کوئی ایسے فرشتے بھی ہیں جو ایسے مردوں پر لعنت بھیجیں؟


” تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہوا“ ایک بار انہوں نے کہہ ہی دیا میں نے آنسو پی لئے۔ انہی کی زبانی یہ بھی پتہ چلا کہ عدنان نے تو مجھ سے شادی کے ایک سال بعد ہی اس دوسری عورت سے تعلقات بنا لئے تھے۔ اسے گھر بھی لے آیا تھا۔ میرے آنے سے کچھ دن پہلے ہی اسے کہیں اور شفٹ کیا۔ میں چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے دل نہ کھول سکی۔

مجھے حیرت تھی کہ اتنے ترقی یافتہ ملک میں آج کے دور میں ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا عورت کے حقوق اتنی آسانی سے غصب کیے جاسکتے ہیں؟ کیا یہاں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے؟ نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ اس ملک میں تو نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کوئی غلط کام ہوا ہے۔ قانون توڑا گیا ہے۔ کوئی مجرم ہے میرا بھی اور ریاست کا بھی۔

شروع میں اس بات پر حیرانی ہوئی کہ اگر عدنان کو کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنی تھی اور اس کے والدین یہ بات جانتے بھی تھے تو پھر مجھے کیوں بلایا گیا؟ لیکن جلد ہی یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی۔ گھر کے کام کاج، ساس سسر کی دیکھ بھال، گروسری، صفائی، ناشتے سے لے کر رات کے کھانے کے بعد سبز چائے تک کی تمام خدمات کے لئے میری ضرورت تھی۔ ایسی ملازمہ یہاں کہاں مل سکتی تھی وہ بھی بلا معاوضہ۔

سسر اپنے کمپیوٹر پر بیٹھے جانے کیا کیا پڑھتے اور دیکھتے رہتے۔ ساس ٹی وی پر انڈین ڈراموں سے وقت گزاری کرتیں یا اپنی پسندیدہ مبلغہ، واعظہ کے لیکچر سنتیں۔ اور وقتا فوقتا سبحان اللہ کی داد دیتیں۔

اتنا سمجھ لینے کے بعد میں یہ بھی جان گئی تھی کہ اب کوئی میرے لئے کچھ نہیں کرے گا۔ عدنان اور اس کے والدین سے کوئی توقع نہیں رکھنی۔ اب جو کرنا ہے مجھے خود کرنا ہے۔ سب سے پہلے میں نے ماں کو کھل کر ساری بات بتا دی۔ دور بیٹھی ماں کے ہوش جاتے رہے۔ اتنا لاڈلا بھانجا اتنا ظلم کر رہا ہے؟ سگی بہن میری بیٹی کو اتنی تکلیف پہنچا رہی ہے؟ اپنے ایسا بھی کر سکتے ہیں؟ ماں نے بہن کو فون کر کے پوچھا کچھ گلے شکوے بھی کیے۔

آخر میں تو منت سماجت پر بات پہنچی لیکن اس کا نقصان بھی مجھ ہی کو ہی اٹھانا پڑا کہ گھر شکایتیں لگاتی ہو۔ چغلیاں کرتی ہو۔ گھر کا ماحول سخت تنا ہوا تھا کہ سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ عدنان بات کھل جانے کے بعد اور بھی کھل گیا۔ دو دو دن گھر نہ آتا۔ ہاں اتنا ضرور کرتا کہ کچھ نوٹ پکڑا جاتا کہ وہ اپنی ضرورت کی کوئی چیز لے سکے۔ کچھ سوچ کر میں بھی نوٹ پکڑ لیتی۔ دیار غیر میں شاید ان کی ضرورت پڑ جائے۔

خالہ پکی ساس بن چکی تھیں۔ طعنوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ایک دن تو حد کردی۔
” ایک بچہ بھی نہ پیدا کرسیں تم“

میرے بدن میں آگ لگ گئی۔ میں رہ نہ سکی۔
” کیا میں اکیلے ہی بچہ پیدا کر لیتی؟ وہ ہے کہاں میرے ساتھ؟ “

ساس نے لاحول پڑھ کر منہ پھیر لیا۔ ”اور وہ جو دو ہفتے شادی کے بعد پاکستان میں ساتھ رہا؟ “
یہ بھی میرا قصور کہ میں ان دو ہفتوں میں حاملہ نہ ہو سکی۔

” وہ جو دو سال سے اس کے ساتھ ہے اس نے دے دیا؟ “
خالہ نے غضبناک نظروں سے مجھے دیکھا۔

موقعہ تو وہ کوئی جانے نہیں دیتی تھیں۔ ا یک دن پاکستانی چینل دیکھتے ہوئے بولیں۔
” توبہ ہے پاکستان کا تو حال ہی برا ہے۔ شکر کرو تم یہاں آ گئیں۔ “

” جی میں دن میں کئی کئی بار شکر ادا کرتی ہوں“ میرے لہجے کی تلخی انہوں نے بھانپ تو لی لیکن نظرانداز کرکے بولیں۔
” کم سے کم یہاں چیزیں تو خالص ملتی ہیں کھانے کو“
” جی بس رشتے ہی کھوٹے ہیں“ میں نے بمشکل خود کہ یہ کہنے سے روکا۔

اپنی اتنی تذلیل اتنی بے وقعتی دیکھ کر اب مجھے خود پر ترس سے زیادہ غصہ آتا۔
میرے سامنے اب تین راستے تھے۔

واپس پاکستان چلی جاوں۔
اسی ذلت بھری زندگی کو اپنا لوں اور سب کچھ تقدیر پر چھوڑ دوں۔
اپنے حقوق کے لئے لڑوں۔

پاکستان جانے کا آپشن میں نے یکسر رد کردیا۔ وہاں جا کر کیا کروں گی؟ والدین پر بوجھ، لوگوں کے سوالات، دنیا کی باتیں بھائی بہن کی مشکلات میں اضافہ۔ یہ لوگ تو یہاں بیٹھے ہیں ان سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ میرے ہی بارے میں الٹے سیدھے تبصرے کیے جائیں گے۔

دوسرا آپشن بھی مجھے منظور نہ تھا۔ میری خوداری کو جو ہر روز ضربیں لگ رہی ہیں اس میں چکنا چور ہوئی جا رہی ہوں۔ مجھے یہ ذلت کی زندگی گوارا نہیں۔

اب راستہ ایک ہی رہ جاتا ہے۔ اپنے لئے خود جنگ کروں۔ اپنے حق کے لئے لڑوں۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میرے حقوق کیا ہیں اور میں حق کی آواز کہاں اٹھاوں۔ کس ادارے کے سامنے اپنا کیس رکھوں۔ اور کیا یہاں کا سسٹم میرا ساتھ دے گا؟ ان سب باتوں کو جاننے کے لئے مجھے وقت درکار تھا اور کسی کی مدد بھی۔

ٹورونٹو میں اب سردیوں کا موسم تھا۔ یہ میرا پہلا موسم سرما تھا۔ اتنی شدید سردی اور برفباری کا یہ میرا مجھے پہلا تجربہ تھا۔ اور میں بیمار پڑ گئی۔ تیز بخار اور شدید نزلہ۔

خالہ نے اسپرین سے مجھے شفایاب کرنے کی کوشش کی لیکن بخار تیز ہوتا گیا۔ انہوں نے عدنان کو فون کیا۔ اس کی منتیں کیں کہ مجھے ڈاکٹر کے لے جائے اسے بادل ناخواستہ آنا ہی پڑا۔ ہمیں گاڑی میں بٹھا کر ہنگامی کلینیک لے گیا۔ اترتے وقت اس نے میرے ہاتھ میں پھر کچھ ڈالر تھمائے۔
”واپسی پر ٹیکسی کر لینا میں رک نہیں سکتا“ اس نے گاڑی بڑھا دی۔

کلینیک میں رش تھا۔ مریض اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ خالہ ایک نرس کو میرا نام اور بیماری بتانے لگئیں۔ کرسیوں کے سامنے میز پر کچھ بروشرز پڑے تھے۔ میں نے وقت گزاری کے لئے انہیں دیکھنا شروع کیا۔ ایک دل کی بیماریوں سے متعلق تھا۔ ایک ڈایئبیٹیس، ایک بولیمیا، اینورکسیا اور ایک بریسٹ کینسر کے متعلق۔ ان میں دبا ایک اور بروشر تھا جس نے میری پوری توجہ حاصل کر لی۔
” کیا آپ گھریلو تشدد کا شکار ہیں“؟

میرے جسم کا رواں رواں پکار رہا تھا کہ ہاں میں گھریلو تشدد کا شکار ہوں۔ میری پیشانی پر پسینے کا ہر قطرہ گواہی دے رہا ہے کہ مجھ سے بد سلوکی ہوئی ہے۔ دل کی ہر دھڑکن کہہ رہی ہے کہ مجھے توڑ ڈالا گیا۔ میری ہر سانس چیخ رہی تھی کہ میری تذلیل ہوئی ہے۔ خالہ کی نظر بچا کر میں نے یہ بروشر اپنے بیگ میں ڈال لیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3