ایک خودکش بمبار اور ایک ڈاکٹر


میں نے تھوڑی دیر سوچ کر بڑی لجاجت کے ساتھ کہا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں جو نہایت شرافت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے، میں بے شمار مریضوں کا مفت علاج کرتا ہوں نہ کسی مریض سے ناجائز فیس لیتا ہوں، نہ ہی دوائیں بنانے والی کمپنیوں کے خرچے پر عیاشی کرتا ہوں اور نہ ہی اپنے مریضوں کو بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں بھیج کر کمیشن کی خیرات وصول کرتا ہوں اور نہ ہی میرا کسی لیبارٹری سے معاہدہ تھا کہ میں اپنے مریضوں کے ضروری اور غیرضروری ٹیسٹ کراکر ان سے اپناحصہ بٹوروں۔ کچھ خاندانوں کی کفالت بھی میری ذمہ داری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ خدا بے نیاز نہیں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

”خدا نہیں اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کہو۔“ اس نے مجھے بولتے ہوئے ٹوک دیا۔

”جی بہتر۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ بے نیاز نہیں ہے اور یقیناً ان سب کے لئے اور میرے خاندان کے لئے کچھ نہ کچھ اسباب پیدا کرے گا مگر میرے بھائی کوئی بھی شخص میرے بچوں کو باپ کی شفقت محبت پیار نہیں دے سکے گا۔ آپ جو کہوگے میں کرنے کو تیار ہوں مگر اللہ کا واسطہ ہے مجھے چھوڑدو جانے دو میری گاڑی لے جاؤ۔ میں جب تک زندہ رہوں گا تمہارا احسان مند رہوں گا، آج کے بعد آپ لوگوں کے کسی کام آسکوں تو وہ کام بھی کروں گا۔ آپ یقین کرو میرے بعد میرا خاندان تباہ و برباد ہوجائے گا۔“ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری آواز اتنی درد بھری ہوجائے گی۔

وہ زیرلب مسکرایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ تم تو بڑے ڈرپوک ہو، مسلمان کو اتنا ڈرپوک نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے جہاں چاہے موت دے دے۔ تمہاری موت نہیں آرہی ہے تم ہلاک نہیں ہورہے ہو کسی کیڑے مکوڑے کی طرح بلکہ تم شہید ہورہے ہو۔ تمہیں اپنی شہادت پر خوش ہونا چاہیے ناکہ اس طرح سے میری منت اور سماجت کرو۔

مجھے غصہ آگیا شاید ڈیس پرٹ صورتحال میں غصہ آجاتا ہے۔“ ہاں میں بزدل ہوں، مجھے زندہ رہنے کا شوق ہے، مجھے شہید نہیں ہونا ہے، مجھے نہیں مرنا ہے، اللہ کے لئے مجھے چھوڑدو اور اگر نہیں چھوڑوگے تو میں گاڑی دیوار سے بھی ٹکراسکتا ہوں۔ نہ جانے تمہارا کیا نشانہ ہے لیکن دیوار سے ٹکرانے سے تمہارا نشانہ بہرحال ضائع ہوجائے گا۔ میرے ساتھ تمہاری بھی موت واقع ہوگی اور تمہاری موت ضروری ہے کیونکہ تم مجھے طالبان مافیا کے پہلے سرغنہ لگتے ہو خود خودکش بن کر آیا ہے وگرنہ تم لوگ تو سولہ سترہ آٹھارہ سالوں کے بچوں کو ورغلاتے ہو۔ جو معصوم ہوتے ہیں جنہیں زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا ہے جنہیں دھوکہ دینا آسان ہوتا ہے۔ تم جیسی عمر کے لوگ پہاڑوں میں بیٹھ کر بزدلی کے ساتھ بچوں کو آلہ کار بناتے ہیں انہں ی دوسری دنیا میں جنت اور حوروں کا جھانسہ دیتے ہیں اور خود عیش کرتے ہیں یہ اچھا جہاد ہے تمہارا۔“ میں نے غصے سے مگر دھیرے دھیرے کہا تھا۔

”مجھے غصہ نہیں آئے گا، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔“ میں اور میرے ساتھی غصہ نہیں کرتے ہیں، ہم لوگ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، ہم نے روسیوں کو کابل سے باہر نکال دیا، ہم امریکہ کو بھی افغانستان سے نکال کر باہر پھینک دیں گے۔ امریکہ کی حمایت کرنے والوں کو چُن چُن کر ختم کردیں گے۔ یہ سب کچھ بہت اطمینان سے ہوگا۔ اگر تم کو گاڑی کسی دیوار سے ٹکرانی ہے تو ضرور ٹکرادو، میرا مشن تو شہید ہونا ہے وہ ہوجائے گا اور تم ہلاکت کے بعد کہاں جاؤ گے تمہیں پتہ ہی ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہادت بچے جوان اور بوڑھے کی نہیں ہوتی ہے شہادت تو کسی مقصد کے لئے ہوتی ہے مجھے تم سے یہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں آج شہید ہونے کے لئے کیوں آیا ہوں تم دنیا داروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔

تم لوگوں نے جس طرح ذلت کی زندگیوں کو اپنایا ہوا ہے گوروں دھریوں اور اللہ کے دشمنوں کے ہاتھوں سے ذلیل ہورہے ہو تمہیں کیا کہ ہم شہید کیسے رہتے ہیں کیا کرتے ہیں تم ہمیں مافیا کہو یا شدت پسند اور ہمارے بارے میں مغرب کے اس گھٹیا پروپیگنڈے کو پھیلاؤ کہ ہم حوروں کے لئے لڑرہے ہیں اور لڑکوں کو، ورجن لڑکیوں کا جھانسہ دے رہے ہیں مگر سب کو پتہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اللہ کے لئے جنگ کررہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم یہاں بھی جیت رہے ہیں اور وہاں بھی جیت رہے ہیں۔ ہماری شہادت کے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔ ان کے لئے جو یہاں رہ جائیں گے اور ہمارے لئے بھی جو وہاں چلے جائیں گے۔”

مجھے کالج کے زمانے کے ڈائی لوگ یاد آگئے مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس کے لہجے میں سکون تھا اور غضب کا اعتماد اور اس کے چہرے پر نفرت جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ درحقیقت یہ سب کچھ اس نے مسکراتے ہوئے بڑے نپے تلے انداز میں آہستہ آہستہ کہا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ شخص ضرور کسی خاص مشن پر نکلا ہے۔ مجھے موت سامنے نظر آنے لگی تھی۔

میرے ذہن نے کام کرنا شروع کردیا، مجھے پتہ تھا کہ آگے ٹیپو سلطان روڈ کے جنکشن تک کوئی بھی ٹریفک کی بتی نہیں ہے لہٰذا گاڑی اسی طرح سے چلتی رہے گی۔ میں نے سوچا کہ میں گاڑی یکایک روک دوں اور باہر نکل کر دوڑ لگادوں اگر اس جہادی نے اپنے آپ کو اُڑا بھی لیا تو شاید میں بچ جاؤں۔ اگر اس نے کسی جگہ گاڑی رکوا کر خود کو اُڑایا تو پھر شاید کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اس شخص سے بات چیت بھی جاری رکھنی چاہیے شاید میں اسے قائل کرسکوں کہ وہ مجھے چھوڑدے۔

”آپ کا یقین اپنی جگہ پر شاید درست ہو۔“ میں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ کچھ لمحوں کے لئے میں نے سوچا کہ جیسے ہی وہ فون سے بات کرنے کے لئے بٹن دبائے گا بم پھٹ جائے گا آج کل اسی طرح سے ہوتا ہے جدید ٹیکنالوجی کا یہ استعمال نیا تھا۔ جلسوں میں اسٹیج کے نیچے، کسی بازار میں کسی اسکوٹر پر بم فٹ کردیا جاتا ہے جس کے ساتھ موبائل فون لگاہوتا ہے۔ جس وقت دھماکہ کرنا ہو فون کرکے تباہی پھیلادی جاتی ہے، شاید یہاں بھی یہی ہو، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس نے فون پر دھیمے لہجے میں پشتو میں مختصر بات کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4