کی مرمت ہونی تھی وہ ورکشاپ شہر سے باہر تھی۔ ٹرک سڑک سے نیچے اترا۔ ورکشاپ بند تھی۔ ہم وہیں رک کر صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4