میرے استاد، میرے محسن


کہتے ہیں، جس سے آپ ایک لفظ بھی سیکھ لیں، وہ آپ کا استاد ہوتا ہے۔ ہم ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تو ہیں، اسی تعریف کی رُو سے دیکھیں، تو سبھی کا احترام کریں۔ ایسا ہو جائے، تو انسان کی تقدیر بدل جائے۔ رسمی تعلیم کی بات ہے، تو سب سے پہلے میری یادداشت میں مشنری اسکول ویسٹرج راول پنڈی اور دُبلی پتلی استانی کی تصویر ہے۔ میں نے اُن سے کیا سیکھا، یاد نہیں۔ فیڈرل گورنمنٹ بوائز اسیکینڈری اسکول، آدمی جی روڈ راول پنڈی میں پرائمری کلاس کے انچارج باجوہ صاحب، ان کے ہاتھ میں بید کی چھڑی ہوتی، جسے وہ مولا بخش کہتے تھے۔ اسی اسکول میں ایک استاد تھے، جو ممتاز صاحب کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ یہ اردو کا مضمون پڑھایا کرتے تھے، یہ میرے پہلے استاد ہیں، جنھوں نے الفاظ کے معنی سیکھنے کی طرف توجہ دلائی، نئے نئے الفاظ کی تلاش پر مائل کیا۔

اسکول زمانے میں کچھ عرصے، صابری خطاط کے یہاں جاتا رہا۔ میرے کالج کے ادوار میں شاہد اشتہاری بورڈ لکھا کرتے تھے، جب میں نے اُن کی شاگردی اختیار کی تو وہ ایک دوشیزہ کی زلفوں کے اسیر تھے۔ لڑکی مسلمان گھرانے کی، اور یہ عیسائی۔ شاہد صاحب کا ایمان محبت تھا، اسلام قبول کر لیا۔ لیکن بات پھر بھی نہ بن کر دی۔ یہ ایک قدم دکان کی طرف بڑھاتے، تو دس قدم محبوب کے آستانے کی جانب۔ روز روز کے بہانوں سے تنگ آ کر گاہکوں نے منہ موڑ لیا۔ ان کی کہانی کا انجام یہ ہوا، کہ نہ خدا ملا، نہ وصالِ صنم۔ میری یہ تعلیم بھی ادھوری رہی۔

لاہور میں، سُنار کا کام کرتے، میرے ”استاد جی“ محمد ریاض۔ عمر میں تین چار سال ہی بڑے تھے؛ پتا ہی نہیں چلتا تھا، کب دوست بن کر سینما ہال لے جائیں، بھاٹی گیٹ سے مینگو جوس، یا لوہاری گیٹ کے باہر موٹر سائیکل کھڑی کر کے پلاو کا آرڈر دے دیں۔ یا ایک دم سے اپنی استادی دکھاتے کان پکڑنے کا حکم دے دیں۔ عجیب بات ہے، کہ میرے اکثر استاد وہ ہوئے، جن کا بنیادی کام ”محبت“ نکلا۔ کہتے ہیں، استاد شاگرد کو اپنے سب ہنر نہیں دیتا، ایک آدھ کستوری بچا کر رکھتا ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زائد لڑکیوں سے کیسے محبت کی جاتی ہے، یہ استاد جی سے نہ سیکھ سکا۔

عابد کامران پہلے دوست ہوئے، پھر فوٹو گرافی کے استاد بنے۔ انھی کے توسط سے جمال شاہ تک پہنچا؛ عابد ہنرکدہ اسلام آباد میں اسٹل فوٹو گرافی کی تعلیم دیتے تھے۔ میں ہُنرکدہ میں تھیٹر گروپ کا رکن ہوا؛ انھی دنوں جمال صاحب ڈراما سیرئیل ”کل“ کی پروڈکشن کر رہے تھے۔ فورا حاضری دی، کہ مجھے پروڈکشن ٹیم کا حصہ بنا دیں۔ ”ایکٹنگ کرو، یار“۔ جمال صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں مشورہ دیا، تو میں نے اصرار کیا مجھے ایکٹر نہیں بننا؛ پروڈکشن سائیڈ پہ جانا ہے؛ ایک لمحہ سوچا، اور کہا، ٹھیک ہے۔ آ جاؤ۔ جمال صاحب سے کیا سیکھا، اس کی تفصیل پھر کبھی۔ اس کے بعد ایوب خاور، طارق جمیل کو بھی استادوں کی فہرست میں پاتا ہوں۔

شکیل عادل زادہ؛ میں انھیں استاد کہتا ہوں، وہ مجھے شاگرد نہیں‌ مانتے، دوست کہتے ہیں۔ وہ اتنے بڑے انسان ہیں، کہ کچھ بھی کہیں وہی اعزاز ہے۔ میری پہلی زبان اردو تھی، اس لیے میں اسے اپنی مادری زبان کہتا ہوں۔ اگرچہ سرکاری ادارہ نادرا اس اصول کو نہیں مانتا۔ کچھ پنجاب میں پرورش پانے کی وجہ اور کچھ خانہ بہ دوشوں کی سی زندگی بسر کرنے سے، میری ”اردو“ کو کوئی نیا نام دیا جا سکتا تھا۔ ابھی جو چند لفظ سیدھے ہوئے ہیں، تو بھائی شکیل کے دیے اسباق ہیں۔ یہ الگ بات ہے، کہ ان سے سیکھے کئی الفاظ بہت سوں کی نظر میں اجنبی ہیں۔

انسان سیکھنے کے عمل کو جاری رکھے، تو ہر لمحہ ایک نیا استاد سامنے ہوتا ہے۔ اساتذہ کے احسان کو چکانا ممکن نہیں، لیکن یہ کیا جا سکتا ہے، کہ آپ نے اُن جو کچھ سیکھا، اسے آگے منتقل کر دیا جاے؛ پوری ایمان داری سے؛ کسی لالچ کے بہ غیر۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments