پالیسی بدل گئی یا ہوائی چھوڑی ہے؟


\"zaidi2\"جمعرات کے روز ڈان اخبار میں سیرل المیڈہ کی ایک رپورٹ چھپی۔ خبر یہ تھی کہ سیاستدانوں نے دو ٹوک الفاظ میں جنرل صاحب کی خدمت میں عرض کر دیا ہے کہ اگر انتہا پسند مذہبی تنظیموں پر صحیح معنوں میں پابندی لگا کر ان کے خلاف آپریشن نہ کیا گیا تو پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔ اس خبر کا ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں کافی چرچا ہوا۔ دوستوں نے فیس بک پر اس کو بارہا شیئر کیا اور محترم وجاہت مسعود صاحب تک نے خوشی سے سرشار ہو کر اس خبر کو اپنی فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ \”یہ وہ خبر ہے جو قوم پچھلی تین دہائیوں سے سننے کی منتظر تھی\”۔

خبر کو دیکھا جائے تو واقعی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئےجہاں ایک طرف سیاستدانوں کی جرات رندانہ پر رشک آتا ہے تو وہیں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی نوید بھی ڈھیروں خون بڑھانے کا سبب ہے۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، فشار خون اپنے معمول پر آتا گیا اور تاریخ ایک بار پھر سے یاد آنے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ کم از کم دو مرتبہ میں اپنے ہوش میں اسی طرح کی خبریں دیکھ چکا ہوں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ دو واقعات آپ کو بھی یاد کرواتا چلوں۔

یہ دسمبر 2001ء تھا جب ہم نے پہلی دفعہ اپنے حکمرانوں میں اس حوالے سے جذبہ بیدار ہوتے دیکھا۔ دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر ایک حملہ ہوا تھا جس میں 14 لوگوں، بشمول پانچ دہشتگردوں، کی جانیں گئی تھیں۔ نائن الیون کا غم ابھی تازہ تھا اور بجا طور پر بین الاقوامی میڈیا میں اس واقعے پر شور مچ گیا۔ پاکستانی میڈیا تب بھی آج ہی کی طرح \”بھارتی کہانی میں جھول\” ڈھونڈ رہا تھا لیکن درحقیقت اس واقعے نے ایک بین الاقوامی سطح کا بحران کھڑا کر دیا تھا۔ پاکستان امریکہ کا \”فرنٹ لائن اتحادی\” تھا اور ایسے میں ہمارا ایسے کسی معاملے میں ملوث ہونا امریکہ کے لیے بھی باعث شرمندگی تھا۔

اس واقعے نے مشرف حکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ امریکہ کے زور دینے پر مشرف صاحب نے اعلان کیا کہ لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد اسلامی اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کے خلاف ایکشن لے کر انہیں پابند کریں گے کہ بھارت کے اندر اس قسم کی کارروائیاں مکمل طور پر روک دیں۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن ان پابندیوں کے بعد حالات میں بڑی حد تک تبدیلی بھی آئی اور ثبوت کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں 90ء کی دہائی کے حالات اور 2002ء کے بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس کی تفصیل آگے چل کر۔۔

دوسرا واقعہ 2008ء میں ممبئی حملوں کی صورت میں پیش آیا۔ اس واقعے میں 164 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 308 زخمی ہوئے۔ پاکستان کو اس وقت مزید خفت کا سامنا اٹھانا پڑا جب اس واقعے کا ایک اہم کردار اجمل قصاب فوری طور پر پکڑا بھی گیا اور اس نے یہ تسلیم بھی کر لیا کہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے ببانگ دہل اس کا الزام \”پاکستانی حکومت کے اندر چند عناصر\” پر لگایا۔ پاکستان میں سابق امریکی سفیر جان شمڈٹ کے مطابق یقیناً بھارتی وزیر اعظم کا اشارہ پاکستان کی اعلی ترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی طرف تھا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے کچھ اسی قسم کے وعدے وعید کیے تھے کہ ان تنظیموں کے خلاف زبردست ایکشن لیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

اب جب کہ آپ کو یہ دونوں واقعات اور ان کے بعد کیے گئے اعلانات یاد آ چکے ہیں، ذرا آگے بڑھتے ہوئے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ان تنظیموں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی پاکستان کے لیے ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اس کے لیے ہمیں پہلے چند ایسی تنظیموں کا ذکر کرنا ہوگا جن پر ہم نے ماضی میں حقیقتاً پابندیاں لگائیں اور ان کا خمیازہ بھگتا۔

سنہ 2001ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا تھا۔ ابھی تک پاکستان بنا کسی ہچکچاہٹ کے افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتا رہا تھا۔ طالبان کے ظہور سے پہلے بھی پاکستان نے افغانستان میں نہ صرف گلبدین حکمت یار کی حمایت کی بلکہ پاکستان کے اندر اس دور کے مجاہدین کو پناہ بھی دیے رکھی۔ یہیں پشاور ہی میں القاعدہ بھی بنی اور بلاشبہ پاکستان ان مجاہدین کے لیے ایک جنت تھا۔ امریکہ میں ہونے والے واقعے کے بعد اچانک امریکہ کا رخ بھی ایک مرتبہ پھر اس خطے کی جانب ہوا اور ہمارے لیے مجبوری بن گئی کہ ہمیں مجاہدین اور امریکہ میں سے ایک کو چننا تھا۔ ساتھ ہی یہ مخمصہ کہ امریکہ کو ہم نے نہ چُنا تو بھارت چُن لے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ پاکستان بھارت اور افغانستان کے بیچ میں ایک سینڈوچ بن کر رہ جائے گا۔ ایسے میں امریکہ کے ساتھ جانا اور اس کے نتیجے میں مجاہدین کے چند گروہوں کو اپنے خلاف کر لینا ایک بہتر سودا نظر آیا۔ اس سودے میں کم سے کم نقصان ہو، اس کے لیے پاکستان نے افغان طالبان کو کوئٹہ میں پناہ فراہم کی۔ اور امریکہ کے لیے بھی یہ سودا زیادہ برا اس لیے نہیں تھا کہ مجاہدیں کے ایک گروہ کے پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہونے سے افغانستان کے اندر امریکہ کے دشمنوں کی تعداد کم ہو رہی تھی۔

تحریک طالبان پاکستان وجود میں آ چکی تھی اور ریاستِ پاکستان کے خلاف \’جہاد\’ میں مصروف بھی تھی۔ لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں اکٹھے ہوئے کیسے کہ فوج کے خلاف ایک منظم محاذ کھڑا کر سکیں؟ گو کہ اس کی ذمہ داری عموماً پاکستان کے ریاستی اداروں اور پرویز مشرف پر ڈالی جاتی ہے، لیکن یہ بات کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہے مگر عین حقیقت نہیں۔ دراصل 2001ء میں امریکی حملے کے بعد طالبان اور القاعدہ پر افغان سرزمین بتدریج چھوٹی ہوتی چلی گئی۔ اس موقع پر دہلی کی پارلیمنٹ پر حملہ ہونا یقیناً پاکستان کے لیے کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں تھا۔ ہماری افواج اس وقت مغربی سرحد پر ایک جنگ میں الجھی ہوئی تھیں اور ایسے میں بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرنا پاکستان کے حق میں نہیں جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ واقعہ ہوا اور لشکر طیبہ کے اس میں ملوث ہونے کے مبینہ ثبوت بھی ملے۔ تو آخر اس حملے کا فائدہ کس کو ہوا؟

خواہ ہم انہیں اپنا کتنا ہی سگا سمجھیں اور یہ تنظیمیں کتنی ہی بھارت کے خلاف کیوں نہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل ہدف ریاستِ پاکستان ہی ہے۔ یہ تنظیمیں اس ملک کو \”غزوہ ہند کا گیریژن\” سمجھتی ہیں۔ اور اس میں اگر پاکستان کی افواج اور اس کی ریاستی پالیسیاں ان کے ہدف کو قریب تر لانے میں ان کی مددگار ثابت ہوتی ہیں تو فبہا، مگر یہ تنظیمیں اپنا اصل ہدف کبھی نہیں بھولتیں۔ اس کی ایک جھلک شبیر احمد عثمانی صاحب کے قائداعظم کے متعلق افکار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 2001ء میں دہلی پارلیمنٹ پر حملے کی بھی یہی وجہ تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور پاکستان کو اپنی افواج کو مغربی سرحدوں سے ہٹا کر مشرقی سرحد پر لانا پڑا۔ کرسٹوفی جیفرلوٹ اپنی کتاب \”The Pakistan Paradox\” میں اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ جس دوران پاکستان کی افواج بھارتی سرحد پر موجود تھیں، اسی دوران افغانستان سے بڑی تعداد میں القاعدہ مجاہدین جنوبی وزیرستان میں داخل ہوئے اور بالآخر تین سال بعد 2004ء میں پاکستان کو ان عناصر سے لڑنے کے لیے قبائلی علاقوں میں ایک نئی جنگ لڑنا پڑی۔

بالکل اسی طرز پر 2008ء میں انہی تنظیموں نے جب ممبئی حملے کیے تو پاکستان کی ریاست کو یقینی طور پر بھارت کے ساتھ اس وقت الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یاد رہے کہ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر براہ راست لگانے کی بجائے \”پاکستانی حکومت کے اندر چند عناصر\” پر لگایا تھا۔ دراصل ان \”عناصر\” نے شاید ان تنظیموں کی کچھ مدد ضرور کی ہو مگر اس وقت کے \”سپاہ سالار\” اور آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا بھارت کے ساتھ اس قسم کی کسی مہم جوئی میں یقین رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ اس واقعے کے پیچھے بھی کارفرما عوامل وہی تھے جو 2001ء میں دہلی حملے کے وقت تھے۔ جان شمڈٹ اپنی کتاب \”The Unraveling – Pakistan in the age of Jihad\” میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی افواج کی توجہ بھارت کی طرف مرکوز ہونے کے چھ مہینے کے اندر اندر تحریک نفاذ شریعت محمدی نامی تنظیم کے سربراہ صوفی محمد نے اپنے داماد، اور تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ، ملّا فضل اللہ کے ساتھ مل کر سوات میں پاکستان کے آئین سے انحراف کا اعلان کر دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وادی میں شریعت نافذ کی جائے۔ اس کے لیے پہلے حکومت نے اس تنظیم کے ساتھ شریعت کے نفاذ کے لیے ایک معاہدہ کیا اور اس کے بعد اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف تین ہفتے بعد طالبان بونیر میں گھس گئے، اور شاید اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے راستے کی ویڈیو بھی ٹی وی چینلوں پر چلوائی گئی۔

ایک مرتبہ پھر افواجِ پاکستان کو آپریشن راہِ راست لانچ کرنا پڑا اور سوات کو خالی کروانے کے لیے تقریباً 45000 فوجی وادی میں اتارنے پڑے۔ بقول جان شمڈٹ کے یہ آپریشن مکمل طور پر کامیاب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ طالبان وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کی طرف کوچ کر گئے اور افواج بمشکل سوات ہی کو خالی کروانے میں کامیاب ہو سکیں اور اس کے حالات بھی اس حد تک ٹھیک نہیں ہو سکے کہ سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو سکیں۔

ان دو واقعات کی تفصیل بیان کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ آپ کو یہ بتایا جا سکے کہ لشکر طیبہ ہو یا حرکت المجاہدین، افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان، حذب اسلامی ہو یا داعش اور القاعدہ ہو یا حزب التحریر، آپ نام چاہے کچھ بھی دے لیں، ان تنظیموں کا اصل مقصد ایک خلافت کا قیام ہے جہاں سے مجاہدین غزوہ ہند بھی لڑیں گے اور امام مہدی کے ظہور کے بعد شام کی طرف مارچ بھی کریں گے کہ جہاں دجال کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑا جائے گا۔ پاکستان ان کے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک \’گیریژن\’ ہے اور یہاں کی افواج جب تک ان کے نظریے کے مطابق عمل کرتی رہیں، ٹھیک ہیں لیکن جہاں انہوں نے اپنے اصل مقصد یعنی پاکستان کی حفاظت کی خاطر ان تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی کوشش کی، یہ تنظیمیں ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسی فوج کے خلاف برسرپیکار ہو جائیں گی جس نے انہیں اپنی عزت اور مال سے بڑھ کر چاہا ہے۔

اور یہاں صرف مسئلہ غزوہ ہند کا بھی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ، جنہیں آج ہم دہشت گرد کہہ رہے ہیں اور اب سے کچھ سال پہلے تک مجاہدین کہتے تھے، دراصل جنگ کے دوران ہی پیدا ہوئے ہیں۔ احمد رشید اپنی شہرہ آفاق کتاب \’طالبان\’ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب 80ء کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ کبھی بیٹھ کر وہ بات کرتے تو یہ لوگ اپنے گھروں، اپنے بیوی بچوں اور امن کے دنوں کو یاد کرتے تھے۔ ان کے لیے وہ پر سکون افغانستان ایک \’nostalgia\’ کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر موجودہ طالبان یا مجاہدین جنگ کی پیداوار ہیں۔ یہ مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوئے ہیں اور مدرسوں میں پڑھے ہیں۔ انہوں نے پیدائش سے لے کر اگر ایک چیز مستقل دیکھی ہے تو وہ جنگ ہے۔ انہوں نے امن دیکھا ہی نہیں۔ ان کو لڑنے کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں۔ یہ \’war economy\’ کی پیداوار ہیں۔ ان کا خرچہ جنگ سے چلتا ہے۔ مثلاً بطور بس کنڈکٹر کے منگل باغ وہ طاقت، پیسہ اور عزت کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا جو بطور مجاہد اس نے حاصل کی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے امن میں \’stakes\’ نہیں ہیں۔ ان کو جنگ ہی راس ہے اور گھر جانے کا انہیں کوئی شوق نہیں۔ ان کی زندگیوں کا مقصد خلافت کا حصول صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ ان کے خیال میں خلافت قائم نہیں ہو جاتی۔ لیکن جس دن خلافت قائم ہو گئی، اس سے اگلے دن یہ سب کیا کریں گے، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ کوئی پیشہ ورانہ ہنر نہیں جانتے۔ ان کا واحد ہنر جہاد ہے۔ لہذا ان سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ کہ جنگ میں انہیں شکست دی جائے۔ لیکن کیا ریاستِ پاکستان انہیں شکست دینے کی اہلیت رکھتی ہے؟ اس کے لیے پھر ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

جون 2007ء میں سراج الدین حقانی نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ گو کہ افغانستان میں جہاد \”خون کے آخری خطرے تک\” جاری رہنا چاہیے مگر پاکستانی افواج کے خلاف لڑنا \”طالبان پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا\”۔ اس اعلان کے بعد بیت اللہ محسود نے پاکستان حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اس معاہدے کی روشنی میں جنوبی وزیرستان میں مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر نے بھی پاکستانی افواج کے ساتھ جنگ روک دی۔ جواب میں افواج بھی بیرکس تک محدود ہوگئیں۔ اس معاہدے نے اور اس کے بعد کئی اور معاہدوں نے اگر ایک بات ثابت کی ہے تو وہ یہ ہے کہ ان سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ ان تنظیموں میں آدھی ایسی ہیں جن کی توجہ کا مرکز افغانستان ہے جبکہ باقیوں کی توجہ کا مرکز بھارت اور کشمیر ہیں۔ فی الحال ہم صرف ان تنظیموں کے اندر ایک گروہ سے نبردآزما ہیں جو افغانستان پر فوکس کرتی ہیں۔ ان کا بڑا حصہ، یعنی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک، فی الحال ہمارے خلاف نہیں لڑ رہے۔ اور اس کے باوجود ہم پچھلے دس سال سے ان کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکے اور ان دس سالوں میں سے گذشتہ دو سال تو ہم نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جو دہشت گرد ہمارے نزدیک Good اور Bad ہیں، ان کے نزدیک ہم صرف Bad ہی ہوں۔ اور ہم نے جو سہولتیں دی ہوئی ہیں، وہ ہمیں میسر نہ ہوں۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس قابل ہی نہ ہوں کہ ان سے لڑ سکیں۔ اب سے کچھ دہائیوں پہلے ہم نے جو کھیل شروع کیا تھا، شاید اب یہ ہمارے قابو سے باہر ہو چکا ہو۔ عمومی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے لوگوں کو ایسی تنظیموں میں بھیجتی ہیں تاکہ وہ ان کے لیے معلومات فراہم کرتے رہیں۔ لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ معلومات کی ترسیل کا یہ سلسلہ یکطرفہ ہے؟ الیاس کشمیری سابق فوجی تھا۔ لشکر طیبہ اور بعدازاں القاعدہ کے صف اوّل کے کمانڈرز میں سے ایک رہا۔ کیا اس نے اپنی ٹریننگ کو ان تنظیموں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا ہوگا؟ سلیم شہزاد کی آخری رپورٹ کے مطابق نیوی کے اندر دہشت گردوں کے ہمدرد ایک گروہ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مزید آسان ہو جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں کس حد تک طاقتور ہیں اور ان کی رسائی کہاں تک ہے۔

ایسے حالات میں کم از کم میرے لیے تو یقین کرنا مشکل ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف کوئی آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ جذبے کا نہیں، استطاعت کا ہے۔ سیاستدانوں کے اندر یہ سوچ کوئی نئی نہیں۔ فوج کے سامنے بھی یہ بات پہلی دفعہ نہیں کی گئی۔ کسی بڑے اخبار میں ایسی سرخی بہرحال شاید پہلی مرتبہ لگی ہو۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے۔ مگر شاید یہ بات بس اتنی ہی ہے۔ اس سے زیادہ کی نہ فی الحال خواہش کریں اور نہ امّید۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments