ہماری کہکشاں ہمارے ستاروں سے ہے


\"Sarwatجنگ کی بساط آخر کیسے بِچھ پاتی ، نہ اب نقارہ جنگ بجنے کا کوئی امکان ہے ۔ پاکستان سے سرحد پر سینگ لڑاتے لڑاتے بھارت ”سرجیکل اسٹرائیک“ کے اپنے ہی دعوے کی گتھی میں خود بری طرح الجھ گیا ، کھوکلے بیانات دے کر عالمی میڈیا کے نشانے پر آگیا ۔ سفارتی سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ مزید تن گیا ۔ حالیہ سرحدی کشیدگی کے باعث دونوں جانب بسنے والی عوام کے لہجے سرد جبکہ لہو گرم ہیں ۔ ایل او سی پر شر انگیزی کے بعد بھارت کی ہٹ دھری برقرار جبکہ بھڑک بازی جاری ہے ۔ واہگہ بارڈر پر بھارتی رینجرز کا جوش و جذبہ پاکستان کے سامنے سرد پڑ گیا ۔ پہلے سارک کانفرنس سے قدم پیچھے ہٹالیے ، پھر اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستانی ٹیم سے کسی بھی ممکنہ ٹاکرے سے بچالیا ۔ دونوں جانب الیکٹرانک میڈیا پر تجزیہ کار، سیاسی اور دفاعی ماہرین اپنے اپنے محاذوں پر ڈتے ہوئے ہیں ۔ جملہ بازی ایسی ہورہی ہے جیسے توپ کے دہانے پر بیٹھ کر ٹاک شو کررہے ہوں ۔ اخباروں کے صفحے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں دو طرفہ خارجی تعلقات اور بے لاگ تجزیوں سے سیاہ ہورہے ہیں ۔ سیاہ سے یاد آیا کہ پاکستانی نژاد بھارتی گلوکار عدنان سمیع جنھیں بھارت نے حال ہی میں اپنے شہری کے طور پر گود لے لیا، حالیہ بیان کے بعد ثابت ہوا کہ ان کا خون سفید ہوچکا ہے ۔ دوسری طرف پاکستانی ادکاروں کی حمایت میں اوم پوری کے شدید رد عمل کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادات کے پھوٹ پڑنے کا بھی امکان ہے ۔ یاد رہے کہ کل ہی متنازع بیانات اگلنے والی انتہا پسند بھارتی رہ نما سادھوی پراچی اپنے ہی ”خانز“ کے خلاف بول پڑیں اور پاکستانی فنکاروں کے حامی سلمان، عامر اور شاہ رخ خان کو بھارت کی سرزمین چھوڑ کر پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے ڈالا۔

گویا معاملہ اب سفارتی محاذ آرائی اور کھیل کے میدان سے نکل کر فن و ثقافت کی حدود میں داخل ہوگیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاک و ہند کے کھٹے میٹھے تعلقات برسوں سے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کی مانند بدلتے ہیں ۔ دونوں ممالک کے اداکار اور گلوکار سالہا سال سے دیارِ غیر امن کے سفیر بن کر جاتے ہیں ، مل جل کر کام کرتے ہیں ، شہرت اور دولت سمیٹنے کے ساتھ ایک دوسرے کی عوام میں دلوں میں گھر کر لیتے ہیں ۔ ہم پاکستانی لتا، کشور، رفیع ، مکیش اور جگجیت کے گن گاتے ہیں تو بھارتی جنتا مہدی حسن ، نور جہاں، غلام علی ، راحت فتح علی اور عاطف اسلم کی آوازوں پر جھوم جاتی ہے ۔ اس ضمن میں مشہور شاعر گلزار نے کمال کی نظم لکھ ڈالی، ” آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا ، سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں“ ۔ جگر مراد آبادی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور کہہ دیا کہ ” ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں ، میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ” ۔ بارڈر کے دونوں جانب شعراء ، ادیب ، فن کار اور گلوکار اپنی دانست میں اپنے فن کے ذریعے ایک دوسرے کے دیس میں ایک جیسی ثقافت کے پیامبر ہیں ۔ اب تک دو درجن سے زائد پاکستانی اداکار و گلوکار بھارت کی میڈیا انڈسٹری میں اپنے فن کے جلوے دِکھا چکے ہیں اور اس وقت بھی کچھ بڑے نام اپنے کام کی وجہ سے بھارتی فلم انڈسٹری سے منسلک ہیں جن میں فواد خان، ماہرہ خان ، علی ظفر، عاطف اسلم ، راحت فتح علی خان ، شفقت امانت اور حمیمہ ملک کے نام سر فہرست ہیں ۔

مشاہدہ ہے کہ کچھ پاکستانی فنکار شہرت کے نشے میں بالی ووڈ میں کام کرنے کو اپنے فنی سفر کی سب سے بڑی کامیابی سمجھ کر اِن کی چوکھٹ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بعض نام جیسے معمر رانا، میرا، متھیرا، وینا ملک ، میکال ذوالفقار اور عمران عباس خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور وطن واپسی کو غنیمت جانا ۔ البتہ فواد خان اور علی ظفر کا بالی ووڈ میں ابھی فنی سفر شروع ہی ہوا ہے ۔ فواد خان اور ماہرہ ماڈلنگ اور پھر پاکستانی ڈرامہ سیریل ”ہمسفر“ میں اداکاری کے بعد عالمی سطح پر جانے پہچانے گئے ۔ دونوں پر بالی ووڈ کی نگری کا در کھلا یہاں تک کہ دونوں کا ٹیلنٹ پڑوسی باکس آفس کی ضرورت بن گیا ۔ ”سلطان“ کی عالمگیر مقبولیت میں اداکار سلمان خان کی کشُتی کے داؤ پیچ کے ساتھ راحت فتح علی کے ”جگ گھومیا“ کا بھی ہاتھ ہے ۔ کوئی عاطف اسلم کو بتائے کہ ان کو ہمارے ملک میں انکت تیواری اور ارجت سنگھ سے زیادہ سنا، چاہا اور مانا جاتا ہے ۔ ان کے کنسرٹس میں شرکت کے لیے پاکستانی عوام عرصہ سے ترس رہی ہے ۔ عاطف اسلم نے پردیس میں کافی داد اور دولت سمیٹ لی ۔ وہ کیا جانیں کہ اس سے زیادہ پذیرائی اور محبت ان کا یہاں انتظار کررہی ہے ۔ اس وقت جبکہ دو طرفہ تعلقات کھٹے یا میٹھے نہیں بلکہ کڑوے پن کی حد عبور کرکے زہر افشانی کی طرف جاچکے ہیں ۔ ہمارے من چاہے اداکاروں کی معنی خیز خاموشی سمجھ سے باہر ہے! بھارتی جنتا اور کلاکار ہمارے سفیروں کے خلاف یک زبان ہوکر سوشل میڈیا کو اگال دان سمجھ کر زہر اگل رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اداکار سرحد پار کام جاری رکھنے کی خواہش دل میں لیے سلمان خان ، کرن جوہر، سیف علی خان، اوم پوری اور مہیش بھٹ کی خالی خولی حمایت کی آڑ میں چھپ رہے ہیں ؟ مان لیں اگر ایسا ہے تو ہمارے فن کار جان لیں کہ اس میں بھی دشمن کی اپنی غرض چھپی ہے ۔ بھارت میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری میں بننے والی فلمیں داؤ پر لگ گئیں ۔ انھیں بڑا معاشی دھچکہ پہنچ سکتا ہے ۔ بات تیر کمان سے نکل پر بندوق تک آگئی ، ملک کی نیک نامی اور عزت دہانے پر ہے ۔ اپوزیشن ، مخالف جماعتیں اور حکومت شیر و شکر ہوگئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اداکاروں کا احساس ذمہ داری اور جذبہ الوطنی سویا ہوا ہے ؟ آج جب محبِ وطن عوام سمیت ، تمام سیاسی و اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی اجلاس کے موقع پر حکومتِ وقت اور عسکری قیادت کے ساتھ کشمیر کی جدو جہدِ آزادی کے لیے امن دشمن بھارت کے خلاف یک زبان ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے بعد یہ چند فنکار بھارتی پلیٹ فارم کو ٹھوکر مار کر تمام نامکمل منصوبے چھوڑنے کا اعلان کردیں ؟ یقین کیجئیے یہ اعلان بھارت کے نام نہاد ”سرجیکل اسٹرائیک“ کا منہ توڑ جواب ثابت ہوگا ۔

بالی ووڈ کی چکا چوند نگری کی روشنیوں میں گم ہمارے اداکار اکثر اپنے وطن کے دورے پر آتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران فلم اور سینیما کے شعبے میں واضح ترقی ہوئی ہے ۔ بہت سے فن کار پرائیویٹ پروڈکشنز کے میدان میں اترے اور کامیاب رہے ۔ بہترین فلمیں جیسے بن روۓ، منٹو ، جوانی پھر نہیں آنی ، ہومن جہاں، نامعلوم افراد، مور اور وار جیسی فلمیں بنیں اور عالمی سطح پر سراہی گئیں ۔ آج پاکستانی ڈرامے بہترین ہدایت کاری، جاندار کہانی اور کہنہ مشق اداکاری کے باعث سرحد پار مقبول ہیں ۔ ہماری خواتین اسٹار پلس ، زی ٹی وی ، زندگی اور سونی ٹی وی کے سحر سے نکل آئیں ۔ بہترین ڈرامہ سیریل جیسے ہمسفر، زندگی گلزار ہے، کنکر، ڈائجسٹ رائیٹر، بشر مومن اور دیگر ڈرامے پڑوسی ملک کے چینل پر چلتے رہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ قومی زبان میں فلمیں بننے کے باعث کئی مواقع پر ہمارے سنیما تھیڑز میں لگی بھارتی فلمیں پیچھے رہ گئیں ۔ اسی طرح موسیقی کے شعبے میں نوجوان گلوکاوں سمیت کئی ایسے ناموں کو جدید انداز میں دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے ”کوک اسٹوڈیو“ نامی سیریز ہر برس کی طرح اس سال بھی مقبولیت میں سب سے آگے ہے ۔ غرض گھر واپس آنے کا فیصلہ کسی بھی طرح گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ البتہ دشمن کےلیے ضرور یہ اینٹ کا جواب پتھر کے مترادف ثابت ہوگا ۔

کاش کہ ماہرہ، ماورا ، فواد، عاطف، راحت اور شفقت ثقافتی سطح پر یہ جنگ اپنے طور پر لڑ کر کروڑوں پاکستانی عوام کے دل جیت لیں ۔ کیونکہ ہمیں یہ گوارا نہیں کہ ہمارے ستاروں کو پاکستانی ہونے کی بناء پر دشمن ملک کی مٹھی بھر انتہا پسند عوام غدار، دہشت گرد یا ملک دشمن کہہ کر طعنے دے ۔ ہمارے وطن اور دل کے دروازے ہمارے اپنوں کے لیے نہ کبھی بند ہوئے نہ ہوں گے ۔ پاکستانی فلمی صنعت کا آسمان ان جیسے روشن ستاروں کے لیے بہت وسیع ہے ۔ اگر یہ تارے لوٹ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب چراغ تلے اندھیرا دور ہوگا اور ہمارے ملک کے افق پر یہ درخشاں ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ چمکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments