غیرت نام ہے جس کا گئی قانون کے گھر سے


 

غلام قادر روہیلے نے اپنے خاندان کی خواتین کی بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لئے دہلی کے لال قلعے پر حملہ کیا تو بادشاہ کو اندھا کر دیا اور خنجر اپنے پہلو میں رکھ کر مغل شہزادیوں کو رقص کرنے کا حکم دیا۔ کچھ دیر میں اس نے مکر سے آنکھ بند کر لی اور سوتا بن گیا کہ کسی شہزادی میں غیرت ہو تو اسے قتل کرنے کی کوشش کر دے۔ مگر کسی شہزادی نے ایسی کوشش نہیں کی۔ اس پر غلام قادر روہیلے کے تاثرات کو اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

یہ تو ماضی تھا۔ اب حال ہے۔ اب ایوان قانون سازی میں گزشتہ دنوں ایک بل پاس ہوا ہے جس کے بعد ہم جیسا درخشاں مشرقی روایات کا امین یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ

غیرت نام ہے جس کا گئی قانون کے گھر سے

ہمارے خطے کی ایک قومی روایت ہے، پرم پرا ہے، کہ کوئی لڑکی گمراہ ہو اور محبت کرے تو اس کو اس جرم کی قرار واقعی سزا دی جانی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس سے خاندان کی غیرت پر حرف آتا ہے تو لازم ہے کہ گھر کی بات گھر میں ہی نمٹائی جائے اور تھانے کچہری تک نہ پہنچے۔ اس لئے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ باہمی صلاح مشورے سے لڑکی کو کوئی قریبی عزیز قتل کر دے اور لڑکی کے والدین اپنے اس شدید غم کو پس پشت ڈال کر اسے قصاص و دیت کے مروجہ قانون کے تحت معاف کر دیں۔ اس طرح غیرت پر بھِی حرف نہیں آتا ہے اور خاندان بھی اپنی بیٹی ناگہانی طور پر کھونے کے بعد اپنا بیٹا یا کوئی دوسرا مرد عزیز کھونے کے دوہرے صدمے سے بھی بچ جاتا ہے۔ بلکہ بعض ایسے کیس بھی سننے میں آتے ہیں کہ بھائی نے باہر کسی شخص کو لڑائی جھگڑا ہونے پر قتل کیا تو گھر آ کر اپنی بہن بھی قتل کر دی اور یوں یہ غیرت کے نام پر قتل قرار دے دیا گیا اور الٹا مقتول شخص کے گھر والوں سے ہرجانہ بھی وصول کر لیا۔ سچ ہی کہتے ہیں، بہنوں کی جان بھائیوں پر نثار ہے۔

لیکن یہ اسمبلی میں نہ جانے کیسے نمائندے اس قوم نے بھیج دیے ہیں جن کو ہماری روایات کا احساس ہی نہیں ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی والوں نے کوشش کی تھی کہ ایسا بل پیش کر دیں جس سے ملک سے غیرت کا خاتمہ ہو جائے، مگر قانون ساز ایوانوں میں جب اس پر مولانا حضرات نے تقریریں کیں تو یہ بل ناکام ہو گئے۔ اب دائیں بازو کی پارٹی سمجھی جانے والی مسلم لیگ ن نے یہ قبیح کام کر ڈالا ہے۔ انہوں نے بل پیش کر دیا ہے کہ اب کوئی غیرت مند شخص اپنی کسی عزیزہ کو قتل کر دے گا تو اس کا خاندان اس کی سزائے موت کو تو معاف کر سکتا ہے، مگر اسے عمر قید بھگتنی پڑے گی۔ ہائے ہائے، ان ظالموں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح کتنے ہنستے بستے گھر تباہ ہو جائیں گے۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ جوان بیٹے کو کھو دینے کا صدمہ کتنا شدید ہوتا ہے؟

بہرحال زنا بالجبر اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کے خلاف بل پیش ہوا تو اس پر جنوبی پنجاب کے ایک غیرت مند سپوت جمشید دستی سے برداشت نہ ہوا۔ وہیں بول پڑے کہ یہ سیشن تو مودی کی مذمت کے لئے بلایا گیا تھا، ”بھارتی فوجیں بارڈر پر کھڑی ہیں، ہمارے سینکڑوں فوجی زخمی ہو چکے ہیں اور کئی نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ یہ بل آج پیش کرنے کا کیا مقصد ہے؟ ہمیں دشمن کو ایک پیغام دینا ہے، مگر اس (زنا بالجبر کے خلاف) بل نے اسے دھندلا دیا ہے ۔۔۔ آج کل تو پانچویں جماعت کے بچوں کو بھی سیکس ایجوکیشن کا پتہ چل چکا ہے“۔ ان کے اس برحق اعتراض پر ہم نے قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھا تو پانچ سے سات اکتوبر تک ہونے والے جوائنٹ پارلیمانی سیشن میں پانچ اور چھے اکتوبر کے دن کا پہلا ایجنڈا تلاوت کلام پاک تھا، دوسرا کشمیر، تیسرے سے لے کر دسواں تک یہی زنا بالجبر اور غیرت کے نام پر قتل، اور آخری اس موضوع کو ختم کرنے کا اعلان تھا۔ سات اکتوبر کو صرف کشمیر ہی ڈسکس کیا جانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ ہمارے ایک این جی او والے صاحب نے تہمت لگائی کہ اسے جمشید دستی صاحب اس لئے پڑھنے سے قاصر رہے کہ وہ سیکس ایجوکیشن حاصل کرنے سے پہلے ہی سکول سے رخصت ہو گئے تھے یعنی وہ پانچویں درجے کی اعلی تعلیم سے محروم رہے ہیں۔ بہرحال یہ این جی او والے جو بھی کہیں، ہم تو جمشید دستی صاحب کی تعریف ہی کریں گے کہ اس دور اور اس عمر میں بھی وہ فطری شرم و حیا کے باعث ایسے سکول جانے سے انکاری ہیں جہاں سیکس ایجوکیشن دی جا رہی ہے۔

اب تک آپ پر یہ عیاں ہو چکا ہو گا کہ جمشید دستی صاحب صرف گفتار کے غازی نہیں ہیں، کردار کے غازی بھی ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے ان کے علاقے یعنی جنوبی پنجاب میں پانچویں تک بہت سے بچے نہیں پہنچ پاتے ہیں تاکہ وہ اس کم عمری میں سیکس ایجوکیشن سے آگاہ نہ ہو سکیں۔ اس کے لئے جمشید دستی صاحب کی کوششوں کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ این جی اوز سے وابستہ بعض نکتہ چیں کہیں گے کہ پانچویں جماعت کا بچہ بالغ ہو چکا ہوتا ہے اور اس عمر میں بچی کو پردے کا شرعی حکم ہے اور بچے کو بھی شرعی طور بالغ سمجھا جاتا ہے، اور اس وجہ سے بالغ کو سیکس ایجوکیشن دینے میں ہرج نہیں ہے۔ لیکن ان این جی اوز کا تو مقصد ہی ہماری تہذیب و ثقافت کو تہ و بالا کرنا ہے۔ ان کی بات سنیں تو گمراہ ہو کر فسق و فجور میں پڑ جائیں گے۔ مزید برآں جنوبی پنجاب کے ان دیہاتی سکولوں کو تلاش کر کے بند کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے جو کہ پانچویں جماعت میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دے رہے ہیں۔

جمشید دستی کو ایسا جرات مندانہ روایت پسند موقف رکھنے پر این جی اوز کی سازشوں کا نشانہ بننا پڑتا رہتا ہے مگر وہ کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے۔ فروری 2015 میں مشتاق سیال نامی ایک شخص کے گھر سے کئی مہینے پہلے لاپتہ ہونے والے سیف الدین نامی ایک آدمی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ وہ مشتاق سیال کی ایک رشتے دار لڑکی کے ساتھ گھر سے بھاگ گیا تھا، اسے مصالحت کے لئے بلا کر قتل کر دیا گیا۔ مقتول کے بھائی نے الزام عائد کر دیا کہ اس کے بھائی کو مشتاق سیال نے جمشید دستی صاحب کی شمولیت سے قتل کیا ہے۔ ان کمبخت این جی او والوں نے یہ خبریں چلا دیں کہ مشتاق سیال نامی یہ غیرت مند شخص، جمشید دستی کا محافظ اور ڈرائیور ہے اور ان کے ساتھ ہی رہتا ہے حالانکہ جمشید دستی صاحب نے صاف بتا دیا تھا کہ ان کا مشتاق سیال سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ جمشید دستی نے اپنی فطری مہمان نوازی کے باعث اس شخص کو اپنے ساتھ مہمان کے طور پر رکھ لیا ہو گا، اور اس کی دل دہی کے لئے اسے اپنی گاڑی بھی چلانے دیتے ہوں گے، اس پر این جی او والوں نے یہ افواہیں پھیلا دیں۔

گو کہ یہ بل جناب نواز شریف صاحب کی آشیرباد سے پیش ہوا تھا مگر ان کے داماد جناب کیپٹن صفدر صاحب کی غیرت سے یہ برداشت نہ ہوا کہ وہ اس حمایت میں ووٹ دے دیں۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی این جی او کی ایما پر یہ بل پاس کروا رہی ہے اور وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس پر سپیکر نے وفاقی وزیر پارلیمان امور آفتاب شیخ صاحب کو ان کی سیٹ پر بھیجا کہ مخالفت مت کریں۔ لیکن غیرتمند کیپٹن صفدر نے انکار کر دیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے جو کہ سسرالی رشتے سے کیپٹن صفدر کے خاندانی بزرگ لگتے ہیں، کیپٹن صفدر کو اپنے پاس بلا کر اپنا نقطہ نظر دیا اور بل کی حمایت کرنے کو کہا مگر غیرت مند کیپٹن صفدر نے بلا کسی خوف و لحاظ کے سیدھا کہہ دیا کہ وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں لیکن اپنا نقطہ نظر کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ خدا کیپٹن صفدر صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور محترمہ مریم نواز کو خاص طور پر اپنی حفاظت میں رکھے۔ اس خوبصورت جوڑے کا ذکر آیا ہے تو خدا ان کی بچی کا بھی خاص خیال رکھے جس کی شادی حال ہی میں ہوئی ہے جس میں شرکت کے بہانے ہندوستانی پردھان منتری خاص طور پر رائے ونڈ آئے تھے۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، دل اس بچی کی لمبی زندگی کے لئے دعا کرتا ہے۔ خدا اسے لمبی حیاتی دے۔

کیپٹن صفدر کے اس این جی او والے الزام کو کچھ وزن اس بات سے بھی ملتا ہے کہ نواز شریف صاحب نے اس بل کے پاس ہونے پر فرمایا کہ ”میں پارلیمان، این جی اوز، سول سوسائٹی، علمی دنیا، میڈیا اور ان تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے بہت محنت کی اور اس بل کو پاس کروانے کی خاطر ہماری حمایت کی“۔ نواز شریف صاحب جیسا مدبر شخص جو کہ خوب سوچ سمجھ کر ایک ایک لفظ منہ سے نکالتا ہے، پارلیمان کے فوراً بعد این جی اوز کو مبارکباد دے رہا ہے تو یہ اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔

ادھر سراج الحق نے بھی دینی و معاشرتی غیرت کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ اسمبلی میں یہ بل پاس ہونے سے اگلے دن جمعے کو انہوں نے دو تین کنال پر محیط جامع مسجد منصورہ میں تین چار لاکھ عوام کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جمعرات کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاس ہونے والے اس بل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اسے قرآن و سنت کے خلاف جانتے ہیں اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اکثریت کا سہارا لے کر یہ قانون بنا دیا ہے۔

جمہوریت میں اکثریتی فیصلے ہوا کرتے ہیں اور اس نظام میں یہی ہوتا رہے گا۔ بہتر یہی ہے کہ جناب سراج الحق غیرت ملی کا ثبوت دیتے ہوئے اس جمہوری پارلیمان سے نکل جائیں جہاں ان کے مطابق قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی ہوتی ہے۔ اسمبلی میں اکثریت تو ہمیشہ ان گمراہ جماعتوں ہی کی رہے گی، اور صالح جماعت ہمیشہ کی طرح قومی اسمبلی کی چار اور سینیٹ کی ایک سیٹ کے بل پر اکثریت کے ہاتھوں شکست کھاتی رہے گی، تو پھر اس پراسیس کا حصہ بن کر جماعت کو گناہ نہیں کمانا چاہیے۔

لیکن بات یہی ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرنے پر سراج الحق صاحب کو این جی اوز والے اب نہیں بخشیں گے۔ یاد دلائیں گے کہ جماعت اسلامی والے طالبان کو شہید کہتے تھے اور پاکستانی فوجی کو شہید ماننے سے انکاری تھے۔ یہ بھی کہیں گے کہ سابق امیر جماعت منور حسن صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ زنا بالجبر کے کیس میں خاتون کو چپ رہنا چاہیے اور رپورٹ نہ کرے۔ اس بات کو بھی اچھالا جائے گا کہ جب وہ مظلوم خاتون حاملہ ہو جائے گی تو اسے سنگسار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ غیرت کے معاملے میں سنگسار کی شرعی سزا دینا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ اس کے لئے چار ایسے باکردار گواہان کی ضرورت ہے جنہوں نے محض چند فٹ کے یہ عمل ہوتے ہوئے دیکھا ہو بالتفصیل دیکھا ہو اور یہ سزا صرف حکومت وقت ہی دے سکتی ہے، کسی فرد کو نجی حیثیت میں یہ سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ خواہ وہ غیرت کے نام پر قتل کر کے ہی یہ سزا دے دے، اسے فساد فی الارض کے درجے میں ہی رکھ کر فرد کی بجائے حکومت کے خلاف جرم سمجھا جائے گا اور اس میں حکومت فریق بن سکتی ہے۔ یعنی دیت کے معاملے میں حکومت کی رضامندی بھی لازم ہو گی۔ ان این جی او والے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ دین کے معاملے میں دخل مت دیں، دین کی فہم سید منور حسن اور جناب سراج الحق صاحب کو ہے، این جی او والوں کو نہیں ہے۔

شکر ہے کہ ہماری مقننہ میں جناب جمشید دستی، کیپٹن صفدر اور جناب سراج الحق صاحب جیسے غیرت مند افراد موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق یہ سب حضرات اس مشترکہ پارلیمانی سیشن میں موجود تھے۔ اخبارات کے مطابق ان کی موجودگی میں ہی یہ قانون متفقہ طور پر پاس کیا گیا ہے، یعنی پارلیمنٹ میں موجود کسی ایک رکن نے بھی اس قانون کی مخالفت نہیں کی ہے۔

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

غیرت نام ہے جس کا گئی قانون کے گھر سے

Oct 9, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments