میاں، بیوی اور کال گرل


”اب تو سب او کے ہے“ اس نے آنکھ دبائی۔
”تو آؤ بیٹھو ناں“ محمود نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔

وہ بیٹھی تو محمود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ رابی مسکرا اٹھی۔
”اس سے پہلے کیا کبھی کسی کو نہیں بلایا۔ “

”کیا مطلب؟ “ محمود چونکا۔
”ادھر آؤ ناں، میرے پاس بیٹھو۔ “ رابی کے لہجے میں مٹھاس بھری تھی۔

محمود کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ ماہین نے کبھی اس سے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی۔ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ رابی اس کی طرف جھکی۔ محمود کو یوں لگا جیسے اس کے ہونٹوں پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہو۔

”ذرا رکو تم نے تو فوراً ہی گاڑی پانچویں گئیر میں ڈال دی ہے۔ “ محمود نے تھوڑا دور ہٹتے ہوئے کہا۔
”کیوں کیا ہوا؟ “
”میرا مطلب ہے جلدی کیا ہے؟ “

”اؤ کے جو تم چاہو۔ “ رابی نے فوراً کہا۔ محمود اس کی فرمانبرداری پر متاثر ہونے ہی والا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ یہ محبت اور یہ تابع فرمانی ان پیسوں کے بل پر ہے جو اس نے ابھی ابھی اس کے حوالے کیے ہیں اور جب پیسے پورے ہو جائیں گے تو وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر منہ پھیر کر چل دے گی۔

بادل ایک بار پھر گرجا۔ محمود نے کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھا بارش شروع ہو گئی تھی۔
”ادھر آؤ، دیکھو موسم کتنا پیارا ہو گیا ہے۔ “ وہ بے ساختہ بول اٹھا۔ رابی اس کے پاس آ گئی۔

”واقعی بڑا رومینٹک موسم ہے۔ “ رابی نے کہا۔
محمود نے اسے اپنے پہلو سے لگا کر دبایا۔

”چائے پیو گی؟ “
”نو تھینکس، میں چائے نہیں پیتی۔ کوئی ہارڈ ڈرنک ہے تو بتاؤ۔ “

”سوری! وہ تو نہیں ہے۔ “
”کیا مطلب یار! تم نے گھر میں کچھ نہیں رکھا ہوا؟ “

”پینے کے لیے تو بہت کچھ ہے، جامِ شیریں ہے، گلو کوز ہے، انرجائل ہے اور کافی بھی ہے۔ “ محمود نے مزاحیہ انداز اختیار کیا۔
”ویری فنی“ رابی نے منہ بنایا۔

”اچھا چھوڑو یہ بتاؤ تم اس فیلڈ میں کیسے آئیں؟ “
”کیا کرو گے جان کر ہاں، بہتر ہے یہ راز، راز ہی رہنے دو۔ تم اپنے پیسے پورے کرو۔ “

نہ جانے کیا بات تھی۔ محمود نے اسے بلا تو لیا تھا مگر اب پیش قدمی سے گریزاں تھا۔ غصہ اور فرسٹریشن اپنی جگہ لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہو رہا ہے۔ پھر اس نے ان خیالات کو جھٹک دیا۔

”آؤ بیڈ روم میں چلتے ہیں۔ “
”ہوں اچھا آئیڈیا ہے۔ “ رابی نے مسکرا کر کہا۔

بیڈ روم میں آتے ہی محمود کی نظر دیوار پر لگی ماہین کی تصویر پر پڑی۔ اسے ایسا لگا جیسے ماہین تصویر میں اسے گھور رہی ہو۔
”اچھا تو یہ تمہاری بیوی کی تصویر ہے۔ “ رابی نے تصویر کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”ہاں“
”کہاں ہے یہ۔ “
”ناراض ہو کر میکے گئی ہے؟ “
”خیر چھوڑو، میرے پاس آؤ ناں۔ “

محمود نے بازو پھیلا دیے۔ وہ اس کے بازوؤں میں سما گئی۔ محمود نامانوس خوشبو کو اپنی سانسوں سے ہم آہنگ کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ رابی کے وجود میں اسے حدت کی بجائے ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔

اچانک ڈور بیل بجی تو وہ بری طرح چونکا۔
”اس وقت کون آ گیا؟ “ اس نے رابی کو ہٹاتے ہوئے خود کلامی کی۔

محمود ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا تو رابی بھی اس کے پیچھے پیچھے آ گئی۔
”سنو تم نے کسی اور کو نہیں بلا لیا۔ میرا کنٹریکٹ صرف تمہارے ساتھ ہے۔ “ رابی نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”کیا بات کر رہی ہو، میں با اصول آدمی ہوں۔ “ محمود نے تلخ لہجے میں کہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
باہر اس کی بیوی ماہین کھڑی تھی۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ایسا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

ماہین جلدی سے آگے بڑھی اور اندر داخل ہوتے ہی محمود سے لپٹ گئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔
رابی دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ ”سوری“ ماہین نے محمود کے سینے سے سر اٹھاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ محمود کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

”یہ کون ہے؟ “ اچانک ماہین نے زور سے کہا۔ اس کی نظر رابی پر پڑ گئی تھی۔

”اوہو کیوں چلا رہی ہو یہ ’کام والی‘ ہے۔ ظاہر ہے تم تو چلی گئی تھیں، یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ کتنے دن بعد آؤ گئی۔ اس لیے میں نے کام والی رکھ لی۔ “ محمود نے فوراً بہانہ گھڑا۔
”تو پروین کا کیا کیا؟ “

”اسے میں نے کام سے نکال دیا ہے۔ بہت چھٹیاں کرتی تھی۔ “

ماہین، رابی کو غور سے دیکھنے لگی۔ اسے محمود کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
”یہ کافی ماڈرن لگتی ہے۔ “ ماہین نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

”ہاں تو پھر کیا ہے؟ چلو رابی ہمارے لیے چائے بنا کر لاؤ۔ “ محمود نے تیز لہجے میں کہا۔ رابی کے تیور سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلے گی بھی نہیں لیکن ماہین نے نفرت سے منہ پھیرا تو محمود نے ہاتھ جوڑ دیے۔ یہ دیکھ کر رابی کچن میں چلی گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3