پروردگار کا انکار کرنے والے جدید ابلیس


\"hinaبچپن میں پڑھا تھا ’’فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا‘‘۔ نہ جانے کیوں تب سے اب تک فرشتہ اور انسان ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہی کھڑے نظر آئے۔ ہم نے اس لئے بر تر مخلوق کا تمغہ اپنے سینے پہ لگایا کہ ہم میں شعور، آگہی، علم اور بصیرت فرشتوں سے زیادہ تھی۔ لیکن آج جب ایٹمی تباہی کی لرزہ خیزیوں کو معمولی گرداننے والا یہ حضرتِ انسان میڈیا کی تھاپ پر طبلِ جنگ بجنے، دشمن کو دھول چٹانے سے لے کر ناکوں چنے چبوانے تک ایٹمی طاقت کی نمائش کی بدتر اور منہ زور خواہش کا اظہار کرتا ہے تو یہ سوال ایک بار پھر کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی فرشتے سے بہتر ہے انسا ن بننا؟

بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہمارے حواسوں پہ سوار یہ جنگی جنون جب ہماری رگوں میں خونِ تیموری بن کر دوڑتا ہے تو ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ غربت، بھوک، جہالت، مذہبی فرقہ واریت، دہشت گردی اور خود کش بم دھماکوں جیسی چھوٹی چھوٹی جنگوں سے آئے دن بر سرِ پیکار رہنے والے ہم ستم گزیدہ لوگ ایک بڑی اور خوفناک ایٹمی جنگ کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہماری یہ نفرت، اشتعال انگیز رویے، نعرے بازیاں، ایٹمی تباہی کی دھمکیاں اور فریقین کا ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے بیانات کا تبادلہ دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت اور خیر سگالی کے جذبات کو روندنے کے در پہ ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے جنگ کو ایک مقدس فریضہ بنا ڈالا ہے اور شہادت کے نام پراس کی ادائیگی اپنی نہتی، غریب، مجبور اور بے بس عوام پہ فرض کر دی ہے۔ جنگ اور اس کی تباہ کاریوں کے تحت ہونے والی ہلاکتوں کو ہم قوم پرستی کے نام پر شہادت کا رتبہ عطا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں ان ہلاک ہونے والے شہداء میں ایک بڑی تعداد ان معصوم لوگوں کی ہے جنھیں شہادت کی نہیں زندگی کی چاہ تھی۔جن کی آنکھوں میں ابھی اور جینے کی حسرت اور دل میں محبت کے کئی خواب ادھورے تھے۔

امن اور انسانیت کے نام پر ظلم اور بربریت کا شکار ہونے والے معصوم لوگوں کو دیکھ کر مجھے جاویدہ جعفری کا افسانہ’’ جاگے پاک پروردگار‘‘ یاد آتا ہے۔ آج سے کئی سال قبل اس افسانے پر انہیں معتوب قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ ان کی وہ تخیلاتی منظر نگاری تھی جس میں انہوں نے یہ دکھانے کی جرأت کی تھی کہ قوم پرستی، فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں شہادت کا لقب پا کر رخصت ہونے والے جب بارگاہِ ایزدی میں روتے بلکتے پہنچتے ہیں تو وہاں کا منظر کیا ہوتا ہے۔ اس طویل افسانے کے چند پُر اثر اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’فرمانِ الٰہی نازل ہوا اور لاکھوں زخمی لوگ گروہ در گروہ گرتے پڑتے تخت کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ ان کے پاؤں پھٹے ہوئے اور ننگے تھے اور نیم برہنہ جسموں پر دھوئیں کی تہیں اور بالوں میں راکھ کے انبار اور اندر دھنسی ہوئی آنکھوں میں خون کے جمے ہوئے قطرے۔۔ کسی کا سر نہیں تو کسی کا پیر غائب۔۔‘‘

ایسی اذیت ناک موت کی جواب دہی عزرائیل سے طلب کی گئی تو اس نے ہاتھ جوڑ ڈالے اور گویا ہوا:

’’یہ وحشت یہ درندگی ان کی اپنی کرتوت ہے۔۔ میں نے دنیا کے گرد مشرق و مغرب کے چکر لگائے، روم و انطاکیہ کے میدانوں پر سے گزرا اور ابو الہول کے سر پر بیٹھ کر نیل کے ساحل پر سے گزرنے والی قوموں کی یکے بعد دیگرے رہنمائی کی، سیزر اور انطونی پر مصر کے راز منکشف کئے اور پھر بابل و نینوا کی تین ہزار سالہ پرانی تہذیب کو مٹی میں ملا دیا۔ میں نے بار ہا کھولتے ہوئے لاوے کی شکل اختیار کر کے عظیم الشان شہروں کو اپنے دامن میں لپیٹ لیا۔ سکندر و دارا کے ساتھ ملک ملک گھوما۔ تاتاریوں کے لشکر کے ساتھ مجسم موت بن کر جھپٹا اور روس و فرانس کے گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہائیں اور پھر زمانہ قریب کی جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو نگل گیا۔ مگر وہ تو جنگ کی ہولناکیاں تھیں جو جنگ سے جدا نہیں کی جا سکتیں۔۔ مگر میں نے آزادی کی تباہ کاریاں پہلی بار دیکھی ہیں۔۔ ان کی وحشت و درندگی نے مجھے ششدر کر دیا ہے۔ خون کے دریاؤں میں میرے پیر لتھڑ گئے ہیں اور وہ اب بھی باز نہیں آتے۔۔‘‘

یہاں کہانی کے اس منظر میں ایک مسخ چہرے والا بوڑھا آگے بڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے بس اتنا ہی کہہ پاتا ہے:

’’وہ کہتے تھے کہ اس سر زمین پر ہمارا کوئی حق نہیں۔۔ وہ ہمیں تیرا نام لے لے کر قتل کرتے رہے خداوند! ‘‘

انسان جب انسانیت کے مرتبے پر فائز نہ رہے اور درندہ بن جائے تو اس کی باز پرس ابلیس سے کی جاتی ہے۔ اس عدالت میں جب ابلیس کو گھسیٹ کر لایا گیا تو اس نے دونوں گھٹنے ٹیک دیے اور گویا ہوا۔

’’اے ربِ رحیم وہ نہ تیری عظمت تسلیم کرتے ہیں اور نہ میری ہمراہی چاہتے ہیں۔ اب وہ میرے استاد ہیں اور میں ان کے سامنے ایک چھوٹے بچے کی طرح سادہ وبے وقوف۔۔ اب وہ میرا بھی مضحکہ اُڑاتے ہیں اور تیرا بھی۔۔ میں ان کی چالاکیوں سے عاجز آگیا ہوں۔۔ کہ عبادت گاہوں میں وہ میرا روپ دھار کر’’مسیح ناصری‘‘ کی ہتھیلیوں میں میخیں ٹھوک دیتے ہیں۔ ان کے پاس یدِ بیضا بھی ہے اور طلسمِ سامری بھی۔۔ میں بوڑھا ہو کر ان سے مات کھا گیا۔۔‘‘

اس بیان کی صداقت پرکھنے کے لیے دو فرشتوں کو بصورتِ انسان زمین پر اتارا گیا جنھوں نے ہر سمت ظلم و بربریت کا میدان گرم دیکھا۔ وہ جہاں بھی گئے حضرتِ انسان نے انہیں اپنا وہ سفاک چہرہ دکھایا کہ انہیں اپنی جان بچانی مشکل نظر آئی۔ تنگ آ کر بھاگے تو ایک عقوبت خانے میں جا پھنسے جہاں ایک شخص کو دیکھا جس کی کٹی ہوئی زبان سے خون رستا تھا۔ استفسار کیا تو پتہ چلا :

ــ’’یہ ایک مشہور موسیقار تھا۔ جو نت نئے نغمے گا کر اپنے آقاؤں کا دل بہلایا کرتا۔ جب یہ گانا شروع کرتا تو سیاہ بادل اُمڈ اُمڈ کر آتے۔ سوکھے درختوں میں سے پھولوں کی بارش ہوتی۔ مستانہ ہوائیں شبنم کے موتی بکھیرتیں اور لوگ مدہوش ہو جاتے۔۔ دیپک راگ۔۔ جس کی آتشیں تانوں سے صدیوں کے بجھے دیے جل اُٹھتے، سمندر کا پانی بپھر کر کھولنے لگتا اور شعلے لپک لپک کر آسمان تک جا پہنچتے۔۔‘‘

تب انہوں نے خوشی سے اس کے آقاؤں کی بابت پوچھا:

ہاں وہ پاگل تو ضرور ہوگئے مگر خوشی سے نہیں غصہ سے۔۔ دِیوں کا جلنا وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کے قانون کے خلاف تھا۔ انہیں تاریکی سے الفت تھی۔ سیاہ گھٹا ٹوپ اندھیروں سے، لہراتی گھٹاؤں سے۔ مگر بادلوں میں تڑپتی ہوئی بجلی ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی اور وہ غضب ناک ہو جاتے۔ ان قطار در قطار جلتے دیوں کی مدھم مدھم آنچ سے اُن کے طلائی محلات پگھلنے لگتے۔۔ پھر ان لرزتی ہوئی روشنیوں کے شعلہ جوالہ بن جانے کا بھی تو خطرہ تھا۔۔ انہوں نے اسے ہر طرح سمجھایا۔ اذیت ناک سزائیں دیں۔ مگر یہ۔۔ باز نہ آیا۔ تنگ آکر انھون نے اس کی زبان کاٹ دی۔ اب نغموں کی بجائے یہ جیتا جیتا سرخ خون تھوکتا ہے۔۔‘‘

شرفِ آدمیت کے اعلیٰ ترین درجوں پہ فائز ہونے والے انسان کے کریہہ مظالم دیکھ کر ان کے دل خوف سے کانپ اٹھے۔ ایسا ظلم تو انہوں نے عرشِ معلیٰ پر بھی نہ دیکھا تھا۔ ان کی آہ و زاری میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے واپسی کے لیے دعائیں مانگیں۔ قبولیت پر جب ان کو واپس بلایا گیا تو وہ مارے خوف کے کانپتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پائے۔

’’اے قادرِ مطلق۔۔ تیرے مجرم۔۔ لاکھوں کی تعداد میں تیری دنیا میں پھیلے ہوئے۔۔ وہ ہر روز لاکھوں انسانوں کی ہڈیاں جلا کر اپنے محلات کے لئے سونے چاندی کی اینٹیں ڈھالتے ہیں۔ مذہبی پیشوا ان کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچ رہے ہیں اور مذاہب ڈھکوسلے بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ موسیقاروں کی زبانیں کاٹ لیتے ہیں اور مصوروں کے ہاتھ بھی تاکہ وہ انسانیت کی روشنی میں ان کی بھیانک تصویریں دنیا کو نہ دکھا سکیں۔۔ وہ خود تو جنت میں جانے کے قابل نہیں اور باقی لوگوں کو انہوں نے جانوروں سے بد تر بنا دیا ہے۔۔‘‘

کہانی کے ان طویل اقتباسات کے بعد فرشتے اور انسان کے تقابل کا فیصلہ ہم قاری پر چھوڑ دیتے ہیں اور چند سوال اٹھاتے ہیں۔ اول کیا کوئی بھی قومی یا نظریاتی مقصد اپنے حقیقی معنوں میں اتنا ہی اہم ہوتا ہے کہ اس کی خاطر کئی معصوم انسانی زندگیوں کی قربانی دے دی جائے؟ دوم جنگی جنون کا شکار ان دونوں ممالک کی گرجتی اکڑتی سیاسی قیادتیں اگر قوم پرستی کے نام پر اپنی ریاست اور عوام کو ترقی اور خوشحالی کی معراج عطا نہیں کر سکتیں تو پھر ایک دوسرے کو للکار کر اپنی ریاستوں کو ایٹمی تابکاری سے آلودہ لق و دق ویرانوں میں تبدیل کر دینے کی خواہش آخر کیونکر رکھتی ہیں؟ سوم کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا کی بڑی سامراجی اور استعماری قوتیں اس خطے میں اپنے قومی مفادات کے پیش نظر جان بوجھ کر ان دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو ہوا دے کر جنگ کا میدان گرم کر رہی ہوں؟ ہمیں ان سوالات کے جوابات تلاشنے کے لئے ایک بار پھر ماضی کو کھنگالنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے ہمارے مستقبل سے وابستہ ان خار دار سوالات کے جواب ہمارے ماضی کی رنجشوں اور لغزشوں میں کہیں الجھے رہ گئے ہوں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہماری بوئی گئی نفرتوں کی فصل کا حاصل محض تباہی، بربادی اور اپنے پیاروں کے ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں سلامتی کا راستہ تراشنا ہوگا۔ وگرنہ یاد رکھئے بندوق اور بارود سے تشکیل دیے گئے امن اور سلامتی کے رشتے انسان سے اس کی فرشتہ صفات چھین لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments