مولوی کس نے بنایا؟


ہم سے پہلے بھی ایک دنیا تھی اور لوگ تھے اور ہمارے جانے کے بعد بھی دنیا رہے گی اور اس کے لوگ بھی۔ جو بوئیں، وہی کاٹنا ہوتا ہے۔ نفرت بوئیں گے تو آنے والی نسلیں‌ نفرت ہی سہیں گی۔ اپنے اردگرد دیکھیں۔ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، جو بھی دوائیں ہیں ان سب پر ہم سے پہلے گذرے ہوئے لوگ کام کرگئے۔ ہمیں بھی اپنا حصہ بٹانا چاہئیے۔ تباہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور کچھ بنانا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔

مجھے ریڈیو اسٹیشن ون او ٹو پوائنٹ سیون بہت پسند ہے اس میں‌ اچھے گانے چلتے ہیں، کبھی کبھار ذرا سا ہل جائے تو ایک عیسائی مولوی ریڈیو اسٹیشن چلنے لگتا ہے۔ وہی سارے قصے ذرا سے مختلف ذائقے کے ساتھ۔ دنیا ختم ہو رہی ہے، ہم سب تباہ ہو رہے ہیں، مسلمان ہمارے ملکوں‌ پر حملہ آور ہیں اور عیسائیت کا دفاع کرو وغیرہ وغیرہ۔ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ اگر اس کو دفاع کی ضرورت ہے تو سوچئیے کہ کیوں؟ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں‌ آیا۔ ایک بات آپ کو وثوق سے بتا سکتی ہوں، سارے مولوی ایک جیسے ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں‌ پڑتا کہ وہ کس مذہب، فرقے یا قومی پس منظر سے ہیں۔

یہ لوگ صبح‌ شام یہی واعظ کر رہے ہوتے ہیں کہ امریکہ کی حکومت کو عیسائی بنا دیا جائے۔ شکر ہے کہ امریکہ میں‌ اب بھی اتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں جو ان کی بات سنتے ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بائبل بیلٹ میں‌ ہر سڑک پر ایک چرچ ہے۔ کوئی کیتھولک، کوئی پریسبیٹیرین، کوئی مورمن، کوئی بیپٹسٹ اور کوئی پروٹسٹنٹ۔ کون سی عیسائیت کی حکومت بنائیں گے؟ ملک چلانا جیسے کہ بچوں‌ کی تعلیم، صحت کا شعبہ، بینک سسٹم، فوج، بزنس ہر چیز ٹھپ ہوجائے گی اور لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوں‌گے۔ اس طرح‌ امریکہ سپر پاور کیسے رہے گا؟

میں‌ نے ان لوگوں‌ کی سائیکالوجی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سمجھ میں‌ آیا کہ کچھ عیسائی مولوی اوکلاہوما کے چھوٹے چھوٹے گاؤں‌ اور شہروں‌ میں‌ بستے ہیں۔ ان میں سے کافی سارے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں‌ اور اپنے گاؤں‌ کے ننھے چرچ میں‌ ہر سنڈے جاتے ہیں۔ وہ شام میں گھر آکر ٹی وی پر فاکس نیوز دیکھتے ہیں جس کے بارے میں‌ آپ جانتے ہوں‌ گے کہ وہ اول نمبر کا جھوٹا، شکی اور تنگ نظر ٹی وی اسٹیشن ہے۔ باقاعدہ ریسرچ سے پتا چلا کہ وہ صاف جھوٹی باتیں بناتے ہیں اور جو لوگ جتنا فاکس نیوز کا چینل دیکھتے ہیں ان کا جنرل نالج کا اتنا ہی برا اسکور آتا ہے۔ وہ دنیا میں‌ زیادہ گھومے پھرے نہیں اور ان کو ایک ہی طرح‌ رہنے کی عادت ہے۔ اس دائرے سے باہر وہ نہایت بے آرامی محسوس کرتے ہیں۔ ان کو قطعاً اندازہ نہیں کہ دنیا کتنی بڑی، کتنی پیچیدہ، کتنی خوبصورت اور کتنی دلچسپ ہے۔ ان کو صرف اپنی دنیا ساری دنیا لگتی ہے اور وہ ساری دنیا کے سارے لوگوں‌ کو اپنے جیسا بنا دینا چاہتے ہیں جو ہو نہیں سکتا اور ہونا بھی نہیں چاہئیے۔

میری امی ایک نہایت ہمدرد خاتون ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہمیشہ ان کو دوسروں کے لئیے کچھ کرتے دیکھا۔ جب ہم چھوٹے بچے تھے تو وہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ پر دو چار غریبوں‌ کو ضرور تھوڑے سے پیسے بھیجتی تھیں۔ جہاں‌ بھی ہم لوگ رہے، انہوں‌ نے ایسا ہی کیا۔ کراچی میں‌ ایک ایدھی سنٹر ہوتا تھا جس کا نام تھا اپنا گھر۔ وہ اس کو بھی پیسے بھیجتی تھیں۔ سکھر میں‌ ہمارے گھر کے بالکل قریب ایک مسجد تھی جس میں ایک مولوی صاحب دن میں‌ پانچ مرتبہ اذان دیتے تھے۔ ان کا گھر بھی مسجد کے ساتھ ہی تھا۔ وہ ایک غریب اور شریف انسان تھے۔ امی جن لوگوں‌ کو پیسے بھیجتی تھیں‌ ان میں‌ یہ مولوی صاحب بھی شامل تھے۔ اگر کبھی پہلی سے دوسری تاریخ ہوجاتی تو وہ خود دروازے پر آکر گھنٹی بجاتے اور کہتے کہ آج دوسری تاریخ‌ ہو گئی اور آپ نے پیسے نہیں‌ بھیجے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے حالات کتنے خراب ہوں‌ گے کہ وہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کے لئے بھی ایک دن انتظار نہیں‌ کرسکتے تھے۔ ہر انسان کی طرح‌ ان پر بھی ان کے بچوں‌ کی ذمہ داری تھی۔ ایک مرتبہ میں‌ سنار کی دوکان سے کچھ خرید رہی تھی تو دیکھا کہ یہی مولوی صاحب صبح میں‌ ہر دوکان پر چکر لگا کر دعا پڑھ کر پھونک کر جا رہے ہیں جس کے عوض یہ دوکاندار ان کو تنخواہ دیتے تھے۔

معاشرے کی بنیاد اور اس کا نظام سمجھنا اتنا کوئی مشکل کام نہیں‌ ہے۔ بچوں‌ کو سماجی نظام سمجھانے والے ایک وڈیو گیم کی مثال لیں جس میں‌ ایک کارٹون کریکٹر پالا جاتا ہے۔ کچھ کام کرنے سے پوائنٹس ملتے ہیں اور کچھ کام کرنے سے پوائنٹس گھٹتے ہیں۔ ہر انسان کو دنیا میں‌ جو بھی ملتا ہے یا ملنا چاہئیے وہ ان خدمات کے عوض ہوتا ہے جو وہ فراہم کرے۔ جیسے کہ ایک ٹیچر پڑھاتا ہے، ایک ڈرائیور گاڑی چلاتا ہے اور ڈاکٹر مریض‌ کا علاج کرتا ہے۔ ان خدمات کے بدلے میں‌ ان لوگوں‌ کو تنخواہ ملتی ہے جس سے وہ اپنی فیملی کو سپورٹ کرتے ہیں۔

ریزیڈنسی شروع کرنے سے پہلے ایک ہسپتال میں‌ والنٹیر کام کیا۔ ایک دن ہم لوگ ایمرجنسی روم میں‌ کام کررہے تھے تو ایک مریض‌ آیا، اس نے بہت نشہ کیا ہوا تھا، آتے ہی گھٹنوں‌ کے بل گر گیا اور الٹی کر دی۔ سب لوگ ادھر ادھر سے بھاگے آئے اس کی مدد کرنے لگے۔ میں‌ نے دیکھا کہ دنیا میں‌ دو طرح‌ کے انسان پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو خود اپنا خیال تک نہیں‌ کرسکتے اور دوسرے وہ جو اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں‌ اور دوسروں‌ کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ہر انسان اپنے لیے یہ راستہ چن سکتا ہے کہ اس کو کون سا انسان بننا ہے۔ ہر ملک بھی اپنے لیے یہ چن سکتا ہے۔ دنیا میں‌ ان لوگوں‌ کی ہی عزت ہوتی ہے جو نہ صرف اپنا بوجھ اٹھائیں بلکہ آگے دوسرے لوگوں‌ کے لئیے بھی کچھ کریں۔ مستقبل بہتر کرنے کا یہی درست راستہ ہو گا کہ کل کے انسانوں‌ میں‌ انویسٹ کیا جائے۔

اگر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مولوی کی جاب بہت اہم ہے تو پھر اس کو وہی عزت بھی دیں۔ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کتنے لوگوں‌ کی خدمت کے لئیے ایک مولوی چاہیے ہوگا پھر اس کی اتنی تنخواہ باقاعدہ حکومت کی زیر نگرانی ہو جس سے وہ اپنے خاندان کو باعزت طریقے سے پال سکیں اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کرسکیں۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ کئی ملکوں‌ میں‌ بڑی کانفرنس ہوتی ہیں جہاں دنیا بھر سے لوگ انٹر فیتھ اور تقابلی مذاہب (کمپیریٹو ریلیجن) پڑھنے آتے ہیں۔ اسلام کے بڑے ماہر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواتین اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ ہیں جن کی معلومات وسیع ہیں۔ ہر تھوڑے سے فرق پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجانے اور خون خرابا کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ آخری مقصد کیا ہے؟ آخری مقصد دنیا کو بہتر جگہ بنانا اور اس دنیا کے انسانوں‌ کی زندگی بہتر بنانا ہے۔

مولوی کی جاب کی بھی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے لیکن وہ اتنی نہیں‌ کہ ان کو ایک باعزت متوسط طبقے کی زندگی گذارنے کے لائق بنا سکے۔ سروائول ہر انسان کا حق ہے۔ ان لوگوں‌ کو بھی پتا چل گیا کہ کتنے لوگوں‌ کے دماغ اعتقادات میں‌ کس قدر جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کے آگے اور کوئی راستہ نہیں‌ رہا سوائے اس کے کہ لوگوں‌ کو مزید اس ذہنی قید میں‌ خوف سے مفلوج کردیا جائے تاکہ ان کی آمدنی کا سلسلہ جاری رہے۔ حالانکہ وہ سبھی جانتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر کہ نظام انسانوں‌ کا ہی بنایا ہوا ہے۔ انسانو‌ں‌ کے ہاتھ میں‌ ہے کہ وہ اس کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

کچھ سال بعد یہ افسوسناک خبر سنی کہ ان مولوی صاحب نے دریائے سندھ میں‌ کود کر خود کشی کر لی۔ ان کی موت کا ذمہ دار ہمارا معاشرہ ہے۔ ان کی موت کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ سوچئیے کتنے مولوی جان دیتے رہتے؟ آخر کو انہوں‌ نے ہماری اور ہمارے بچوں‌ کی جانیں‌ لینا شروع کیں۔ ایسا کرنے پر ان کو کس نے مجبور کیا؟ ہم سب نے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں‌ کہ کیتھولک مولویوں نے انسانوں‌ کی تعداد کو اپنے فائدے میں‌ استعمال کرنا شروع کیا۔ اسی لئیے وہ برتھ کنٹرول کے خلاف ہیں۔ کیونکہ برتھ کنٹرول سے ایک طرف انسان کم ہوں‌ گے اور دوسری طرف ان کی زندگی میں‌ خوشحالی اور بہتری آئے گی۔ دکھی، غریب، کم پڑھے لکھے اور غم زدہ انسان ہی مذہب کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں جیسا کہ ہم دنیا بھر میں‌ کی گئی ریسرچ سے جانتے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا اگر ہر شہری پر سائنس، میتھ، فلسفہ پڑھنا لازمی ہوتا اور ہر انسان کے پاس ایک ہنر ہوتا جس سے وہ خود کفیل ہوسکتا۔

Pakistani father Gulzar Khan, 57, who has 37 children from his three wives

کچھ لوگوں‌ کو میں‌ جانتی ہوں‌ جو پبلک اسکول سسٹم کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے بچوں‌ کو ہوم اسکول کراتے ہیں۔ حالانکہ ان کو خود دو جملے ٹھیک سے لکھنا نہیں‌ آتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ اپنے بچوں‌ کو گھر میں‌ کیا اور کیسے پڑھاتے ہوں گے۔ 23 سال اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں‌ پڑھ کر بھی میں‌ خود اپنے بچوں‌ کو نہیں پڑھا سکتی ہوں۔ اس سال کی دسویں کلاس کی بائیولوجی میں‌ بالکل نئے کانسیپٹ شامل کئیے گئے ہیں جو ہمارے زمانے میں‌ دریافت تک نہیں‌ ہوئے تھے۔

لوگوں‌ کو اپنے مولویوں‌ سے یہ ڈیمانڈ کرنا ہوگی کہ وہ اعلیٰ تعلیم لے کر واپس آئیں‌ اور اپنے اردگرد بہتری لانے کی کوشش کریں۔ دیکھیں‌ کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو پی ایچ ڈی تو نہیں‌ دیتے رہے۔ یہ دیکھیں‌ کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کس طرح‌ انہوں‌ نے نتائج اخذ کئیے۔ یہ یاد رہے کہ آخر میں‌ ہاں‌ یا ناں‌ کہہ دینے کا آخری حق ہر انسان کو خود ہے۔ ہمیں‌ اپنے ملک کے بچوں‌ کو اعلیٰ تعلیم دینی ہوگی خاص طور پر لڑکیوں‌ کو۔ مولویوں‌ کو بھی معاشرے کا ایک فعال رکن ہونا چاہئیے جو پارٹ ٹائم مولوی ہوں۔ اسی طرح‌ کچھ بہتری کا امکان ہے۔ مولوی کہاں سے آیا؟ یہ ہم سب نے مل کر بنایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments