اجی سنتے ہو؟ تمہاری اولاد مرنے کو ہے!


کوئی ایسا بھائی بھی ہوگا جو اپنی ہی بہن کو بازاری زبان استعمال کر کے روز اس مقدس رشتے کو تار تار کرتا ہوگا۔ کتنی ہی عورتیں ہوں گی جو اپنے گھر کام کرنے والی کم عمر بچیوں کو اذیت دیتی ہوں گی۔ کتنی ہی نئی شادی شدہ ایسی لڑکیاں ہوں گی جو شادی کا تمغہ گلے میں سجانے کے بعد شو بازی میں اپنی ہی دوستوں کو پیار پیار سے ذلیل کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتی ہوں گی۔ یہ سب ہم دیکھتے ہیں، سمجھ بھی آتا ہے اور اس کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ محبت میں دھوکا دینے والے کو چھوڑ دیا جائے، جس رشتے دار نے ہراساں کیا ہو اس سے چھپ جایا جائے، جس باس نے تذلیل کی ہو وہ نظر آئے تو دل میں اسے بڑی سی گالی دے دی جائے، جس شوہر نے ہاتھ اٹھایا ہو اس کے لئے نماز میں دعا نہ مانگی جائے، جس عورت نے آپ کو طنز کیا ہو اسے ہر جگہ بلاک کردیا جائے یہ سب طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن ایک چیز یہاں سب سے زیادہ مسنگ ہے۔ کیا یہ سب جب ہورہا ہوتا ہے اور اس وقت آپ جس کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں آپ کو کوئی سننے والا ہے؟ کیا وہ آپ کے ماں باپ یا بڑے بہن بھائی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ جینے کی امید چھوڑنے کی طرف جانے والے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ جب آپ کسی بھی مشکل سے دو چار ہوں اور اس کا اثر براہ راست آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرنے پر آجائے تو اس وقت آپ کو اگر گھر سے حوصلہ مل جائے تو وہ شخص پھر سے زندہ دلی کی جانب لوٹتا دکھائی دے گا۔ لیکن مسئلہ یہاں ہے کیا؟ ہم سنتے نہیں ہیں اور سنے بغیر ہی وہ سمجھ لیتے ہیں جو ہم نے اپنے ذہن میں خاکہ بنایا ہوتا ہے اگر بچہ کبھی اتنا بھی کہہ دے کہ اماں میں بہت بے سکون اور بے چین سا ہوں تو فوراً جملہ آتا ہے اور نماز نہ پڑھو، قرآن کھولے تو تمہیں زمانہ ہی ہوگیا تب ہی تو ایسا ہو رہا ہے اور وہی بات ختم۔ کیونکہ والدین کبھی یہ سننا نہیں چاہتے کہ ان کے سگے یا عزیز رشتے دار کی جانب سے ان کے بچے کو جنسی تشدد یا ہراسانی دی گئی ہے۔ وہ کبھی یہ سننا نہیں چاہیں گے کہ ان کے بیٹے یا بیٹی کو ان کی درسگاہ یا آفس میں ان ہی کی جنس کے فرد نے غلط انداز سے چھونے کی کوشش کی۔ وہ کبھی یہ جاننا نہیں چاہیں گے ان کی بیٹی کو محبت میں دھو کہ ملا اور اب وہ بلیک میل ہورہی ہے۔ وہ کبھی یہ دیکھنا نہیں چاہیں کہ ا ن کا بیٹا دوسروں کی بیٹیوں کو بلیک میل کر رہا ہے یا انھیں فون پر ڈرا دھمکا رہا ہے۔

وہ کبھی یہ سمجھنا نہیں چاہیں کہ وہ جن عزیزوں پر جان چھڑکتے ہیں ان کی اولاد ان کے نام سننے پر ہی کیوں بدک جاتی ہے۔ وہ کبھی یہ تسلیم کرنا نہیں چاہیں گے کہ ان کا بچہ اچانک آئے ان کے گلے سے لگے، چیخیں مار مار کر روئے اور پھر جب تھک جائے تو یہ کہے کہ ماں میری روح اور جسم کو بار بار چھلنی کیا جاتا رہا ہے اب مجھے بچاؤ میں مرنے کے قریب ہوں۔

ہم اپنے بچوں سے سب اچھا ہے سننا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ گریڈز ہو یا نوکری، شادی کے لئے پسند کی گئی لڑکی یا لڑکا ہو یا آگے کی خوشخبری۔ جس روز اس سے ہٹ کر کچھ سننے کو ملے تو اکثر والدین کے رویے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ایک شادی ختم ہونے پر ہے لڑکا روز نوکری پر جارہا ہے اور ساتھ ساتھ اس معاملے کی سنگینی کو بھی دیکھ رہا ہے کہ کسی بھی وقت اس کا گھر ختم ہوجائے گا۔ لیکن اس کی ماں جب بھی بیٹے کی طرف دیکھے گی تو اسے یہ ہی کہے گی کہ فکر مت کرنا اس سے اچھی لڑکی ڈھونڈ کر لاوں گی۔

جبکہ بیٹا اس وقت اس کیفیت میں ہے جب اسے کہا جائے کہ یہاں بیٹھ اور اپنا دل کھول کر رکھ۔ مشکل وقت ہے ہم مل کر اس سے نکلیں گے۔ ہم ظاہر پر بات کریں گے باطن میں چھپے خدشات، خوف، بے یقینی پر نہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں، مختلف افراد سے بات کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ نوجوانوں میں خود کشی کا بڑھتا رجحان اس لئے بھی ہے کہ انھیں سنا نہیں گیا اور اگر سنا گیا تو کچھ عرصے بعد ان سے ہونے والی غلطیوں کو بار بار طعنے دینے کے لئے دہرایا گیا گویا وہ جس کرب سے گزر رہے تھے اس میں اضافہ ہوتا گیا۔

یاد رکھئے دنیا کو زیادتی کرنے کا حق اس وقت زیادہ ملتا ہے جب وہ یہ جان لے کہ جس کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے اسے سب سے زیادہ خوف گھر سے ہے۔ جب ظالم یہ جان لیتا ہے کہ میرا کیا ہوا ظلم اگر بیان کر بھی دیا گیا تو مظلوم کو نہ مدد ملے گی نہ ہی تسلی تو وہ زیادتی کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ بچے کو اچھا کھلانے، پڑھانے، پہنانے اور جائیداد میں حصہ دینا ہی سب کچھ نہیں۔ وہ اپنی عمر کے آخری وقت تک کہیں نہ کہیں اس دور سے گزرتا ہے جہاں اسے دنیا جہنم اور گھر واحد پناہ لگتا ہے۔

اپنے چپ رہنے والے، اندھیروں میں جاگنے والے، آہستہ آہستہ شوق کو چھوڑنے والے بیٹے یا بیٹی کے پاس چاہے وہ کتنی ہی عمر کا کیوں نہ ہوجائے اس کے پاس ا یک بار جاکر دیکھیں۔ کچھ نہ کریں صرف اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر یا سینے سے لگا کر اتنا کہہ دیں کہ پریشان نہ ہو میں ہوں تمہارے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ پر یہ راز اس روز کھل جائے گا کہ وہ کس کرب سے گزر رہا ہے یا ماضی میں گزرا ہے۔ شاید آپ کا ایک بار ایسا کرنا اسے جینے کی وہ چھوٹی سی امید دے جو بس ختم ہی ہو چلی تھی۔ جس کے کچھ روز بعد آپ کے گھر کے اندر اور باہر کھڑی دنیا نے سوال کرنا تھا۔ ”اچھا بھلا تھا روز ہی دیکھتے تھے یہ اچانک کیا ہوا؟ “۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar