ہنر مند رحیم گل اور \”جنت کی تلاش\”
جنت کا متلاشی رحیم گل مصنف ہے یا مصور، کسی ایک ہنر کے لحاظ سے اس کی تعریف بیان کرنا مشکل ہے، \”داستاں چھوڑ آئے \” پہ آدم جی ایوارڈ حاصل کیا، یوں تو صاحب قلم کے پاس لکھے ہوئے کو فلمانے کی صلاحیت بھی موجود تھی، لیکن فن کااحاط کرنا ہے تو کسی ایک خوبی کو موضوع بنانا ہو گا، حق ادا کرنے کے لیئے صرف تصنیفی خوبی کو ہی موضوع بناتے ہیں، لگتا ہے کہ کوئی تصویر کشی ہو رہی تھی اور اچانک کیمرے نے منظر کو الفاظ کا روپ دے دیا، قلم واقعی کیمرے سے کم نہیں بلکہ قلم تو تصور سے تصویر کو نکال کے لا سکتا ہے، مصنف کے ہاں اضطراب کی کروٹ کو جو زبان و بیاں ملا ہےوہ بہت کم لوگوں کی دسترس میں ہوتا ہے، پڑھنے سے شغف رکھنے والوں کو جب تنقید کرنے کا حوصلہ ملا، تو بس رومانوی طرز تحریر اور بے باک تکلم کو اکثر زیر بحث لایا گیا، ان کیفیات کی بے ساختگی کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے، لیکن تمام تر سچائی کیساتھ انہیں بیان کرنا بہت مشکل کام ہے، انکے ہاں افسانہ بھی حقیقی واقعات کا روپ دھار لیتاہے، قاری کو اپنے ہمراہ گھماتے گھماتے ان سب مناظر اور منازل سے ایسی آشنائی کراتے ہیں کہ جیسے مطالعہ کرنے والے کو خود اسی نگر کا سفر درپیش ہے، اپنے دور کے اس منفرد لکھاری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے \”جو داستان چھوڑی ہے\” اس میں اتنی رنگینی اور اس قدر اچھوتی اپنائیت ہے کہ ورق گردانی کی لت میں مبتلا لوگوں میں ایسے مصنف کی مقبولیت کبھی کم نہی ہوتی، رحیم گل کی ایک تصنیف\”جنت کی تلاش\” پہ انہوں نے جس پزیرائی کو سمیٹا ہے اسے بے مثال کہا جا سکتا ہے، ادبی مطالعے کے رواج کو پھر سے زندہ کرنے کے لیئے \”جنت کی تلاش\” جیسی تحریروں کو مطالعے کے لیئے منتخب کرنا کافی سود مند ثابت ہو گا،
رحیم گل کی باقی تصانیف کی طرح، \”جنت کی تلاش\” مین بھی مختلف کرداروں کے مابین جو مکالمات ہوئے، ان سے پڑھنے والوں پہ بہت سے فکری راز آشکار ہوتے ہیں، بہت سے ایسے اسرار جن کی طرف دھیان نہین بھٹکتا، کسی ان دیکھی دنیا کی سیر یا پھر دیکھے ہوئے منطر کا کسی نئے زاویئے سے نظارہ کرانے کی بھلی سی کوشش معلوم ہوتی ہے، خیالات کے پروں پہ سوار ہو کے مشکل کردار کو مبہوت کر دینے والی سوچ اور سوالات بھی دیئے، یعنی انہیں اتنا طاقت ور اور زندگی سے بھرپور بنا دیا کہ ہمیں وہ کردار افسانوی تحریر کے نہیں بلکہ حقیقی دنیا سے مطابقت رکھتے محسوس ہوتے ہیں، انسان کی بے چینی اور اسکے شعوری مطالبات کو نہایت خوبی کیساتھ تحریر کا حصہ بنایا، انسان سے انسان کی وابستگی اور بطور خاص صنف ؐمخالف کی طرف کشش و قربت کو جسم سے آزاد کر کے کسی اعلی وجہ سے جوڑ دیا، یہ سب کر کے بھی انسانی فطرت کو اپنی کہانی کے ہمراہ رکھا کہ کہیں کسی اور جہاں کی بات نہ لگے ، اگر چہ پھر بھی بات کسی اور دنیا کی ہی معلوم ہوتی ہے،
بیزاری، اکتاہٹ کا مقابلہ یقین اور امید کیساتھ کرا کے مصنف نے اس کش مکش کی قلعی کو کھولا ہے، انسانوں کے درمیان تعلق کو خود غرضی اور بے حسی نے کتنا نقصان پہنچایا ہے، کسطرح اناؤں نے انسانی معاشرے میں محبت جیسی نعمت کو ناشکری کیساتھ روندا ہے اور نفرت کو جواز فراہم کیا ہے، لالچ نے مادیت کے زریعے اپنی تسکین پا لی، مگر انسان کو شکار کر کے اس سے انسانیت کا مرتبہ چھینا، کس کس طرح انسانی زہن اپنے ارد گرد کے واقعات اور حالات سے الجھتا ہے، یہ الجھن کبھی کسی نئے انکشاف پہ منتج ہوتی ہے یا پھر کسی نئے سوال کو انسانی دماغ کے سپرد کر دیتی ہے، کبھی کوئی رائے بنتی ہے، کوئی اتفاق گفتگو کو اپنے منطقی انجام کی طرف دکھیلتا ہے، پھر اچانک کسی نئے اعتراض سے کوئی نیا عنواں جنم لیتا ہے،
\”امتل\” اس ناول کا ایک ایسا کردار ہے جو بظاہر نیک اعمال کے پیش نظر شخصیت کے بارے مین اپنی پسند قائم نہیں کرتی، اسکا معیار منفرد اور انوکھا ہے، وہ جدت اور سائنسی تسخیر کو انسان کے لیئے ابھی تک کار آمد ماننے سے منکر ہے، وہ ان باوصف کرداروں سے مرعوب نہیں ہوتی، لیکن انسانی خوبصورتیوں کی گرفت سے بھی آزاد نہیں تھی، اس کردار کی استقامت کے باوجود مصنف نے تحریر کو یکسانیت سے بچاے رکھا، امتل کے کردار کو متحرک رکھ کے قاری کی دلچسپی کو بحال رکھنے میں کافی تحریری اور تخلیقی مہارت شامل ہے، \” جنت کی تلاش \” کا ایک مکالمہ جو وسیم اور امتل کے درمیان ہوا، کچھ یوں ہے؛
امتل نے پوچھا ،
\” کیا کھیلیں گے، ، ؟ کیرم، شطرنج یا برج\”؟
میں نے مسکرا کر کہا، ،
\” کوئی ایسا کھیل کھیلیں، جس میں مجھے ہارنا پڑ جائے، ، \”
\”یہ آدمی بھی عجیب ہے\”، وہ طنزیہ مسکرائی، ، ، \”زہین سے زہین اور معقول سے معقول آدمی پر بھی جذبات کا دورہ پڑتا ہے، تو بالکل احمقوں کی طرح لگتا ہے نہ جانے آدمیوں کو اپنی حماقتوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا\”،
\”جذباتی سچائیوں کو آپ حماقتیں کہتی ہیں\”؟
\”کونسی جذباتی سچائیاں، ، ، \”؟ اسکی متجسس آنکھیں اور زیادہ پھیل گئیں، ،
\”اپنے خون کے ابال کو آپ سچائی کہتے ہیں، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت جسم کی کشش کو آپ جزباتی سچائی سمجھتے ہیں، ، نہیں وسیم صاحب نہیں، یہ اپنا ہی رد عمل ہوتا ہے، جب خوبصورت آنکھوں کے سرخ ڈورے اور حسین جسم کا تناسب ختم ہوجاتاہے\’ تو جذباتی سچائیاں بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں\”،
\”مگر کیوں، ، ، ؟\”میں نے حیرت سے پوچھا،
\” یہ قانون فطرت ہے، یہ دنیا اسی طرح نامکمل رہے گی\”،
\”اس کا فائدہ، ، ، \”؟
\”آپ فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں، اسکا تو کوئی مقصد ہی نہیں، کیڑے مکوڑوں کی طرح لاکھوں انسان طاعون یا ہیضے کے ایک ہی ہلے سے ختم ہو جاتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے، ، ؟آپ اکیلے ایک دل کی بات کرتے ہیں\’ لیکن پلک جھپکتے میں لاکھوں دل خاک ہو جاتے ہیں، اب اسکا جواز دھونڈنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے، ، ، ، دریاؤں کا پانی کنارے سے اچھل جاتا ہے\’ تو اسکا کوئی مقصد نہیں ہوتا لیکن سینکڑوں انسانوں اور مویشیوں کو بہا کر لے جاتا ہے اور ساحلوں پر سونا اگلنے والی مٹی پھینک جاتا ہے، یوں لوگ اپنے اپنے طور سے مقصد کا تعین کرتے ہیں، صدیوں سے ہم ایسی حماقتوں مین مبتلا ہیں\”،
میں گہری اور عقیدت مند نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، اس سے متفق نہ ہونے کے باوجود اسکی باتیں مجھے اچھی لگتی تھیں، ،
ایک اور مکالمے میں معا شرے میں طبقاتی تفریق کو نہ صرف نمایاں کیا گیا ہے بلکہ اسکی پیدا کردہ سماجی نا ہمواریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ؛
\”آپ کو پہلی بار شلوار قمیض مین دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے، \”
امتل مسکرا کر بولی،
\”اس لباس میں میرے عورت پن کی تخصیص ہو جاتی ہے اور میری زات کا تعین ہو جاتا ہے، ، ٹھیک ہے، ، مجھے عورت ہونے سے کب انکار ہے، مگر اصل بات تو یہ ہے کہ ہم سوچتے کس انداز میں ہیں، حقیقی آدمی اپنے کپڑوں میں نہیں بلکہ اپنے من میں چھپا رہتا ہے،
آپ دیکھتے ہیں نا یہ شاندار بنگلے، ایک سے ایک بڑھ کر کوٹھیاں، میں دعوے سے کہتی ہوں ناجائز آمدنی سے بنی ہیں، ، ، ہل چلا کر کوئی کوٹھی نہیں بنا سکتا، سبزی اگا کر کوٹھی نہیں بنائی جا سکتی، زندگی کے جائز اور اصک زرائع تو یہی ہیں نا، ، کہ زمین کھودی جائے اور اس سے پیٹ بھرا جائے اور تن ڈھانپا جائے، ملازمت اور تجارت تو مصنوعی اور غیر قدرتی زرائع ہیں، ، یہ زرائع رشوت اور سمگلنگ کو جنم دیتے ہیں، اس طرح وافر روپیہ آتا ہے اور یوں عالی شان بنگلے تعمیر ہوتے ہیں!\”
وہ حسب معمول میری حیرت میں اضافہ کر رہی تھی، ، میں کنکھیوں سے دیکھا، اسکی ننھی سی ناک کے سائڈ پوز میں وہی تیکھا پن تھا اور وہ اپنے رو میں بولے جا رہی تھی،
\”پہلے یہ کام بادشاہ کرتے تھے، ان کے جرائم کی یاد گاریں محلوں، قلعوں اور مقبروں کی شکل میں آج بھی ہماری زمین پر موجود ہیں، ، عوام تو سبزی اور غلہ اگاتے تھے، وہ تب بھی جھونپڑوں اور کچھ مکانوں میں رہتے تھے، موہنجوداڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈر اسکے گواہ ہیں، اس دور میں باد شاہ نہیں رہے، اب حاکم اور کارخانہ دار آگئے ہیں، محل کی جگہ بنگلہ بنتا ہے اور اصطبل کی جگہ گیراج، ، ، \”
- ریت رواج اور عورت مارچ - 08/03/2022
- میک اپ، ہماری حقیقت اور انسانی حوالے - 24/07/2020
- کتنے نمبر ہیں بچے کے؟ - 19/07/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).