ایک خودکش بمبار اور ایک ڈاکٹر


ہم لوگ اب پاکستان ایئرفورس بیس کے پاس پہنچ گئے تھے اور غیرارادی طور پر ایکسی لیٹر پر میرا دباؤ بڑھ گیا اور گاڑی تھوڑی تیز ہوگئی۔
”گاڑی آہستہ چلاؤ“ اس نے دھیرے سے کہا۔

میں نے ایکسی لیٹر پر دباؤ کم کردیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ”میں آپ کی ہمت اور بے خوفی کا معترف ہوگیا ہوں مگر پھر ایک بار کہہ رہا ہوں کہ اللہ کے لئے مجھے گاڑی سے اُتاردیں اور گاڑی جہاں بھی لے جانی ہے لے جائیں، میں کسی سے کچھ بھی نہیں کہوں گا۔“

”اللہ کی راہ میں جو نکلتے ہیں وہ بے خوف ہوجاتے ہیں۔ ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں کسی سپرطاقت سے نہیں۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑسکتا ہے۔ یہ صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو انصاف اور اللہ کے راستے پر ہیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”مگر اللہ کی راہ میں جان دینے والے لوگ معصوم عورتوں اور بچوں کی جانیں کیوں لیتے ہیں، یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے اوراللہ کا حکم بھی نہیں ہے کہ عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جائے جو بے چارے اپنے کاموں کے سلسلے میں گھر سے نکلتے ہیں اور واپس ان کی لاشیں لائی جاتی ہیں۔“ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

”یہ جنگ ہے اور جنگ میں یہی ہوتا ہے۔ جب وہ حملہ کرتے ہیں زمین پر ہتھیاروں سے اور جب بم برساتے ہیں ہم لوگوں پر تو وہ صرف نشانہ دیکھتے ہیں، ان معصوموں کو نہیں دیکھتے ہیں جن کی جان چلی جاتی ہے۔“ اس کی آواز میں درد اور غصہ دونوں واضح تھا۔

”مگر وہ اللہ کے لئے نہیں لڑرہے ہیں، آپ اللہ کے لئے لڑرہے ہیں، آپ میں اور ان لوگوں کی جنگ میں فرق ہونا چاہیے۔ وہ باطل ہیں آپ حق ہیں، وہ جھوٹے ہیں آپ سچ ہیں۔ ان کا مطمع نظر دنیا ہے آپ کی منزل دین، پھر یہ کہ وہ اپنے لوگوں کو نہیں مارتے ہیں ان کا نشانہ بھی مسلمان بن رہے ہیں اور آپ کا نشانہ بھی مسلمان بن جاتے ہیں۔ دونوں میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔“ میں نے بہت احتیاط سے ان جملوں کی ادائیگی کی۔

گاڑی کارساز کے موڑ سے آگے گزرچکی تھی، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص کیا کررہا ہے اور کیا کرنا چاہ رہا ہے۔

”جنگ صرف جنگ ہوتی ہے اور جنگ کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور دونوں جانب سے جنگ میں یہی ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہ بھی ہم نے امریکیوں سے سیکھا ہے۔ اس وقت سیکھا ہے جب روس کے خلاف جنگ میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ میں آٹھ منٹ میں انسان کی کھال کھینچ لیتا ہوں۔ انسان زندہ رہتا ہے مگر اس کی کھال باہر آجاتی ہے۔ یہ مجھے ہمارے امریکی دوست نے سکھایا تھا۔ ہم لوگوں کی تربیت کی تھی اس نے۔ سب اسے ڈائمنڈ کہتے تھے برادر ڈائمنڈ، نہ جانے اس کا اصلی نام کیا تھا۔

وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ ہم لوگ روسی سپاہیوں، افغانستان میں موجود روسی شہریوں یا ان کے جاسوسوں کو اغوا کرتے پھر انہیں لٹکا کر ان کی کھال کھینچ لیتے تھے اور بغیر کھال کے زندہ آدمی یا اس کی لاش کو کابل کی سڑکوں پر پھینک دیتے تھے۔ یہ ایک غیرانسانی فعل ہے مگر اس کا مقصد دشمن کو خوفزدہ کرنا ہے اسی طرح سے جس شہر، محلہ اور گاؤں کے لوگ ہمارے خلاف ہوتے ہیں ہم وہاں کے مشہور لوگوں کو پکڑ کر ان کی گردنیں کاٹ کر ان کے جسم اور گردن کو شہر کے چوک میں لٹکادیتے۔ اس کے بعد لوگ خاموشی سے ہمارے سامنے سرجھکادیتے، وہی کرتے جو ہم چاہتے تھے، یہ موجودہ زمانے کی جنگی حکمت عملی ہے یہ نیا انداز ہے جنگ کرنے کا، نیا طریقہ ہے دشمنوں سے نمٹنے کا۔“

یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا، کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔

”اس دن پانچ روسی فوجی اور ان کے دو شہری پکڑے گئے اور مجھ سے کہا گیا تھا کہ ان میں سے ایک کی کھال کھینچنی ہے۔ یہی میرا امتحان تھا۔ ان دہریوں کے ہاتھ پیر باندھ کر کھڑا کیا گیا، پھر ان میں سے ایک کو میں نے اپنی مرضی سے چنا اور ان سب کے سامنے اس زندہ آدمی کو لٹکا کر گردن کے نیچے سے اس کی کھال کھینچ دی میں نے۔ جیسے قصاب بکرے کی کھال کھینچتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنبہ یا بکرا مرا ہوتا ہے اور یہ زندہ تھے۔

دس بارہ منٹ لگے ہوں گے مجھے۔ ان دہریوں کی شکل دیکھنے کے لائق تھی۔ ایک تو فوراً ہی مرگیا، وہ دونوں لاشیں اور بقیہ روسی ہم نے کابل پہنچا دیے تھے۔ یہی طریقہ کار تھا دشمنوں میں دہشت پھیلانے کا۔ اور اسی طریقے سے روسی بھاگے افغانستان سے۔ یہاں بھی یہی کریں گے ہم لوگ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کتنے معصوم مرتے ہیں اور کتنے مجرم۔ مقصد تو امریکیوں اور ان کے پٹھوؤں کو نکالنا ہے، یہی کریں گے اور ایسا ہی ہوگا۔ انہوں نے ہی ہمیں سکھایا تھا اور اب ان کے ساتھ ہی ہم یہ کررہے ہیں۔ اب پاکستانی حکومت کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستانیوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اللہ کے ساتھ ہیں کہ امریکہ کے ساتھ۔”

میرے دل میں شدید نفرت کا جوار بھاٹا سا اُبلا اور سارے جسم پر رعشہ سا طاری ہوگیا۔ جنگل میں بھی یہ سوچ نہیں ہوتی ہے۔ جانور جانور کے ساتھ یہ نہیں کرتا ہے جو انسان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ یہی کچھ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا۔ انہیں موجودہ اسرائیل سے نکالنے کے لئے ہراساں کیا، گاؤں کے گاؤں اُجاڑدیئے، راتوں کو گولیاں چلا کر معصوم بچوں اور عورتوں کی جانیں لی۔ زبردستی زمین خالی کراکر اپنے گھر بسائے، خان یونس کی داستان پرانی نہیں ہے اس رات نہتے فلسطینیوں کو ان کے گاؤں میں گھس کر قتل کیا گیا۔

یہ صہیونیوں کا ٹولہ تھا جس نے نہ بچے چھوڑے نہ عورتیں، نہ بوڑھوں کو بخشا اور نہ جوانوں کو زندہ رہنے دیا۔ اسرائیل کی مملکت بنانے کے لئے نہ جانے ایسے کتنے گاؤں، دیہات تاراج کردیئے گئے، انہیں بے دخل کیا گیا، لاشوں کے ڈھیر بنائے گئے اور سینی کاگ کی عمارتیں کھڑی کی گئیں، یہی کچھ امریکیوں نے ویتنام اور کمبوڈیا میں کیا تھا اور افغانستان کی جنگ میں مجاہدوں کو یہی سکھایا تھا کہ کس طرح روسیوں کو خوف زدہ کرنا ہے اور اب ان کے سکھائے ہوئے مجاہدین پاکستانیوں کے ساتھ یہی کررہے ہیں۔ شہروں میں بم پھوڑرہے ہیں، سر تن سے جدا کرکے لاشیں لٹکارہے ہیں۔ پاکستان کو اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے، میرے ذہن میں خیالات کے طوفان اُٹھ رہے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4