رائیٹ لیفٹ یا رائیٹ رانگ ؟


\"syed-badar-saeed\"ایک مدت ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا تھا میں دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہوں ۔ ایک مدت ہی ہوتی ہے ۔مجھے احساس ہونے لگا کہ بائیں بازو سے بھی میرا زمین کا کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ میرے کھونٹے سے بھینس تو انہوں نے بھی نہیں کھولی تھی ۔ میرے لئے اپنی وابستگی کسی ایک سے ظاہر کرنا مشکل ہونے لگا ۔ میں پاکستانیت پر یقین رکھتا ہوں ۔ میں اسلامیت پر بھی یقین رکھتا ہوںاور یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلامیت ایک نہیں دو جہانوں کے لئے رحمت کی بات کرتی ہے ۔ یہاں تک تو میں دائیں بازوں کا نمائندہ ہوں لیکن سانحہ یہ ہوا کہ مجھے ماں بھی اچھی لگنے لگی چاہے وہ میکسم گورکی کی ہی کیوں نہ ہو ۔ میں مطالعہ کے وقت اس غریب فاقہ کش کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہوں جو روٹی لیتے وقت یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کرتا کہ یہ محرم کی نیاز ہے ، رجب کے کونڈے ہیں ، گیارہویں شریف کا ختم ہے ،قل یا چہلم کے چاول ہیں ، میلاد شریف کا دلیم ہے ، صدقہ خیرات ہے یا پھر برات کے بعد بچا ہوا نان ۔ وہ اس وقت صرف مذہب بھوک کا پیروکار ہوتا ہے۔

اس دوران مجھے بائیں بازو کی اہمیت کا بھی احساس ہونے لگا ۔ عقیدت کی بجائے فکری مباحثے ، فلسفہ اور تاریخ کے نئے حوالے سامنے آنے لگے ۔ میں وہ تاریخ بھی پڑھنے لگا جسے پڑھتے ہوئے کان لال ، نکاح ٹوٹنے اور کلمہ لوٹنے کا ڈر تھا۔آدھی تاریخ دائیں بازو نے رٹوائی تو باقی آدھی تاریخ بائیں بازو نے پڑھوا دی لہذا تاریخ کے مطالعہ میں بھی میرے دائیں اور بائیں بازو دونوں گناہ گار ٹھہرتے ہیں ۔ رائیٹ اور لیفٹ کا یہ جھگڑا اس لئے نمٹ گیا کہ میں آدھا آدھا دونوں کا نمائندہ ٹھہرا اور دونوں جانب سے آدھا آدھا معتوب ہوا ۔ اب کہانی رائیٹ اور رانگ کی طرف چلی گئی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک رائیٹ اور رانگ کاچورن بکتا نظر نہیں آتا۔ ہم قوانین اور ضابطہ اخلاق کی بات بھی کرتے ہیں لیکن چاٹ بارہ مسالوں والی ہی پسند کرتے ہیں ۔

میرا المیہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں ہم سب ایک ہوں ۔ مجھے دلیل اور مکالمہ پسند ہیں ۔ میں وجود کو بچانے کا قائل ہوں۔ میں فکری بحث کرنا چاہتا ہوں لیکن ہمارے یہاں تہلکہ پسند کیا جاتا ہے۔فکری بحث تو ہمیں سوچ بدلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ آپ کے دلائل مضبوط ہوئے توآپ مجھے قائل کر لیں گے ۔ میرے دلائل زور دار ہوئے تو میں آپ کو قائل کر لوں گا ۔ یہی تو بنیادی اصول ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سمجھائیں کسے اور مانے گا کون ؟ اگر انا کے گھوڑے پر ہی سوار رہنا ہے تو پھر ان مباحثوں کا بھی کیا فائدہ ؟ کافر کافر کا نعرہ لگا کر عبادت گاہیں ہی اڑانی ہیں تو پھر فکری نشستوں ، خطبوں ، اور مجلسوں کے نام پر وقت کا ضیاع کیوں ؟

اگر ہم نے اسی معاشرے کا حصہ بنے رہنا ہے جہاں چادر ٹھٹھرتی عورت کی بجائے مزار پر چڑھنی ہے ، ادھار لے کر لنگر کی دیگ بانٹنی ہے اور جہیز کے نام پر داماد خریدنے ہیں ۔ اگر ہم نے ابھی بھی مکالمے میں شکست پر کافر کا نعرہ لگانا ہے اور خبر دبانے کے لئے مخالف فرقے کا ایجنٹ ہی کہنا ہے تو پھر یہ ٹھیلا سجانے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ ہم ایسے تو معاشرہ بدلنے آئے تھے اور معاشرہ بھی وہ جہاں نئی کتاب بھی پاک ٹی ہاﺅس کے باہر گٹر کے پانی کے درمیان فٹ پاتھ پربیچی جاتی ہے ۔ جہاں ادب کے نام پر کھلنے والے پاک ٹی ہاﺅس کی سب سے بڑی کمائی مکالمے کی بجائے معانقے کے لئے آئے طلبا کے ذریعے ہوتی ہے اور ویٹر ٹپ نہ دینے والے شاعر کوحقارت سے دیکھتاہے۔ جی صاحب ! یہ وہی معاشرہ ہے جہاں پاک ٹی ہاﺅس میں کوئی شاعر ، ادیب اس وقت تک سالگرہ کا کیک نہیں کاٹ سکتا جب تک وہاں کی دو چار سکہ بند تنظیموں سے اجازت نہ لے۔

یاد آتا ہے۔ ایک عرصہ ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر فکری بحث کا نام و نشان نہ تھا ۔راوی چین ہی چین لکھتا تھا ۔ نوجوانوں کی اکثریت یا تو ایک کی تصویر دوسرے کے دھڑ پر لگانے کا تخلیقی کام سر انجام دے رہی تھی یا پھر دوست کے ساتھ دوستی کا حق ادا کرنے کے لئے اس کی فرینڈ لسٹ سے لڑکیوں کو تلاش کرنے کا تحقیقی کام کر رہی تھی ۔برا ہو اب یہ سکون بھی غارت گیا ۔ چند ویب سائیٹس نے ان کی دلچسپیاں اپنی جانب کھینچ لی ہیں ۔ اب یہاں بھی لیفٹ رائیٹ کے ”جہادی “ رائیٹ اور رانگ کی جنگ لڑنے آ گئے ہیں ۔ وجاہت مسعود اور عامر خاکوانی ایسے لوگ اپنے اپنے لشکر وں کے ساتھ میدان میں اتر آئے ۔ دونوں جانب سے اچھی بات یہ ہے کہ حروف کی جنگ لڑتے ہیں ۔ اختلاف پر گردنیں کاٹ دینے کی بجائے دلائل کی گولہ باری پر یقین رکھتے ہیں ۔یقینا یہ اختلاف رائے زندگی ہے اور مجھ ایسے ابھی جینا چاہتے ہیں ۔اس جنگ میں کودنا چاہتے ہیں لیکن ڈر یہ لگتا ہے کہ کہیں پھر سے وہی کہانی نہ شروع ہو جائے ۔ کوئی کافر یا مسلمان ہونے کا فتوی نہ لگا دے ۔ درخواست یہی ہے روایتی قلم کاری کے ساتھ ساتھ اگر ذرا ہٹ کے لکھنا چاہوں تومیری مسلمانی چیک نہ کریں۔ میری مسلمانی میں میرا کوئی کمال نہیں ہے ۔ اگر چیک ہی کرنا ہے تو میرے بچے کی مسلمانی چیک کیجئے کیونکہ ہمارے روایتی معاشرے میں بچے کا نام اور مذہب اس کے والدین کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے ۔ میرا ایمان میرے اور خدا کے درمیان راز رہنے دیں ۔میرا کلمہ میرے رب کی رضا کے لئے ہے لہذا آپ مجھے انسان ہی تسلیم کر لیں تو کافی ہو گا۔ میرے دلائل قابل قبول ہوں تو قائل ہو جائیں ۔ اختلاف رائے ہو تو اپنے دلائل پیش کر دیں اور مجھے قائل کر لیں۔ زندگی کا یہ کھیل ہم اچھے انداز میں بھی تو کھیل سکتے ہیں ۔ کیا کہتے ہیں وجاہت بھائی ؟

(بجا فرماتے ہیں ، سید بدر سعید۔ بات کہنی چاہیے۔ بات سننی چاہیے۔ معاشرے میں کہی گئی کوئی بات رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمیں حق ہے کہ اپنی بات کہیں۔ ہمیں دوسروں سے ان کا حق اظہار چھیننے کا حق نہیں ۔ ہم ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں۔ پڑھنے والا، لکھنے والے سے اور سننے والا، کہنے والے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments